گوناگوں صلاحیتوں کا مالک کشمیری قلمکار راجہ یوسف… جمال عباس فہمی
اردو ادب میں قدم رنجہ فرمانے سے پہلے راجہ یوسف ڈرامہ آرٹسٹ کے طور پر اپنی پہچان بنا چکے تھے۔ 1986 میں انہوں نے اسٹیج اداکاری شروع کی، اس کے ساتھ ساتھ ڈرامے بھی لکھنا شروع کر دیئے۔
لکھنؤ: دہلی اور حیدر آباد کی ہی طرح کشمیر بھی اردو کا ایک بڑا اہم دبستان ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کشمیر کے دبستان اردو کے روشن ستاروں سے شمالی ہند کے لوگ کم واقف ہیں۔ وحشی سعید، پرویز مانوس، ریاض توحیدی، نور شاہ، وحشی، پروفیسر محمد زمان آزردہ، سعید، شبنم قیوم، نعیمہ احمد مہجور، پروفیسر بشیر احمد نحوی، پروفیسر نذیر ملک، پروفیسر منصور احمد، مشتاق مہدی، ڈاکٹر نذیر مشتاق، ڈاکٹر نیلوفر ناز نحوی، نذیر جوہر، پروفیسر عارفہ بشری، ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی، زاہد مختار، ڈاکٹر محی الدین قادری زور اور طارق شبنم جیسے قلمکار کشمیر میں اردو علم و ادب کی شمع روشن کئے ہوئے ہیں۔ ان ہی قلمکاروں میں ایک مستند نام راجہ یوسف کا بھی ہے۔
راجہ یوسف گونا گوں صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ وہ ڈرامہ نگار بھی ہیں اور ڈرامہ آرٹسٹ بھی۔ وہ شاعر بھی ہیں اور افسانہ نگار بھی۔ وہ ٹی وی سیریئل رائٹر بھی ہیں اور ڈاکیومنٹری فلم میکر اوررائٹر بھی۔ وہ اخبارات اور جریدوں کی ادارت بھی کر چکے ہیں اور ٹیلی ویژن سے بھی منسلک رہے ہیں۔ ان کی تین کتابیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں۔ ایک کشمیری زبان میں اور دو اردو میں۔ ان کے اردو افسانوں کے دو مجموعے اردو کے باذوق پڑھنے والوں کی داد و تحسین سمیٹ چکے ہیں۔ کشمیری زبان میں ان کی ایک کتاب بہت مقبول ہوئی جس میں کشمیر کے تاریخی واقعات کو تمثیلی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ راجہ یوسف متعدد ادبی اور ثقافتی تنظیموں سے منسلک ہیں۔ انہیں انعامات و اعزازات سے نواز کر ان کی قلمی خدمات کا اعتراف کیا جا چکا ہے۔ راجہ یوسف کی ادبی کاوشوں اور قلمی خدمات کا تفصیلی ذکر کرنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیمی اور قلمی سفر کے بارے میں معلومات حاصل کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔
راجہ یوسف کشمیر کے اس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں جو بڑے بڑے صوفیوں سنتوں، رشیوں، منیوں اور کئی صوفی شعرا کا مسکن رہا ہے۔ راجہ یوسف موجودہ ضلع اننت ناگ کے ایک معزز گھرانے کی فرد ہیں۔ اننت ناگ کا قدیمی نام اسلام آباد ہے۔ اننت ناگ کے لغوی معنی بے شمار چشموں کے ہیں۔ راجہ یوسف کا اصل نام محمد یوسف بٹ ہے۔ وہ ضلع اننت ناگ کے گاؤں انچی ڈورہ میں 28 اگست 1961 کو ایک زمین دار خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے جد رمضان ڈار اپنے دور کے مشہور صوفی بزرگ تھے۔ ان کے والد خواجہ محمد شعبان اعلیٰ ادبی ذوق رکھتے تھے۔ کشمیری زبان میں شاعری بھی کرتے تھے۔ اردو، فارسی اور کشمیری زبان کے ہزاروں اشعار انہیں ازبر تھے۔
راجہ یوسف کو ادبی ذوق اپنے والد سے ورثے میں ملا۔ ادب سمجھانے اور ادب سکھانے میں وہ راجہ یوسف کے استاد تھے۔ اردو ادب میں قدم رنجہ فرمانے سے پہلے راجہ یوسف ڈرامہ آرٹسٹ کے طور پر پہچان بنا چکے تھے۔ 1986 میں انہوں نے اسٹیج اداکاری شروع کی۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈرامے بھی لکھنا شروع کر دیئے۔ اس کے بعد افسانے لکھنے کا جنون سوار ہوا۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ، کاغذی پیرہن، 1988 میں شائع ہوا، نقش فریادی، کے عنوان سے ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ 2021 میں شائع ہوا۔ کشمیری زبان میں ان کی مشہور تصنیف ''ویتھ'' ہے جو2017 میں شائع ہوئی۔
کشمیر ایک طویل عرصے سے شورش اور کشیدگی کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔ دہشت گردانہ حملے، کرفیو، بندشیں، سیکورٹی، افواج کی موجودگی، ان کی زیادتی کے واقعات، اپنے چہیتوں کی جدائی کے سبب خواتین کی ذہنی کیفیت، سیاسی، سماجی اور ثقافتی ڈھانچوں کی تباہی اور بربادی سے عبارت ایک ایسا معاشرہ قائم ہو چکا ہے جس میں گھٹن ہے، نوجوانوں میں مایوسی ہے۔ اپنے جذبات اور احساسات کو ظاہر کرکے ذہنی کشیدگی کو رلیز نا کر پانے کے سبب بہت سے لوگ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن ایک ادیب اور قلمکار کے پاس اپنے جذبات اور محسوسات کو ظاہر کرنے کا وسیلہ قلم کی صورت میں موجود ہوتا ہے۔ ادیب ماحول سے متاثر بھی بہت ہوتا ہے اور اس کے اثرات کے تحت پیدا ہونے والی قلبی کیفیت اور واردات کو قلم بند کر کے اپنےاہل قلم ہونے کا فریضہ بھی ادا کرتا ہے۔ اہل قلم کے طور پر اپنا فرض ادا کرنے والوں میں راجہ یوسف کی حیثیت مسلم ہے۔ انہوں نے کشمیر کے گونا گوں واقعات کے پس منظر میں افسانے لکھے ہیں۔ راجہ یوسف کو اپنے افسانوں کے پلاٹ کشمیر کے سیاسی، سماجی، معاشرتی اور عدم سلامتی کے ماحول میں ہی مل جاتے ہیں۔ ان کے بیشتر افسانے کشمیر کے حالات کی مختلف زاویوں سے کہانی بیان کرتے ہیں لیکن انہوں نے براہ راست بات نا کرکے اپنے محسوسات بیان کرنے کے لئے علامتی زبان کے استعمال کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اننت ناگ کے میٹھے چشموں کی طرح راجہ یوسف کی زبان میں شیرینی بھی ہے شفافیت اور روانی بھی۔ ان کی تحریروں میں کہیں کہیں فلسفیانہ فکر کے چھینٹے بھی نظر آتے ہیں۔ افسانہ 'مکڑی' کے اس اقتباس سے ان کی فلسفیانہ سوچ ابھر کر سامنے آتی ہے۔
''احساس؟، تہہ دار سوچ میں فکر کے دھاگوں سے بنا مکڑی کا جالا اور مکڑی؟ دھاگوں کی اُلجھتی گرہ سلجھانے اور سلجھی گرہ کو اُلجھانے کا ہنر۔ جو کبھی احساس کو جگانے کا کام کرتا ہے اور کبھی اسے گہری خاموشیوں کے سپرد کرکے میٹھی نیند سلا دیتا ہے۔ ہنرنچوڑ ہے۔ سوچ، فکر اور احساس کی تکمیل کا۔ ہنرسے فعل لازم ہے اور جو فعل سرزد ہوجاتا ہے، اُسی کی سرزنش ہوتی ہے یا ستائش۔''
ان کا افسانہ، 'چیل چنار اور چوزے' کشمیر کے سیکورٹی حالات کی بہت متاثر کن انداز میں علامتی طور سے عکاسی کرتا ہے۔
’’ایک عرصہ سے سارا شہر چیلوں کا اسیر تھا۔ یہ چیل اب عام چیلوں جیسی نہیں لگ رہی تھیں۔ پتا نہیں کس نے اور کن سازشوں کے تحت ان کو آدم خور بنا دیا گیا تھا۔ اب چوزے، چرند پرند، انسان، سب ان کے شکار تھے۔ شہر کے مکین ان کے سامنے خود کو بے بس اور لاچار سمجھ رہے تھے۔ پورے شہر پر خوف اور مایوسی کا سایہ چھایا ہوا تھا۔ چیلیں چنار سے اُتر آتی تھیں اور کسی بھی ذی روح پر جھپٹا مار کرچنار کی گھنی شاخوں میں چھپ جاتی تھیں اور نوکیلے پنجوں سے چیرپھاڑ شروع کر دیتی تھیں۔ شہرمیں بڑے پیمانے پر ہنگامے ہو رہے تھے۔''
ایک اور افسانے میں انہوں نے نوجونوں کی گمشدگی اور ان کی موت کے صدمات برداشت کرنے والی ماؤں کے درد و تکلیف ذہنی اور جذباتی کیفیت کو بڑے پُراثر انداز میں بیان کیا ہے۔
''بیٹے کی جدائی والے صدمے سے تاج بیگم شاید پاگل ہی ہوجاتی۔ لیکن بھلا ہو گاؤں کے اسکول ماسٹر کا جس کی بھاگ دوڑ اور کوششیں رنگ لائیں اور ایک مہینے کے بعد وہ آج ماجد کی لاش لانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اب تاج بیگم کے چہرے پر کوئی دکھ، کوئی ملال نہیں تھا اور وہ اب پر سکون لگ رہی تھی۔ اس نے ماجد کی لاش اپنے آنگن میں دفنا دی۔ اور گھر کا دروازہ اکھاڑ کر الگ رکھوا دیا۔''
کشمیر کے حالات کے پس منظر میں لکھے گئے ان کے کچھ افسانے بہت مشہور ہوئے۔ ان میں 'نقش فریادی'، 'تاجو قصائی'، 'بند کھڑکی کا کرب'، 'چیل چوزے چنار'، 'کلونت کور کی واپسی'، 'روشنی کے لٹیرے'، 'گورکن'، 'جنگل راج'، 'لاک ڈاون'، 'مانگے کا اجالا'، 'ایک فیصدی کا انسان' شامل ہیں۔ 'اب پچھتائے کیا ہوت'، 'آنکھ مچولی'، 'دوہزار اکیس'، 'توکل'، 'خالی پیٹ'، 'دعوت باماتم' اور 'بیٹی نہیں چاہیے' جیسے افسانچے لکھ کر انہوں نے دریا کو کوزے میں سمیٹنے کی اپنی صلاحیت کا اظہار کیا ہے۔ 'روشنی کے لٹیرے' افسانے کا پس منظر بڑا درد ناک ہے۔ سلامتی اہلکار پر امن مظاہرین کے خلاف پیلیٹ گنوں کا دھڑلے سے استعمال کرتے رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں سیکڑوں بچے، بوڑھے اور جوان آنکھوں کی روشنی سے محروم ہو چکے ہیں۔ 'بند کھڑکی کا کرب' گمشدہ افراد کی غمناک داستان ہے۔
راجہ یوسف نے ٹیلی ویژن کے لئے کشمیری اور اردو میں متعدد سیریلز لکھے ہیں۔ ان میں 'زمانے کی ہوا'، 'حساب ماسٹر'، 'سنہرے ورق'، 'آبشار'، 'ست رنگ'، 'اتھ شر'، 'ویتھ چھہِ پکان'، 'سنگرمالن پیو پراگاش'، 'اس چھہِ نمبر ون'، 'چھوٹی' اور 'رم گیئم شیشس' بہت مقبول ہوئے۔ انہوں نے ڈرامے، ڈرامچے اور مختلف موضوعات پر درجنوں ڈاکو منٹریز بھی لکھی ہیں۔
کشمیری زبان میں ان کی ایک ضخیم کتاب ''ویتھ'' کے عنوان سے منصۂ شہود پر 2017 میں آ چکی ہے۔ اس کتاب میں کشمیر کے تاریخی واقعات کو تمثیلی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب کو کشمیر کے ادبی حلقوں میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ ان کے افسانے ہند و پاک کے معیاری رسالوں اور اخبارات میں جگہ پاتے رہے ہیں۔ قلمی اور تھیئٹر کی دنیا میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں متعدد اعزازات سے نوازہ جا چکا ہے۔ راجہ یوسف کو 1999 میں 'آرٹ اینڈ کلچر' ایوارڈ، 2015 میں فکشن اور ڈرامہ کے لئے INFOTEL AWARDسال 2021 میں ایچ ایف فاؤنڈیشن کی طرف سے ان کی کشمیری تصنیف 'ویتھ' کو Youth Power Award سے نوازہ گیا۔ مجموعی خدمات کے لئے انہیں 2021 میں ''ندائے کشمیر'' ایوارڈ سے نوازہ گیا۔
یہ بھی پڑھیں : کیا یہ غیر اعلانیہ ایمرجنسی نہیں ہے؟... سہیل انجم
اردو کے شیدائیوں کو امید ہے کہ ان کے قلم سے مزید فن پارے وجود میں آئیں گے جن سے دبستان جموں و کشمیر کے ادبی سرمائے میں گراں قدر اضافہ ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔