ملکیت سنگھ مچھانہ، ریڈیو سے اردو سیکھنے والا قلمکار... جمال عباس فہمی

ملکیت سنگھ 10 جنوری 1961 میں پنجاب کے ضلع بھٹنڈہ کے گاؤں مچھانہ میں پیدا ہوئے، ان کے والدین سردار ہر نیک سنگھ اور سردارنی سرجیت کور نا خواندہ تو تھے مگر شریف اور ایماندار تھے۔

<div class="paragraphs"><p>ملکیت سنگھ مچھانہ</p></div>

ملکیت سنگھ مچھانہ

user

جمال عباس فہمی

ریڈیو پر اردو خبریں سن سن کر وہ اردو کے عشق میں گرفتار ہوا۔ اسکو اردو پڑھانے والا استاد ریڈیو ہے۔ اس نے ریڈیو سے اس انداز سے اردو سیکھی کہ آج وہ اردو کا افسانہ نگار ہے۔  اس کے تحریر کردہ افسانوں کا مجموعہ بڑے بڑے اردو دانوں اور ناقدین ادب کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔  اس کے لکھے افسانے دنیا بھر کے موقر رسائل، جرائد اور اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ وہ اردو دنیائے ادب کا واحد ایسا قلمکار ہے جس کا اردو سے صوتی رابطہ پہلے ہوا  اس کے حروف سے آشنائی بعد میں ہوئی۔  اس کے افسانے پڑھنے والے اسے راجندر سنگھ بیدی کا جانشین کہتے ہیں۔ جی ہاں ہم بات کررہے ہیں بھٹنڈہ پنجاب کے ملکیت سنگھ مچھانہ کی۔ ریڈیو پر اردو خبریں سننے سے لیکر اردو کا افسانہ نگار بننے تک کا ملکیت سنگھ مچھانہ کا سفر بہت دلچسپ، حیرت انگیز اور قابل تقلید ہے۔ ملکیت سنگھ مچھانہ کی افسانہ نگاری پر تفصیل سے گفتگو کرنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفر کی جانکاری حاصل کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔

ملکیت سنگھ 10 جنوری 1961 میں پنجاب کے ضلع بھٹنڈہ کے گاؤں مچھانہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین سردار ہر نیک سنگھ اور سردارنی سرجیت کور نا خواندہ تو تھے مگر شریف اور ایماندار تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو اچھی سے اچھی تعلیم دلانے کی کوشش کی۔ ملکیت سنگھ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں مچھانہ کے سرکاری پرائمری اسکول میں حاصل کی۔ 1977 میں انہوں نے میٹرک کا امتحان ضلع بھٹنڈہ کے سنگت منڈی کے سرکاری ہائی اسکول سے پاس کیا۔ بھٹنڈہ کے ہی ڈی اے وی کالج سے prep کرنے کے بعد ملکیت سنگھ نے فرید کوٹ کے گرو تیغ بہادر پالی ٹیکنیک سے الیکٹریکل انجینئرنگ کا تین سالہ ڈپلومہ حاصل کیا۔ 1983 میں انہیں بطور لائن مین پنجاب اسٹیٹ بجلی بورڈ میں ملازمت مل گئی۔ بجلی بورڈ میں ملکیت سنگھ نے 35 برس تک محنت اور ایمانداری کے ساتھ ملازمت کی اور 2019 میں اسسٹنٹ ایکزیکیٹیو انجینئر (AEE) کے عہدے سے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے۔


حالانکہ ملکیت سنگھ کو جو گھریلو ماحول میسر ہوا وہاں نہ اردو کا گزر تھا نہ شعر وادب کا۔  اس کے باوجود ان کے دل میں اردو کا عشق پیدا ہوا اور وہ ایک قلمکار بنے تو اسے ایک کرشمہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ اردو سے آشنائی کا انکا سفر 1977 میں ریڈیو پر خبریں سننے کے چسکے سے شروع ہوا۔ ایک زمانے میں ہندی انگریزی اور اردو میں ریڈیو پر خبریں یکے بادیگرے نشر ہوا کرتی تھیں۔ وہ خبروں کا بلیٹن پنجابی زبان میں بھی سنا کرتے تھے۔ ملکیت سنگھ نے یہ وطیرہ اختیا کر رکھا تھا کہ پہلے وہ خبروں کو ہندی میں سنتےتھے  اس کے بعد انگریزی میں اور  اس کے بعد اردو میں سنا کرتے تھے۔ اس طرح انہیں یہ علم ہوتا چلا گیا کہ کس پنجابی، ہندی اور انگریزی لفظ کو اردو میں کیا کہتے ہیں اور اسکا تلفظ کیا ہے۔ ۔ آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ وہ بی بی سی کی ہندی اور اردو سروس اور لاہور ریڈیو کی خبریں اور دیگر پروگرام بھی سنتے تھے۔ اس طرح اردو الفاظ سے وہ صوتی اعتبارسے تو واقف ہو گئے تھے لیکن اصل مسئلہ اردو زبان کی حروف شناسی کا تھا  اس کے لئے انہوں نے پنجاب کے محکمہ لسانیات، پنجاب اردو اکیڈمی اور NCPUL (قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان) کے وسیلے سے اردو لکھنا اور پڑھنا سیکھا اور اردو شناسی کی سندیں حاصل کیں۔ اردو زبان کے حروف اور الفاظ کو لکھنے میں انہیں منڈی ڈبوالی کے ماسٹر پیارے لعل کی بھی بہت مدد حاصل ہوئی۔ ۔ اردو میں فارسی الفاظ کی آمیزش کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے ملکیت سنگھ نے پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ سے فارسی زباں دانی کا ایک سال کاسرٹی فکیٹ کورس کیا۔ فارسی زباں دانی کا سرٹی فکیٹ کورس کرنے کے بعد انہیں اپنے روحانی گرو،گرو گوبند سنگھ کی فارسی تحریر 'ظفر نامہ' کو سمجھنے میں بہت آسانی ہوئی۔ یہی نہیں بلکہ اردو سیکھنے سے انہیں پنجابی زبان کے بہت سے الفاظ کی صحیح تلفظ کے ساتھ ادائےگی میں بھی بہت مدد ملی۔

اردو میں باقاعدہ افسانہ نگاری سے پہلے وہ پنجابی میں مضامین لکھنے لگے تھے۔ لیکن ملازمت سے سبکدوشی کے بعد انہوں نے اردو میں لکھنے پڑھنے کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ ملکیت سنگھ نہ صرف افسانے لکھتے ہیں بلکہ مختلف موضوعات پرسنجیدہ مضامین اور طنزیہ و مزاحیہ مضامین بھی تحریر کرتے ہیں۔ انکی سب سے پہلی تحریر جو شائع ہوئی وہ ایک طنزیہ اور مزاحیہ مضمون 'خیر طبیعت تو ٹھیک ہے' تھی جو 2018 میں 'زبان و ادب میگزین' میں شائع ہوئی تھی۔ انکا تحریر کردہ پہلا افسانہ 'غیرت مند خانم' 2019 میں 'زبان و ادب میگزین' میں شائع ہوا تھا۔ جہاں تک ملکیت سنگھ کے طرز تحریر اور موضوعات کا معاملہ ہے تو انہوں نے ایک خاص اسلوب اختیار کیا ہے جو اردو فکشن نگاری میں انکی شناخت بن گیا ہے۔ ان کے افسانوں کی خاص بات ان کے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر انکی حقیقت بیانی ہے۔ ان کے افسانوں سے گہرے مشاہدے کی کرنیں پھوٹتی نظر آتی ہیں۔ معروف فکشن نگار پروفیسرغضنفر کا کہنا ہے کہ ''ان کی کہانیوں کا رنگ و آہنگ اردو کی دیگر کہانیوں سے جدا ہے۔ انکی کہانیوں میں ایک نیا رنگ دکھائی دیتا ہے۔ نیا آہنگ سنائی دیتا ہے۔ یہ رنگ و آہنگ اردو زبان کے فکشن میں نیا ذائقہ شامل کرتے ہیں۔''


مولانا آزاد اردو یونیورسٹی حیدر آباد کے شعبہ اردو کے پروفیسر ڈاکٹر افروز عالم کی رائے ملکیت سنگھ مچھانہ کی افسانہ نویسی کی خصوصیات کے تعلق سے یہ ہے کہ ''ان کے افسانوں کا دائرہ اکیسویں صدی کے چہروں کی روداد ہے جس میں انکا مشاہدہ،ان کے احساسات اور سماجی و ادبی سروکار شامل ہیں۔ انکی افسانہ نگاری کی خوبی یہ بھی ہے کہ اسے عوام و خواص دونوں طبقوں سے یکساں سروکار ہے۔''

ان کے افسانوں کی زبان میں کہیں کہیں پنجابیت کا اثر نظر آتا ہے لیکن وہ قاری کو ناگوار نہیں گزرتا بلکہ وہ طرز تحریر میں ایک قسم کی شیرینی کا سبب بنتا ہے۔ وہ زبان سادہ اورسلیس لکھتے ہیں لیکن اسکو سپاٹ نہیں ہونے دیتے۔ ان کے افسانوں کے موضوعات پنجاب کی سماجی،ثقافتی اور مذہبی زندگی سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ ملکیت سنگھ کو اپنے افسانے بیانیہ انداز میں لکھنے کا شوق بھی ہے اور اس میں انہیں ملکہ بھی حاصل ہے۔ ان کے بیانیہ انداز کی بدولت ہی افسانے میں کہانی پن برقرار رہتا ہے۔ ملکیت سنگھ سماجی برائیوں پر بے لاگ انداز میں لکھتے ہیں۔ کہیں کہیں وہ ایک ماہر نفسیات کی طرح انسانی نفسیات کی گتھیاں سلجھاتے نظر آتے ہیں تو کہیں انکا انداز واعظانہ اور مصلحانہ ہوتا ہے۔ افسانے 'شاملات' کا ایک اقتباس دیکھئے جس میں ملکیت سنگھ نے زندگی کا فلسفہ بیان کیا ہے۔


''تو اکثر کہا کرتا تھا کہ زندگی چلنے کا نام ہے۔ اسکی فطرت میں مسلسل بہنا ہے۔ جیسے ٹھہرے ہوئے پانی میں سڑاند پیدا ہو جاتی ہے ایسے ہی اگر زندگی میں جمود پسر جائے تو بدبو آنے لگتی ہے۔ بس پختہ مزاجی سے آگے بڑھتے چلو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں تیرے ان اقوال پر ڈٹ کر پہرا دے رہی ہوں۔ تم تو دو پھول میری گود میں ڈال کر چلے گئے۔  اس کے بعد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے اوپر کیا بیتی۔ ۔ ۔ وہ شب ظلمت میں نے کیسے گزاری۔ ۔ ۔ بس میں ہی جانتی ہوں۔ میرے تخت کا تو تختہ پلٹ گیا۔''

اردو سے عشق اسکی اہمیت اور اردو کی ہندستانیت کے تعلق سے ان کے افسانے 'نایاب سونا' کا یہ اقتباس دیکھئے۔

''میں تو اردو زبان کا سودائی ہوں جی۔ ابھی میں نے کہنا ہی شروع کیا تھا کہ انہوں نے قطع کلامی کردی۔ پر آپکی مادری زبان تو پنجابی گور مکھی ہوگی۔ بلا شبہ۔ ۔ ۔ ۔ پنجابی ہے۔ پنجاب کا تو گہرا تعلق ہے اردو زبان سے۔ اسکا تو نام ہی اردو فارسی حروف و الفاظ پر مشتمل ہے۔ ۔ ۔ ۔ پنجاب۔ ۔ پنجاب کا مطلب ہے۔ پنج آب یعنی پانچ ندیاں۔ ۔ ۔ ۔ میں اس زبان سے بے پناہ محبت کرتا ہوں۔ یہ بہت عمدہ اور شیریں زبان ہے۔ ماضی میں اردو کے جتنے بھی مشہور و معروف شعرا اور ادبا ہوئے ہیں ان سب کا تعلق پنجاب سے ہی تو تھا۔ جیسے سعادت حسن منٹو، راجندرسنگھ بیدی، کنور مہندر سنگھ، کرشنا سوبتی اور کرشن چندر وغیرہ وغیرہ۔ ۔ میں پنجابی اور اردو دونوں ہی زبانوں میں لکھا کرتا ہوں۔''


افسانہ نگاری کے معاملے میں ملکیت سنگھ کا موازنہ معروف فکشن نگار راجندر سنگھ بیدی سے کیا جا رہا ہے جن کا تعلق بھی بھٹنڈہ سے ہی تھا۔ ۔ میرے خیال سے یہ موازنہ قطعی نا مناسب ہے۔ دونوں کا دور الگ الگ ہے دونوں کے دور کے مسائل،معاملات اور حالات جدا ہیں۔ بیدی نے تقسیم وطن اور  اس کے بعد کے درد ناک واقعات کو بیان کیا۔ ملکیت سنگھ مچھانہ کا سابقہ اکیسویں صدی کے پنجاب کے حالات مسائل اور معاملات سے پڑا ہے۔ دونوں افسانہ نگاروں میں ایک قدرے مشترک یہ ہے کہ دونوں نے جو کچھ لکھا اپنے گہرے مشاہدے کی بنیاد پر لکھا اسی لئے انکی تحریروں میں گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی۔ دونوں افسانہ نگاروں کی تحریروں کو پڑھنے والا خود کو ان سے جڑا ہوا محسوس کرتا ہے۔ ملکیت سنگھ کی افسانہ نگاری کی عمر ابھی بہت کم ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس کم عمری میں ہی وہ سن بلوغ کو پہونچ چکی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔