حفیظ میرٹھی: جس نے زندگی بھر مقصدی شاعری کی... جمال عباس فہمی

حفیظ میرٹھی کا مکمل نام حفیظ الرحمان تھا، ان کے والد محمد ابراہیم خلیل اپنے دور کے کہنہ مشق شاعر تھے اور نانا منشی خادم حسین کو شعر و ادب سے بہت لگاؤ تھا۔

<div class="paragraphs"><p>حفیظ میرٹھی</p></div>

حفیظ میرٹھی

user

جمال عباس فہمی

حفیظ میرٹھی اردو کے ان شعرا میں سرفہرست ہیں جنہوں نے مقصدی شاعری کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا تھا۔ حفیظ میرٹھی کی شاعری اعلیٰ اقدار کی پاسداری اور حقائق کے بیان سے عبارت ہے۔ وہ ایک فطری شاعر ہیں جن کے یہاں آمد ہی آمد ہے۔ سرکاری مراعات اور انعامات کو ٹھکرانے والے حفیظ میرٹھی ادب عالیہ کے دلدادہ تھے۔ سطح پسندی اور مصلحت پسندی کے سخت مخالف تھے۔ ان کی مقصدیت پسندی کا یہ حال تھا کہ انہیں اس کے لیے سیاسی اور سماجی اقدار سے ٹکرانا پڑا۔ اس کے لیے انہیں جیل بھی جانا پڑا اور دوران قید ایک اولاد کا داغ مفارقت بھی برداشت کرنا پڑا لیکن اقتدار کے آگے جھکنا گوارہ نہیں کیا۔ ان کی زندگی میں ان کے کلام کے دو مجموعے شائع ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد ان کی کلیات بھی شائع ہوئیں۔ ان کی شخصیت اور شاعری پر بھی کئی کتابیں تحریر کی گئیں۔ حفیظ میرٹھی کی شاعری کے اوصاف پر تفصیل سے بات کرنے سے پہلے ان کی زندگی اور تعلیمی سفر پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا ضروری ہے۔

حفیظ میرٹھی کا مکمل نام حفیظ الرحمان تھا۔ ان کے والد محمد ابراہیم خلیل اپنے دور کے کہنہ مشق شاعر تھے اور نانا منشی خادم حسین کو شعر و ادب سے بہت لگاؤ تھا۔ 10 جنوری 1922 کو محمد ابراہیم خلیل کے گھر میں بڑے بیٹے کے طور پر حفیظ الرحمان پیدا ہوئے۔ 1939 میں انہوں نے میرٹھ کے فیض عام کالج سے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ حفیظ کی کفالت ان کے نانا ہی کرتے تھے۔ نانا کے انتقال کے بعد حفیظ کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ 1948 میں انھوں نے پرائیوٹ طور پر ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ نانا منشی خادم حسین کی تربیت کے زیر اثر حفیظ بھی شعر و ادب کی طرف مائل ہو گئے۔ ابتدا میں انہوں نے استاد شاعر عاصم بریلوی سے مشورہ سخن کیا لیکن اس کے بعد کسی استاد کے آگے زانوئے ادب طے نہیں کیا۔ حفیظ میرٹھی کی ابتدائی دور کی شاعری پر جگر مراد آبادی کی گہری چھاپ تھی۔ وہی لہجہ، وہی استعارات اور وہی الفاظ کی ترکیبیں اور بندشیں، لیکن جماعت اسلامی کا رکن بننے کے بعد ان کی شاعری کا دھارا ہی تبدیل ہو گیا۔ جماعت اسلامی سے وابستگی نے ان کی شاعری اور زندگی دونوں کو بہت متاثر کیا۔ 1975 میں حکومت وقت نے ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔ حکومت نے آر ایس ایس کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی پر بھی پابندی لگا دی تھی۔ جماعت اسلامی کے کئی بڑے لیڈروں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ حفیظ میرٹھی نے اپنی شاعری کے ذریعے ایمرجنسی کی سخت مخالفت کی، جس کی پاداش میں انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد رہائی ملی لیکن ان کے تیور تبدیل نہیں ہوئے۔ انہوں نے ایک مشاعرے میں یہ اشعار پڑھ کر اپنی گرفتاری کا پھر سامان کر لیا۔

آباد رہیں گے ویرانے شاداب رہیں گی زنجیریں

جب تک دیوانے زندہ ہیں پھولیں گی پھلیں گی زنجیریں

آزادی کا دروازہ بھی خود ہی کھولیں گی زنجیریں

ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گی جب حد سے بڑھیں گی زنجیریں

جب سب کے لب سل جائیں گے ہاتھوں سے قلم چھن جائیں گے

باطل سے لوہا لینے کا اعلان کریں گی زنجیریں

اندھوں بہروں کی نگری میں یوں کون توجہ کرتا ہے

ماحول سنے گا دیکھے گا جس وقت بجیں گی زنجیریں

جو زنجیروں سے باہر ہیں آزاد انہیں بھی مت سمجھو

جب ہاتھ کٹیں گے ظالم کے اس وقت کٹیں گی زنجیریں

حفیظ میرٹھی کو قید کے دوران ہی اپنی ایک کمسن اولاد کی وفات کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔


غزل حفیظ میرٹھی کی پسندیدہ صنف سخن تھی حالانکہ انہوں نے نعتیں، منقبتیں سلام اور نظمیں بھی کہیں۔ ان کی غزلوں میں روایت کی پاسداری بھی ہے اور غزل کی فنی لوازمات کا خیال بھی۔ وہ زندگی کے ٹھوس حقائق سے خطاب کرتے ہیں۔

مجھ کو طوفان سے لڑنے میں مزہ آتا ہے

ورنہ بہہ جاتے ہیں سیلاب کے رخ پر کتنے

حفیظ میرٹھی کے یہاں تخیل کے ساتھ تخلیقی عنصر بھی ہے۔ انہوں نے اپنے گرد و پیش رونما ہونے والے واقعات اور حادثات سے کبھی بھی روگردانی نہیں کی۔ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے میں کبھی عار محسوس نہیں کیا۔

بارہا گفتگوئیں ہوئیں

مسئلہ ہے وہیں کا وہیں

جب سہاروں نے طعنے دیے

ہم نے بیساکھیاں پھینک دیں

تجربوں سے بھی کچھ سیکھتے

آپ نے بس کتابیں پڑھیں

تیرے دامن سے نادم ہوں میں

میری آنکھوں میں آنسو نہیں

حفیظ میرٹھی کی شاعری کا گہرائی سے مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا موضوع آج کے دور کا انسان ہے جسے کبھی وہ کچوکے لگاتے نظر آتے ہیں، کبھی چھیڑتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں، کبھی نصیحت کرتے نظر آتے ہیں، کبھی طنز کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی حوصلہ افزائی اور ہمت بندھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کبھی اس کے زخموں پر مرہم رکھتے نظر آتے ہیں۔ حفیظ ایسے بیدار مغز شاعر ہیں جنہیں عصر نو کے تقاضوں کا بخوبی احساس ہے۔ حفیظ ادب عالیہ کے دلدادہ تھے۔ سطح پسندی کے قائل نہیں تھے۔

کہاں پہ سطح پسندی ادب کو لے آئی

جہاں نظر کی بلندی نہ دل کی گہرائی

حفیظ کی شاعری کی زبان نہایت ہی سادہ اور عام فہم ہے لیکن بلیغ اور فصیح بھی ایسی کہ ایک عام آدمی تک اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

کہا نہ تھا کہ نوازیں گے ہم حفیظ تجھے

اڑا کے وہ مرے دامن کی دھجیاں بولا

فرقہ وارانہ فسادات سے وہ بہت ملول ہوتے تھے۔ قتل و غارت گری اور آتش زنی کے واقعات پرکنایوں کنایوں میں تبصرہ کرتے تھے۔

روشنی اتنی کب تھی مرے شہر میں

جل رہے ہیں مکاں مشعلوں کی طرح

۔۔

حصار جبر میں زندہ بدن جلائے گئے

کسی نے دم نہیں مارا مگر دھواں بولا


حفیظ کی شاعری میں ملک کے موجودہ حالات کا بھرپور عکس نظر آتا ہے۔ ملک میں آج مسلمانوں کی جو حالت ہے، حفیظ میرٹھی نے اپنے دور میں ہی بیان کر دی تھی۔

ضروری ہے کفن بردوش رہنا

وطن ہے کوچہ قاتل ہمارا

۔۔۔

ابھی کیا ہے کل اک اک بوند کو ترسے گا میخانہ

جو اہل ظرف کے ہاتھوں میں پیمانے نہیں آئے

۔۔۔

داد دیجے کہ ہم جی رہے ہیں وہاں

ہیں محافظ جہاں قاتلوں کی طرح

سب مجھ پہ مہر جرم لگاتے چلے گئے

میں سب کو اپنے زخم دکھانے میں رہ گیا

حفیظ میرٹھی کے یہاں جبر، استبداد، اور ظلم و ستم سے لڑنے کا جذبہ محکم نظر آتا ہے۔ وہ جبر کے آگے سر تسلیم خم کرنے کو ہرگز تیار نہیں۔ حق و انصاف کے لیے لڑنے کا جذبہ انہیں کربلا سے ملتا ہے۔

اے جبر آج فیصلہ کر کے اٹھیں گے ہم

جھک جائیں تیرے سامنے یا سرکشی کریں

۔۔۔

مردان حق پرست کو ہر کربلا پسند

پیچیدہ مسئلہ ہو تو کچھ غور بھی کریں

۔۔۔

ستم کی تیغ یہ کہتی ہے سر نہ اونچا کر

پکارتی ہے بلندی کہ زندگی ہے ادھر

۔۔۔

بڑے ادب سے غرور ستم گراں بولا

 جب انقلاب کے لہجے میں بے زباں بولا

مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے کی سیاسی کوششوں کی حفیظ نے ہمیشہ مخالفت کی۔

ذہن سنجیدہ مسائل سے ہٹانے کے لئے

روز یہ شیخ و برہمن کا تماشہ نہ کرو

حفیظ میرٹھی قوم کے لیڈروں کی بد دیانتی سے بھی نالاں تھے۔

ذکر چھڑ جائے اگر قوم کی بد بختی کا

رہنماؤں کی طرف کوئی اشارہ نہ کرو

۔۔۔

میں یوں رہزن کے بدلے پاسباں پر وار کرتا ہوں

مرے گھر کی تباہی ہے نگہبانوں سے وابستہ

۔۔۔

تکرار سے کیا حاصل مل جل کے گزر کر لیں

کل رات یہ کہتا تھا رہزن سے مرا رہبر


حفیظ میرٹھی کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ بات وہ دو ٹوک کرتے ہیں، ان کی فکر راسخ ہے۔ حق بیانی اور ایمانداری ان کے مزاج کا جزو لاینفک تھی، یہ ان کی شاعری میں صاف جھلکتا ہے۔

دو گھڑی مل بیٹھنے سے سب پتہ چل جائے گا

جو بظاہر خوش ہیں وہ بھی اصل میں رنجیدہ ہیں

۔۔۔

میری باتوں پہ ہنستی ہے دنیا ابھی

 میں سنا جاؤں گا فیصلوں کی طرح

حفیظ میرٹھی قلندر صفت انسان تھے انہیں شوکت و شہرت اور انعام و اکرام کی خواہش نہیں تھی۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو نے انہیں 'یش بھارتی' ایوارڈ دینے کی پیش کش کی لیکن انہوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ ضلع مجسٹریٹ نے دو لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا لیکن انہوں نے مالی طور سے کمزور ہونے کے باوجود اس کو بھی قبول نہیں کیا۔ دولت و شہرت سے بے نیاز حفیظ میرٹھی نے 7 جنوری 2000 کو اس دار فانی سے دار بقا کی جانب کوچ کیا۔ ان کی شاعری مظلوموں، ناداروں اور انصاف سے محروم لوگوں کو طاقت اور حوصلہ بخشتی رہے گی۔ ان کے کچھ اشعار ضرب المثل بن چکے ہیں۔

وہ وقت کا جہاز تھا کرتا لحاظ کیا

میں دوستوں سے ہاتھ ملانے میں رہ گیا

۔۔۔

شیشہ ٹوٹے غل مچ جائے

دل ٹوٹے آواز نہ آئے

۔۔۔

بدتر ہے موت سے بھی غلامی کی زندگی

مر جائیو مگر یہ گوارا نہ کیجیو

۔۔۔

یہ ہنر بھی بڑا ضروری ہے

کتنا جھک کر کسے سلام کرو

۔۔۔

شیخ قاتل کو مسیحا کہہ گئے

محترم کی بات کو جھٹلائیں کیا

۔۔۔

ابھی سے ہوش اڑے مصلحت پرستوں کے

ابھی میں بزم میں آیا ابھی کہاں بولا

۔۔۔

بزم تکلفات سجانے میں رہ گیا

میں زندگی کے ناز اٹھانے میں رہ گیا

تم بھی دربار میں حاضری دو حفیظ

پھر رہے ہو کہاں مفلسوں کی طرح

۔۔۔

نہ دیکھیں گے چمن برباد ہوتے

کہ اس میں خون شامل ہے ہمارا

۔۔۔

چاند کا کردار اپنا یا ہے ہم نے دوستو

 داغ اپنے پاس رکھے روشنی بانٹا کیے

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔