حسین الحق عملاً صوفی ہونے کے ثبوت فراہم کرتے تھے: سید محمد اشرف

مولانا انوار الحق اردو لائبریری، گیا بہار کے زیر اہتمام معروف فکشن نگاراور دائرہ شاہ حضرت وصی الحق کے سابق سجادہ نشین پروفیسر حسین الحق کے یوم وفات کی مناسبت سے ویبینار منعقد کیا گیا

تصویر پریس ریلیز
تصویر پریس ریلیز
user

پریس ریلیز

نئی دہلی: مولانا انوار الحق اردو لائبریری، گیابہار کے زیر اہتمام معروف فکشن نگاراور دائرہ شاہ حضرت وصی الحق کے سابق سجادہ نشین پروفیسر حسین الحق کے یوم وفات کی مناسبت سے ایک ویبیناربعنوان ’پروفیسر حسین الحق: تدریس، تصوف اور ادب‘ کا انعقاد عمل میں آیا۔ جس میں متعدد اہم شخصیات نے شرکت کی۔ پروگرام کی صدارت مرزا غالب کالج،گیابہارکے سابق صدر شعبہ انگریزی پروفیسر عین تابش نے کی جب کہ کلیدی خطبہ معروف فکشن نگار اور سابق چیف انکم ٹیکس کمشنر سید محمد اشرف، علی گڑھ نے پیش کیا۔ پروگرام کا باضابطہ آغاز حسین الحق کے بڑے صاحبزادے اور دائرہ شاہ حضرت وصی کے سجادہ نشین شارع علی حق نے تعارفی کلمات پیش کرکے کیا جب کہ شافع انوار الحق نے پروفیسر حسین الحق کی شخصیت پر مختصراً روشنی ڈالی۔

سید محمد اشرف نے حسین الحق پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ حسین الحق کو بحیثیت مصنف، استاذ، تنقید نگار، بحیثیت صوفی اور بحیثیت انسان ساری دنیا جانتی ہے۔ میرا اور ان کا ذاتی تعلق تھا۔ دیر رات تک ان سے گفتگو ہوا کرتی تھی۔یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ حسین الحق کا جو اثر سماج اور ادبی سماج پر تھا یا صوفیانہ سماج پر تھا، ان باتوں پر بہت غور کرنے کے بعد میں ایک بات کہہ سکتا ہوں کہ حسین الحق چاہے گفتگو کریں یا افسانے لکھیں یا ناول لکھیں۔ ان کے یہاں سب سے عمدہ بات جو ابھر کر آتی تھی وہ ہے صوفی کی شخصیت۔ وہ کہیں بھی صوفی ہونے کی نفی کرتے تھے۔ ہر جگہ اپنے صوفی ہونے کا اثبات کرتے تھے۔وہ صرف نام کے صوفی نہیں تھے، ان کے باطن کی جو فکر تھی اس کے اعتبار سے بھی صوفی تھے۔ 70کے بعد لکھنے والوں میں کتنے چمکے اور ڈوب گیے۔ لیکن حسین الحق ان فنکاروں میں تھے جو شروع سے ہی اپنے قارئین کے لیے معروف بھی اور محبوب بھی تھے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ان کی کہانیاں کلیات کی شکل میں منظر عام پر آنی چاہئے، یہ ان کے چھوٹوں کی ذمہ داری ہے۔


اس موقع پراہم مقررکنگ سعود یونیورسٹی، ریاض میں انگریزی کے استاذ پروفیسر سید سرور حسین نے ناول’اماوس میں خواب‘ کے حوالے سے پر مغز گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے مجھے اماوس میں خواب کا انگریزی ترجمہ کرنے کا حکم دیا تھا، جو اشاعت پذیر ہوچکا ہے۔ اماوس میں خواب میں اتنی کیفیات شامل ہیں کہ اس کے مطالعے کے لیے قاری کا ذی علم ہونا بھی اشد ضروری ہے۔ اماوس میں خواب کا فلاسفی بیس صوفی ازم ہے۔ فلاسفی بیس کے اندر تانے بانے کہانیوں کے بنے گیے ہیں اور منفرد پرتیں کھلتی ہیں۔

آر بی گورنمنٹ، پی جی کالج، اکبر پور، امبیڈکر نگر۔یوپی کے استاذ پروفیسر شاہد پرویز نے حسین الحق کی تصنیف”تفہیم تصوف“ کے تناظر میں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس کتاب میں تصوف کے فکری اور نظری زاویے سے بحث کی گئی ہے۔ میرے مطالعے کے مطابق بہت کم کتابوں میں تصوف کی بنیادوں پر بات کی گئی ہے۔لیکن2015میں آئی حسین الحق کی کتاب تفہیم تصوف میں ان باتوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔


بنواری لال بھلوٹیا کالج،آسنسول بنگال کے صدر شعبہ اردوڈاکٹر مشکور معینی نے اہم اطلاع دیتے ہوئے کہاکہ 23اور24اگست2022کو حسین الحق کی حیات و خدمات کے حوالے سے دو روزہ قومی سمینار کرایا تھا، جس میں پیش کیے گئے مقالات کا مجموعہ بہت جلد منظر عام پر آنے والا ہے۔ دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردو میں گیسٹ استاذ ڈاکٹرنورین علی حق نے اہم اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ پروفیسر حسین الحق کی مجموعی ادبی خدمات پرریسرچ کیا جا رہا ہے، جس میں ان کی تصنیف ”تفہیم تصوف“ پر باضابطہ ایک باب مختص ہے۔

پروفیسر عین تابش نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ مقررین کی گفتگو نے مجموعی طور پرپروفیسر حسین الحق کی شخصیت کے کمالات کوبحیثیت فکشن نگار، بحیثیت صوفی، بحیثیت نثر نگار اور بحیثیت انسان نمایاں کیا ہے۔ انہوں نے تمام شرکاء کا صمیم قلب سے شکریہ بھی ادا کیا۔ غور طلب ہے کہ پروگرام کی نظامت کے فرائض ڈاکٹرسید عینین علی حق،دہلی نے انجام دیے۔

شرکاء میں ڈاکٹر امیتواکمار، ونوبا بھاوے یونیورسٹی،ہزاری باغ جھارکھنڈ کے استاذ پروفیسر زین رامش، مگدھ یونیورسٹی گیا کی ریسرچ اسکالر ترنم آرا، مرزا غالب کالج میں کامرس کے استاذ ڈاکٹر پرویز وہاب،پریتی شیکھر، اوشا رانی، ایما حسین، شعار نازش وغیرہ نے بھی شرکت کی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔