کیدارناتھ سنگھ... دوریوں کو ختم کرنے والا عظیم شاعر

کیدارناتھ سنگھ نظریاتی اعتبار سے بایاں محاذ کے حامی ضرور تھے لیکن ان کی تخلیقات میں کسی طرح کی شدت پسندی اور تنگ ذہنی کا عنصر دور دور تک دیکھنے کو نہیں ملتا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ڈھوڑپکر

کیدار ناتھ سنگھ کا انتقال صرف ایک عظیم شاعر کا انتقال نہیں ہے، ہندی مصنّفین اور قارئین کے لیے اپنے ماضی کے ایک بیش قیمت دور کی وداعی بھی ہے۔ جو سن 1960 کے بعد جوان ہوئے ہیں انھوں نے کیدارناتھ سنگھ اور ان کے ساتھی شاعروں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک اور سینئر شاعر کنور نارائن کے انتقال کے بعد ہندی اور ہندوستانی ادب کو یہ دوسرا بڑا جھٹکا لگا ہے۔

کنور جی، کیدار جی، شری کانت ورما، وجے دیو نارائن ساہی، رگھویر سہائے وغیرہ ہندی نظم کے اس دور کے شاعر تھے جب جدید نظم اور ترقی پسند تحریک کا دور گزر چکا تھا۔ یہ شاعر اپنی قومی شناخت کے ساتھ عالمی نظم کو بہتر طریقے سے جانتے تھے اور اپنی جدیدیت میں زیادہ پراعتماد تھے۔ 60 کی دہائی کے افراتفری والے دور میں یہ لوگ نظم میں شاعرانہ استحکام، اخلاقی اور سماجی ذمہ داری کو تھامے رہے اور اسی لیے آنے والی نسلوں کو راہ دکھانے میں کامیاب ہو سکے۔

بعد کی نسلوں پر سب سے زیادہ اثر اگر کسی ہندی شاعر کا رہا ہے تو وہ کیدارناتھ سنگھ تھے۔ ہندی میں بعد کی نسل کا شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہو جو یہ دعویٰ کر سکے کہ وہ اپنی تحریر میں کبھی کیدارناتھ سنگھ سے متاثر نہیں ہوا۔ کیدارناتھ سنگھ میں قومیت، موسیقیت اور حقیقت پسندی کے انضمام سے جو چمک پیدا ہوتی ہے وہ معاصر لاطینی نظم کی یاد دلاتی ہے۔ ان کی ’بنارس‘ نظم اسی لیے شاعری سے محبت کرنے والوں کی محبوب نظم بنی رہی ہے۔

کیدارناتھ سنگھ نظریاتی طور پر بایاں محاذ کے حامی تھے اور ترقی پسند تحریک کے اعلیٰ عناصر کو انھوں نے اپنی نظم میں اُتارا تھا لیکن نظریاتی شدت پسندی اور تنگ ذہنی ان کے ادبی شعور اور پسند میں کبھی ظاہر نہیں ہوتی تھی۔ ہندی کے علاوہ دیگر ہندوستانی زبانوں میں بھی ان کی نظموں کے تراجم ہوئے اور ملیالم، مراٹھی جیسی زبانوں میں بھی وہ قارئین کے محبوب شاعر تھے۔

کیدار جی کا بڑا تعاون یہ ہے کہ انھوں نے ثابت کیا کہ بغیر ’بڑبولا‘ ہوئے نظریاتی عزم قائم کرنا ممکن ہے اور بغیر پھیکا ہوئے اچھی نظم آج بھی لکھی جا سکتی ہے۔ وہ شاعروں کی شاید آخری نسل تھی جو ایک طرف پرانی شاعرانہ روایتوں اور لوک ادب کو جانتی تھی، ساتھ ہی مغربی ادب سے بھی بہت اچھی طرح آشنا تھی۔ ان کے بعد کے رائٹر جدیدیت کو تو اچھی طرح جانتے ہیں لیکن شاعری سے متعلق اپنی دیسی روایتوں کا علم ویسا نہیں ہے۔

کیدار جی ان لوگوں میں سے ہیں جن کے ذریعہ ہم نے ہندوستانی جدیدیت کو جانا، روایتوں اور ادب کے درمیان کی دوری کو بہ آسانی ختم کرتی ہوئی اس نسل کی شاید وہ آخری کڑی تھے۔ ان کے مصرعوں کو ہی دیکھیے کیا کہتے ہیں:

’’جہاں تم نے لکھا ہے پیار، وہاں لکھ دو سڑک

کوئی فرق نہیں پڑتا

میرے یُگ کا محاورہ ہے-

کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘

کیدار جی ان لوگوں میں سے تھے جو یاد دلاتے تھے کہ فرق پڑتا ہے، پڑنا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔