اردو ادب کی کہکشاں معدوم ہو گئی

زندگی کی تمام تر ضروریات کی تکمیل کے باوجود ایک کمی کے احساس کا بیان کہکشاں کی تخلیقات کا ایک اہم عنصر ہے۔ کہکشاں نسوانی جذبات اور خواتین کی نفسیاتی گتھیوں کو پیش کرنے کا ہنر بہت اچھی طرح جانتی تھیں

<div class="paragraphs"><p>کہکشاں پروین</p></div>

کہکشاں پروین

user

جمال عباس فہمی

اس برس کے چھ مہینے مکمل ہونے کو ہیں اور اردو ادب کو چھ قلم کاروں کی وفات کے صدمات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ سلام بن رزاق، منور رانا، راشد انور راشد اور شمیم انور کے انتقال پر ملال کے بعد پانچ روز کے اندر دو اور اردو قلمکار ڈاکٹر کہکشاں پروین اور خلیل مامون بھی دار فانی سے دار بقا کی جانب کوچ کر گئے۔ شاعرہ، محققہ اور فکشن نگار ڈاکٹر کہکشاں پروین 17 جون کو شب میں ساڑھے گیارہ بجے 66 برس کی عمر میں اردو ادب کو داغ مفارقت دے گئیں۔ ان کے پسماندگان میں پانچ افسانوی مجموعے، نثری نظم کا ایک مجموعہ، تحقیقی موضوعات پر چند کتابوں کے ساتھ ساتھ شوہر، دو فرزند اور ایک دختر شامل ہیں۔ وہ رانچی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی سربراہ بھی رہیں۔ خواتین کی زندگی کے گونا گوں مسائل اور معاملات پر لکھناانکا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ کہکشاں پروین کی ادبی کاوشوں پر تفصیل سے روشنی ڈالنے سے پہلے انکے خاندانی پس منظر اور تعلیمی اور ادبی سفر کا مختصر طور سے جائزہ لینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

کہکشاں پروین کی پیدائش مغربی بنگال کے شہر پرولیا میں 26 فروری 1958 کو ہوئی تھی۔ ان کے والد سید مسعود الدین کے جد سید سعید ایران کے مقدس شہر مشہد سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے اور پرولیا کو اپنا مسکن بنایا تھا۔ کہکشاں پروین کی ابتدائی تعلیم پرولیا میں ہی ہوئی۔ بی اے اردو آنرس رانچی ویمنس کالج سے کیا۔ رانچی یونیورسٹی سے انہوں نے اردو میں ایم اے کیا۔ پروفیسر شان احمد صدیقی کی نگرانی میں تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انکے تحقیقی مقالے کا موضوع 'صالحہ عابد حسین بحیثیت ناول نگار' تھا۔ انہوں نے پروفیسر وہاب اشرفی کی نگرانی میں 'منٹو اور بیدی کا تقابلی مطالعہ' کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھ کر رانچی یونیورسٹی سے ہی ڈی لٹ کی سند حاصل کی۔ کہکشاں کی شادی معروف صحافی اور قلمکار سید اختر حسین آفتاب کے فرزند سید حسین فاطمی سے ہوئی۔ رانچی یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے منسلک ہونے سے پہلے وہ بوکارو مہیلا کالج اور ڈورنڈو کالج سے وابستہ تھیں۔ کہکشاں پروین 28 فروری2023 کو رانچی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی سربراہ کے عہدے سے سبکدوش ہوئی تھیں۔ مرتے دم تک انکا قلم ادبی خدمت کا فریضہ ادا کرتا رہا۔


جہاں تک ان کے ادبی ذوق کا تعلق ہے تو وہ انکے والد سید مسعود الدین کی شفقتوں کے زیر سایہ پروان چڑھا۔ کہکشاں کے والد اعلی علمی اور ادبی ذوق رکھتے تھے۔ یہی ادبی ذوق کہکشاں کو اپنے والد سے ورثہ کے طور پر نصیب ہوا۔ افسانہ نگاری ہو یا نظم گوئی کہکشاں کو ہر ہر قدم پر اپنے والد کی رہنمائی میسر تھی۔ والد جب تک حیات رہے کہکشاں کی ہر قلمی نگارش کے پہلے قاری وہی ہوتے تھے۔ کہکشاں نے طالب علمی کے زمانے سے ہی لکھنا شروع کر دیا تھا انکا پہلا افسانہ 1979 میں ماہنامہ 'متحرک' میں شائع ہوا تھا۔

زندگی کی تمام تر ضروریات کی تکمیل کے باوجود ایک کمی کے احساس کا بیان کہکشاں کی تخلیقات کا ایک اہم عنصر ہے۔ کہکشاں نسوانی جذبات اور خواتین کی نفسیاتی گتھیوں اور الجھاؤ کو پیش کرنے کا ہنر بہت اچھی طرح جانتی تھیں۔ معروف ناقد اور فکشن نگار اسلم جمشید پوری کا کہکشاں پروین کی افسانہ نگاری کی خصوصیات کے سلسلے میں کہنا ہے کہ ’’کہکشاں پروین جھارکھنڈ، کے فکشن نگاروں میں ایسا نام تھا، جس نے قومی سطح پر اپنی شناخت بنائی۔‘‘

کہکشاں پروین نے خصوصی طور پر جھارکھنڈ کے عوامی مسائل کو آواز دی۔ خاص کر انہوں نے آدی باسی زندگی کو اپنے افسانوں میں پیش کیا۔

آیوسا کے ایک آن لاین جلسے میں انہوں نے کہا تھا کہ عورت کو محبت نہیں عزت چاہیے۔ دراصل انہوں نے اپنے افسانوں میں عورتوں کے مسائل اور سماج میں اس کی عزت کی بات کی۔


کہکشاں پروین کے یہاں موضوعاتی تنوع پایا جاتا ہے۔ انہوں نے عشق محبت کے جذبات اور احساسات پر بھی لکھا ہے۔ نسائی جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرنے میں بھی وہ پیچھے نہیں رہیں۔ انسانی رشتوں میں پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل بھی کہکشاں کی دسترس سے باہر نہیں رہے۔ 'پانی کا چاند' افسانے میں انہوں نے ایک بچے کی نفسیات کے ساتھ ساتھ ایک باپ کی بے بسی کو موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ کہکشاں پروین کے تمام افسانے انکی تخلیقی کاریگری کا منھ بولتا نمونہ ہیں۔ 'توا کے اوپر توا' افسانہ عورت پر ہونے والے مظالم سے متعلق ہے۔ اس افسانے کے ذریعے کہکشاں نے صنف نازک کو ظلم و ستم کا نشانہ بنائے جانے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے۔

پروفیسر وہاب اشرفی کے بقول ’’ان کے افسانے محض تفریح کا سامان نہیں ہیں بلکہ ہماری بصیرت کا موجب بھی ہیں۔ ان کے افسانے اختتام پر فکر کی ایک دنیا آباد کر دیتے ہیں اور ہم ان مسائل پر از سر نو غور کرنے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ پاتے ہیں۔‘‘

کہکشاں پروین کا لہجہ بہت سلیس اور زبان بہت سادہ ہے۔ وہ قاری کو بہت جلدی اپنا ہم خیال بنا لیتی ہیں۔ انکے مافی الضمیر تک رسائی میں ان کے قاری کو کسی الجھن کا احساس نہیں ہوتا۔

'شیشے کا گھر' افسانے میں کہکشاں نے ایک عورت کی وفاداری اور قربانی کے جذبے کو بیان کرتے ہوئے اس کے اس کرب کو بیان کیا ہے کہ وہ اپنے شوہر کو خوش رکھنے کے لئے کیا کیا جتن کرتی ہے اور اس دوران وہ اپنے وجود کو ہی فراموش کر بیٹھتی ہے۔ اس افسانے کا یہ اقتباس دیکھئے:


’’احمر کی خواہش میں ٹال نہیں سکتی تھی۔اسی لئے دوسرے دن میں نے آسمانی ساڑی پہن لی۔ لیکن یہ ساڑی میرے احساس پر گراں گزر رہی تھی۔ پھر بھی احمر کی آنکھوں میں پسندیدگی کے ستارے جگمگاتے دیکھ کر ساری کوفتیں بھول گئی۔ وہ کسی کے یہاں کے کھانوں کی تعریف کرتے تو میں وہی بناتی۔ کسی کے کپڑے کی تعریف کرتے میں ویسا ہی پہنتی۔ کسی کے ہیئر اسٹائل کو سراہتے تو میں ویسا ہی اسٹائل اپناتی۔ احمر کی محبت میں میں نے سب کچھ بھلا دیا تھا اور اس تلخ حقیقت کو بھی فراموش کر دیا تھا کہ عورت سدا سے خالی ہاتھ ہوتی ہے۔ مرد اسے دھوکہ دیتا ہے اور یہ دھوکہ کھاتی ہے۔ پھر بھی اس کے لئے سہاگن کا جوڑہ زیب تن کرتی ہے۔ تخلیق کا کرب اٹھاتی ہے۔ وفا اور خدمت گزاری کے نام پر زندگی گزار دیتی ہے۔‘‘

'گرم چھاؤں' افسانہ ایک جسم فروش عورت کے دل میں ابھرنے والے محبت کے جذبے کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے:

’’بالے خاں ہمیشہ اسکے پاس نہیں رہ سکتا تھا۔ وہ اکثر مہینوں کے لئے غائب ہو جاتا۔ ایک باروہ آیا تو چمپا کسی گاہک کے ساتھ مصروف تھی وہ لوٹ گیا۔ چمپا نے سنا تو دل تھام کر رہ گئی۔ بغل والی ساتھی عورت نے بتایا کہ وہ اسے اپنے ساتھ لے جا رہی تھی لیکن وہ رکا نہیں کہہ کر گیا کہ چمپا گل سے کہنا جمعہ کو آؤں گا۔ چمپا نے جمعہ کو دھندہ کرنا چھوڑ دیا۔ وہ ہر جمعہ کو اس کا انتظار کرنے لگی۔ آخر ایک دن وہ آ گیا۔ اس روز جب وہ جانے لگا تو چمپا گل کے ضبط و صبر کے تمام قیود ٹوٹ گئے۔ اس کی جھل مل کرتی آنکھیں بالے کو خاموشی سے دیکھتی رہیں۔ بالے تو ہر جمعہ کو کیوں نہیں آتا۔؟ کیوں؟ بالے نے اس کی جانب مڑ کر دیکھا۔ دھندہ کرنے کو اب من نہیں کرتا۔ تو برابر کیوں نہیں آتا؟ چمپا گل اپنا دل ہار چکی تھی۔ عورت جس سے دل ہارتی ہے اسی کے سامنے اپنے شباب کا پیمانہ رکھنا چاہتی ہے۔ اسی کو اپنے حسن و شباب کی داستان سنانا چاہتی ہے۔ چمپا گل بھی اب ایک ہی ہانڈی میں کھانا چاہتی تھی۔ بالے خاں سمجھ گیا۔ بولا ٹھیک ہے۔ تو آج سے دھندہ مت کر۔ میں آؤں یا نہ آؤں تیرا خرچ بھیج دیا کروں گا۔ وہ چلا گیا اور اس دن سے چمپا نے جسم بیچنا بند کر دیا۔‘‘


عورتوں کے مسائل اور جذبات و احساسات کے حوالے سے کہکشاں کے جو افسانے بہت مقبول ہوئے ان میں 'ریزہ ریزہ'، ’گرتی ہوئی عمارت‘، 'گمشدہ احساس'، 'پھول کا زخم'، ’تلاش'، ’سر پھری'، ’ایک لمبی مسافت'، ’عورت'، ’کنیا‘ ،’پوجا'، ’ٹھنڈی چائے'، ’سراغ'، ’سلسلہ' اور 'سیلاب' قابل ذکر ہیں۔

کہکشاں پروین کے پانچ افسانوی مجموعے 'ایک مٹھی دھوپ'، 'دھوپ کا سفر'، 'سرخ لکیریں'، 'پانی کا چاند' اور 'مور کے پاؤں' نثری نظموں کا مجموعہ 'کیا رشتہ ہے میرا' فکشن اور نثری نظموں کے شائقین کی داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ کہکشاں پروین کے تحقیقی کاموں میں 'صالحہ عابد حسین بحیثیت ناول نگار‘، ’منٹو اور بیدی - تقابلی مطالعہ'، 'شیشہ افکار'، 'نظریہ ادب'، 'منٹو اور واجدہ تبسم کے کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ' جیسی کتابیں شامل ہیں۔

کہکشاں پروین اب ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کے افسانے نئی نسل کے افسانہ نگاروں کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔