کیفی اعظمی: آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی... یومِ وفات پر خاص
70 کی دہائی میں کیفی اعظمی پر فالج کا حملہ ہوا اور جسم کا ایک حصہ زندگی بھر کے لیے بے کار ہو گیا پھر بھی کیفی کے جوش اور کمٹمنٹ میں کوئی کمی نہیں آئی۔
کیفی اعظمی کا تعلق ایک زمیندار خاندان سے تھا جو اعظم گڑھ کے مزواں گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ماں باپ نے ان کا نام سید اختر حسین رضوی رکھا تھا۔ والدین ان کو مولوی بنانا چاہتے تھے اس لیے لکھنؤ کے ایک مدرسہ میں داخل کروایا۔ مدرسہ کا ماحول بیٹے کو پسند نہیں آیا اور اس نے اپنی الگ راہ اختیار کی۔ اس وقت لکھنؤ کے علمی اور ادبی ماحول پر ترقی پسند ادیب چھائے ہوئے تھے جن میں علی سردار جعفری، مجاز، احتشام حسین، آلِ احمد سرور وغیرہ اہم ہیں۔ علی سردار جعفری سے ملاقات نے اختر حسین کے دل اور دماغ کو بغاوت کے راستے پر لا کھڑا کیا اور ایک دن اس نوجوان مولوی نے مدرسے میں ہڑتال کروا دی۔ جس کی سزا انھیں ملی اور وہ مدرسہ سے نکالے گئے۔ اور پھر یہ نوجوان جس میں بچپن سے ہی شاعری کے جراثیم موجود تھے، کیفی اعظمی کے نام سے اردو کے ادبی منظرنامے پر چھا گیا۔
سردار جعفری نے کیفی کو پی سی جوشی سے ملوایا۔ پی سی جوشی کو نوجوان شاعری میں کافی صلاحیت نظر آئی اور انھوں نے کیفی کو بمبئی آنے کی دعوت دی جس نے ان کے مستقبل کا راستہ طے کر دیا۔ اب کیفی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو کر پارٹی کے کمیون میں رہنے لگے۔ مزدوروں کی میٹنگوں میں کیفی کی آواز گونجنے لگی۔ کئی بار مزدوروں کے ساتھ پولس کی لاٹھیاں کھائیں اور کئی بار جیل کی سیر کی۔ لیکن حوصلے میں کوئی کمی نہیں آئی اور کہہ اٹھے:
اعلانِ حق میں خطرۂ دار و رسن تو ہے
لیکن سوال یہ ہے کہ دار و رسن کے بعد
کمیونسٹ پارٹی میں اس وقت سجاد ظہیر بھی بمبئی میں تھے۔ ان کے علاوہ شہر میں بلراج ساہنی، مجروح سلطان پوری، جاں نثار اختر، ساحر لدھیانوی، پریم دھون، انل بسواس اور خواجہ احمد عباس کے علاوہ پوری فلم نگری پر ترقی پسند لوگ چھائے تھے۔ اب کیفی دور دور مشاعروں میں جانے لگے تھے۔ اسی دوران حیدر آباد کے ایک مشاعرے میں ان کی ملاقات ایک الہڑ لڑکی سے ہوئی جس سے جلد ہی شادی ہو گئی۔ یہ لڑکی اِپٹا میں شامل ہو گئی جو بعد میں شوکت کیفی کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس دوران شوکت حاملہ ہوئیں۔ کمیونسٹ پارٹی کا ڈسپلن سخت تھا۔ پارٹی نے حکم دیا کہ حمل گرا دیا جائے۔ اس موقع پر ایک ماں نے کمیونسٹ پارٹی کے فیصلے کو چیلنج پیش کیا اور حمل گرانے سے انکار کر دیا۔ اس کے گھر بچی پیدا ہوئی۔ اگر شوکت نے پارٹی کا حکم مان لیا ہوتا تو آج شبانہ اعظمی ہمارے درمیان نہیں ہوتیں۔
70 کی دہائی میں کیفی پر فالج کا حملہ ہوا اور جسم کا ایک حصہ زندگی بھر کے لیے بے کار ہو گیا پھر بھی کیفی کے جوش اور کمٹمنٹ میں کوئی کمی نہیں آئی۔ انھوں نے فرقہ پرستی کے خلاف اور امن و مزدوروں کے حقوق کے لیے خوب لکھا اور اپنی پاٹ دار آواز سے لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔ کچھ مثالیں دیکھیے اور خود فیصلہ کیجیے:
آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
سب اٹھو، میں بھی اٹھوں تم بھی اٹھو، تم بھی اٹھو
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی
یہ زمیں تب بھی نگل لینے پہ آمادہ تھی
پاؤں جب ٹوٹتی شاخوں سے اتارے ہم نے
ان مکانوں کو خبر ہے نہ مکینوں کو خبر
ان دنوں کی جو گپھاؤں میں گزارے ہم نے
ہاتھ ڈھلتے گئے سانچے میں تو تھکتے کیسے
نقش کے بعد نئے نقش نکھارے ہم نے
کی یہ دیوار بلند، اور بلند، اور بلند
بام و در اور، ذرا اور سنوارے ہم نے
آندھیاں توڑ لیا کرتی تھیں شمعوں کی لویں
جڑ دیئے اس لیے بجلی کے ستارے ہم نے
بن گیا قصر تو پہرے پہ کوئی بیٹھ گیا
سو رہے خاک پہ ہم شورش تعمیر لیے
فرقہ پرستی اور نفرت کے خلاف جنگ کرتے ہوئے امن اور انسان دوستی کا یہ سپاہی 84 سال کی عمر میں 10 مئی 2002 کو ہم سے دور چلا گیا کبھی واپس نہ آنے کے لیے۔ لیکن ہم کیفی کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ وہ ہمارے دل و دماغ کا حصہ رہیں گے، ہمیشہ:
انساں کی خواہشوں کا بھی کوئی حساب ہے
دو گز زمیں بھی چاہیے، دو گز کفن کے بعد
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔