بچوں کے ادب کا تخلیق کار حیدر بیابانی
حیدر بیابانی کی ادبی خدمات پر ان کی زندگی میں پی ایچ ڈی کی گئی۔ ان کی شخصیت پر ڈاکیو مینٹری فلمیں بنیں۔ درجنوں اعزازات و انعامات سے انہیں نوازہ گیا۔
اردو میں بچوں کا ادب تخلیق کرنے والوں کا ہمیشہ فقدان رہا ہے۔ مولانا اسمعیل میرٹھی کو بچوں کے ادب کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔ مولانا کے بعد میرٹھ سے ہی ایک نام بچوں کے ادیب کے طور پر حامد اللہ افسر میرٹھی کا بھی ابھرا تھا۔ محمد شفیع الدین نیر نے بھی بچوں کا ادب تحریر کرکے مقبولیت حاصل کی۔ آج پورے ہندوستان میں بچوں کی دلچسپی اور ذوق کو مد نظر رکھتے ہوئے اچھا لکھنے والوں کی تعداد دو درجن سے زیادہ نہیں ہوگی۔ لیکن ان لکھنے والوں کا میدان، رجحان اور علاقہ محدود ہے اور ان کا قلمی سرمایہ ملک گیر حیثیت کا حامل نہیں ہے۔ موجودہ دور میں صابر سنبھلی، فیروز بخت احمد، شاہتاج خاں، مسعود جاوید ہاشمی، ڈاکٹر رؤف خیر، ثریا جبین، کشور سلطانہ، ظفر فاروقی، عاتکہ نور، مجید صدیقی، ڈاکٹر ایم اے قدیر اور ستار فیضی کے نام بچوں کے ادیب کے طور پر شناخت رکھتے ہیں۔
لیکن اگر حیدر بیابانی کا نام بچوں کے ادیبوں کی فہرست میں شامل نہ کیا جائے تو بر صغیر ہند و پاک میں بچوں کے ادب کا باب نا مکمل رہے گا۔ لیکن افسوس کہ بچوں کے ادب کے لئے زندگی وقف کر دینے والا یہ قلمکار19 جنوری 2022 کو دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اردو ادب کو لگنے والا سن 2022 کا یہ پہلا بڑا جھٹکا ہے۔ حیدر بیابانی کو ان کے آبائی وطن مہاراشٹر کے اچل پور میں سپرد خاک کیا گیا۔ حیدر بیابنی بچوں کے ادب کے لئے بہت قیمتی سرمایہ چھوڑ کر گئے ہیں۔ انہوں نے پچاس سے زیادہ کتابیں بچوں کے لئے لکھیں۔ ان کی درجنوں نظمیں مختلف ریاستوں میں بچوں کے نصاب کا حصہ ہیں۔ حیدر بیابانی کی بعض کتابیں تو اس درجہ مقبول ہوئیں کہ ان کے درجنوں ایڈیشن شائع ہوئے۔ حیدر بیابانی کی ادبی خدمات پر ان کی زندگی میں پی ایچ ڈی کی گئی۔ ان کی شخصیت پر ڈاکیو مینٹری فلمیں بنیں۔ درجنوں اعزازات و انعامات سے انہیں نوازہ گیا۔ حیدر بیابانی کے قلمی سرمایہ پر تفصیل سے بات کرنے سے پہلے آئیے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیم و تربیت کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
حیدر بیابانی کی ولادت یکم جولائی 1948 کو مہاراشٹر کے تاریخی شہر اچلپور کے کرج گاؤں میں ہوئی تھی۔ سید حیدر شاہ بیابانی خاندانی نام تھا، لیکن مقبولیت حیدر بیابانی کے نام سے ملی۔ والد رحیم شاہ زراعت پیشہ تھے۔ آسودہ حال تھے لیکن گھر میں تعلیم کا بہت زیادہ چلن نہیں تھا۔ حیدر بیابانی کو بچپن سے ہی پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔ انہوں نے چوتھی جماعت تک کی تعلیم پرائمری اسکول کاسد پورا اچلپور سے حاصل کی۔ انہوں نے پانچویں جماعت سے دسویں کلاس تک کی تعلیم ضلع پریشد اسکول اچلپور سے حاصل کی۔ گیارہویں اور بارہویں کی تعلیم رحمانیہ اسکول سے حاصل کی۔ حیدر بیابانی نے جگدمبا ودیالیہ سے بی اے اور پھر ڈی ایڈ کی ڈگری حاصل کی اور درس و تدریس کے پیشہ سے وابستہ ہو گئے۔ لیکن یہ ملازمت انہیں زیادہ عرصہ تک راس نہیں آئی۔ انہوں نے ملازمت ترک کردی۔
حیدر بیابانی فطری طور سے اہل قلم تھے۔ میٹرک کے زمانے سے ہی انہوں شاعری شروع کردی تھی لیکن ابتدا میں وہ نسائی ادب کے شیدا تھے۔ 1962 میں انہوں نے بچوں کے لئے نظمیں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ بیچ بیچ میں مزاحیہ شاعری بھی کرتے رہے۔ شاعری کے ساتھ ساتھ حیدر بیابانی نثر میں بھی قلمی مشق کرنے لگے۔ عام طور سے یہ دیکھا جاتا ہے کہ ادیب یا تو شاعری کرتے ہیں یا ننثرنگاری کرتے ہیں۔ اخلاقی موضوعات پر لکھتے ہیں یا سائنسی موضوعات پر۔ سنجیدہ شاعری کرتے ہیں یا مزاحیہ شاعری کرتے ہیں۔ لیکن حیدر بیابانی اس معاملے میں منفرد تھے۔ انہوں نے سائنس، فکشن، اخلاق،عام معلومات غرض ہر موضوع اور ہر طرز میں بچوں کے لئے تحریر کیا۔ انہوں نے نظمیں بھی لکھیں۔ کہانیاں بھی لکھیں۔ قصے بھی لکھے۔ مزاحیہ مضامین، گیت اور نثری مضمون بھی لکھے۔ 'ننھی منی باتیں' حصہ اول سے لے کر حصہ ششم تک مرحلہ وار طریقے سے لکھیں اور شائع کیں۔ بچوں کے لیے حیدر بیابانی کا تحریر کردہ نغموں کا مجموعہ 'کھٹی میٹھی باتیں'، مزاحیہ نظموں کا مجموعہ 'الٹی سیدھی باتیں' اور طنز و مزاح کا مجموعہ 'چشم دید'، یہ تمام کتابیں شائع ہوکر بچوں کی دنیا میں اپنی منفرد شناخت بنا چکی ہیں۔
حیدر بیابانی کی چند تصانیف کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی جن میں 'منظوم لطیفہ'، 'معصوم تتلیاں'، 'نبی میرے'، 'اللہ اکبر'،'پھول کی دنیا'، 'ہمارے اپنے'، 'سائنس کی سوغاتیں' اور 'انمول بدن' قابل ذکر ہیں۔ حیدر بیابانی دراصل بچوں کی نفسیات سے بخوبی واقف تھے اس لیے ان کی کتابوں میں بچوں کی دلچسپی اور معلومات کا خزانہ ہوتا تھا۔ بچوں سے والہانہ لگاؤ رکھنے والے اس ادیب کو سب سے زیادہ مقبولیت ان کی کتاب 'بھارت درشن' سے ملی۔ 'بھارت درشن' دراصل ایسی کتاب ہے جس میں ملک کی پچیس تاریخی عمارتوں پر کہی گئی نظمیں ہیں۔ ان نظموں میں بچوں کی سوچ اور سمجھ کو ملحوظ رکھتے ہوئے انتہائی سادہ اور سلیس زبان کا استعمال کیا گیا ہے۔ ان نظموں میں تاریخی آثار کی عظمت کو تو بیان کیا ہی گیا ہے ساتھ ہی ساتھ عظمت رفتہ سے نئی نسلوں کو روشناس کرانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : اتر پردیش میں بی جے پی کو کیسے ہرایا جا سکتا ہے!... ظفر آغا
حیدر بیابانی کے قلم کا جادو بچوں سے لیکر بڑوں تک کے سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ان کی تحیروں کی افادیت اور مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی تقریباً چالیس نظمیں گجرات، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، چھتیس گڑھ، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور کرناٹک میں بچوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ حیدر بیابانی کی ادبی زندگی کا ایک دلچسپ واقعہ پاکستان سے جڑا ہوا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ ان کی مشہور نظم 'چائے کی دعوت' کو پاکستان میں چھٹی جماعت کے نصاب میں شامل کیا گیا لیکن اس نظم کے شاعر کے طور پر حیدر بیابانی کی جگہ امانت نامی کسی شاعر کا نام دیا گیا۔ حیدر بیابانی کو یہ بات کافی عرصہ بعد معلوم ہوئی تو انہوں نے پاکستان میں موجود اپنے احباب کے ذریعے معاملہ اٹھایا۔ اس معاملے پر کافی لے دے مچی اورتقریباً دو برس بعد اس نظم کو نصاب سے ہی ہٹا دیا گیا۔
حیدر بیابانی کی شخصیت اور فن پر اردو کے معروف ادیبوں نے اپنی رائے کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے۔
ممتاز ادیب اقبال مسعود کہتے ہیں کہ 'اردو ادب میں ادب اطفال پر لکھنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ حیدر بیابانی نے ساری زندگی بچوں کا ادب تحَلیق کرنے میں گزاری ہے۔ انہوں نے بچوں کے ذہن کو سامنے رکھ کر اپنی نظموں اور گیتوں کے ذریعہ ان میں حب الوطنی کے جذبات پیدا کئے۔ انہوں نے سائنس کے اوپر لکھا اور بچوں کو حقیقی دنیا کے اندر جینے کا ہنر سکھایا''۔
مدھیہ پردیش کے ممتاز ادیب و محقق ضیا فاروقی کہتے ہیں کہ ''حیدر بیابانی ہمارے عہد کی عہد ساز شخصیت تھے۔ وہ ایک ایسے قلمکار تھے جنہوں نے بچوں کی نفسیات کو سامنے رکھ کر ادب تخلیق کیا۔ حیدر بیابانی نے خود کو بچوں کے ادب کے لئے محفوظ کردیا تھا۔ انہوں نے جو لکھا وہ بہت اہم ہے اور ہمارے ادب کا حصہ ہے۔ انہوں نے اردو ادب کو جو قیمتی سرمایہ دیا ہے وہ اردو ادب میں ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔''
ممتاز شاعر منظر بھوپالی کہتے ہیں کہ 'حیدر بیابانی ادب اطفال کا ایک بہت بڑا نام تھا۔ ان کی تحریروں کو لوگ ٹھہر کر پڑھتے تھے اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اردو میں بچوں کے ادب پر جب بھی بات کی جائے گی تو حیدر بیابانی کا ذکر لازمی ہوگا۔ انہوں نے پوری زندگی بہت سادگی سے گزاری اور اتنا لکھا کہ ادب اطفال میں اردو کا دامن وسیع کردیا۔ اللہ نے انہیں بچوں کا ادب تخلیق کرنے کے لئے ہی پیدا کیا تھا اور انہوں نے ساری زندگی بہت ذمہ داری سے اپنا فریضہ انجام دیا ہے'۔
حیدر بیابانی کی ادب اطفال کے لئے قلمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مہاراشٹر اردو اکیڈمی نے سات مرتبہ، بہار اردو اکیڈمی نے چار مرتبہ، اتر پردیش اردو اکیڈمی نے تین مرتبہ اور مغربی بنگال، ہریانہ اور مدھیہ پردیش اردواکیڈمی نے ایک ایک مرتبہ انعامات سے نوازہ۔ مدھیہ پردیش اردو اکادمی نے 2017-18 میں حیدر بیابانی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں 'سورج کلا سہائے سرور' صوبائی اعزاز سے سرفراز کیا تھا۔ حیدر بیابانی کی زندگی ہی میں ان پر تحقیقی مقالہ لکھا گیا۔
ناگپور یونیورسٹی کی اردو رسرچ اسکالر شہناز این قاضی نے 'بچوں کے شعری ادب کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ اور اس تناظر میں حیدر بیابانی کی خدمات' پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ شہناز این قاضی نے یہ تحقیقی مقالہ یشودہ گرلز آرٹس اینڈ کامرس کالج کے اردو فارسی شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر اظہر حیات کی نگرانی میں مکمل کیا۔ حیدر بیابانی پر دوردرشن، سادری ٹی وی، ای ٹی وی ہندی اور اردو چینل اور سادھنا چینل ڈاکیو مینٹری فلمیں نشر کر چکے ہیں۔ بیتول، ناگپور اور بھوپال ریڈیو اسٹیشن تو متعدد بار ان کے انٹر ویو اور بچوں کی نظمیں نشر کر چکے ہیں۔
حیدر بیابانی ادبی سرقہ کرنے والوں کے نشانے پر بھی رہتے تھے۔ حیدر بیابانی کے قریبی ساتھی اور ادیب بابو آر کے مطابق حیدر بیابانی کی تقریباً چالیس نظموں کو کچھ شعرا نے اپنے نام سے مختلف رسائل اور جرائد میں شائع کرا رکھا ہے۔ ابتدا میں تو حیدر بیابانی اس پر احتجاج بھی کرتے تھے۔ اخبارات اور رسائل کو خطوط بھی لکھتے تھے۔ لیکن بعد میں انہوں نے اس بات کا نوٹس لینا ہی بند کر دیا تھا اور اپنے کلام کا سرقہ کرنے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ وہ ایک آزاد طبع انسان تھے اسی لئے ملازمت کی غلامی برداشت نہی کرسکے۔ انہیں لگتا تھا کہ وہ ملازمت کی زنجیروں کی قید رہتے ہوئے بچوں کی قلمی خدمت نہیں کرسکیں گے اس لئے انہوں نے ضلع پریشد اسکول کی ملازمت دو مرتبہ چھوڑی اور مدھیہ پردیش کے بیتول میں سلائی مشینوں کا کاروبار کرتے رہے۔
ان کے خاندان میں کوئی اہل قلم نہیں گزرا لیکن ان کے اندر شعر و ادب تخلیق کرنے کی زبردست خداداد صلاحیت موجود تھی۔ حیدر بیابانی نے اپنی چوہتر سالہ زندگی میں نصف صدی سے زیادہ حصہ ادب اطفال کو تخلیق کرنے میں گزار دیا۔ ان کے چاہنے والے اہل قلم افراد کو یہ شکایت ہے کہ اردو اکیڈمیوں نے تو ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا لیکن یہ ان کے شایان شان نہیں ہے وہ ساہتیہ اکیڈمی انعام کے مستحق تھے۔ بچوں کے ادب کو پچاس سے زیادہ مقبول کتابوں کا سرمایہ دینے والے قلمکار حیدر بیابانی کو اگر ان کی زندگی میں ساہتیہ اکیڈمی انعام سے نوازہ نہیں گیا تو انہیں بعد از مرگ تو اس سے سرفراز کیا ہی جانا چاہئے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔