’اچھائی کی جگہ نمائش اور دکھاوے نے لے لی تھی‘: معروف مصنفہ غزالہ وہاب کی چند یادیں

میرے بچپن کی انتہائی روشن یادیں جن کا تعلق مذہب سے ہے وہ رمضان ہے۔ روزہ کا مہینہ جس کا اختتام عید پر ہوتا ہے۔ کئی برسوں سے رمضان یا اس کا آخری عشرہ میری گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران آتا تھا

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آواز بیورو

کیا ہندوستان میں مسلمان ایک نا تبدیل ہونے والی برادری ہے جو اس عقیدے پر عمل پیرا ہے جو ہندوستانی عقائد سے اجنبی ہے؟ کیا وہ  مختلف لوگ ہیں، جو جغرافیائی طور پر ہندوستان کی ثقافتی اقدار میں جڑے ہوئے ہیں؟ کیا کوئی 'ہندوستانی مذہب  ہے جو عرب میں  پروان چڑھا لیکن ہندوستان میں پرورش پایا اور مقامی ثقافت اور روایت سے متاثر ہوا؟ کیا صدیوں میں اسلام کی طاقت میں کمی آئی ہے کیونکہ اہل ایمان مذہب کی روح کو فراموش کر چکے ہیں؟ معروف مصنفہ غزالہ وہاب نے اپنی کتاب ’مسلمان کی پیدائش: ہندوستان میں اسلام سے متعلق چند حقائق‘ (Born a Muslim: some truths about Islam in India) میں ان سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ ہندوستان میں دوسرا بڑا مذہب کس طرح رائج ہے اور اس میں کیا کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔ 

ویسے تو یہ کتاب معلومات کا ایک خزانہ ہے لیکن مصنفہ نے انتہائی خوبصورتی سے ماہ رمضان کی اپنی یادوں کو قلم بند کیا ہے اور آنے والی تبدیلیوں کو پیش کیا ہے۔ ان کی اس یاد کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ 

چند یادیں

میرے بچپن کی انتہائی روشن یادیں جن کا تعلق مذہب سے ہے وہ رمضان ہے۔ روزہ کا مہینہ جس کا اختتام عید پر ہوتا ہے۔ کئی برسوں سے (اس وقت سے جب میری عمر سات سے گیارہ برس تھی) رمضان یا اس کا آخری عشرہ میری گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران آتا تھا۔ بچے ہونے کی وجہ سے ہم کو روزہ رکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی، اچھا بننے کی صلاح دی جاتی تھی۔


میری ماں مجھ سے اور میرے بھائیوں سے کہا کرتی تھیں کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں تمام اچھے کاموں کا صلہ دوگنا دیا جاتا ہے۔ اگر تم نے اچھا سلوک کیا، دوسروں کی مدد کی اور سچ بولا تو اس کا ثواب اتنا ہی ہے جتنا کہ روزہ رکھنے کا۔ 

افطار کی تیاریاں شام سے ہی شروع ہوجاتی تھیں، جب میری ماں اور پھوپیاں کھانا پکانا شروع کرتی تھیں جس کو سحری میں کھایا جاتا تھا۔عموما‘یہ کچھ گوشت کا سالن ہوتا تھا جس کو موسمی ترکاری کے ساتھ ملا کر پکایا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ دال ہوتی تھی اور ایک ترکاری تیار کی جاتی تھی۔ بعض اوقات گوشت کے سالن کی جگہ قیمہ ہوتا تھا جس کو آلو یا مٹر کے ساتھ یہاں تک کہ کریلا کے ساتھ بھی پکایا جاتا تھا۔ آٹا بھیگو کر گوند کر تیار رکھا جاتا تھا تاکہ صبح میں جلد تازہ روٹیاں پکائی جا سکیں۔ 

سحری کے آخری وقت سے تقریباً دو گھنٹے پہلے ‘سحری جگانے والے‘ اپنی کمر سے چھوٹے ڈھول باندھے گلی میں نکلتے تھے تاکہ لوگوں کو جگا ئیں۔ کچھ لوگ مذہبی گیت گاتے اور کچھ گانے والے انداز میں صرف یہ دہراتے تھے ’’حاضرین سحری کا وقت ہو چکا ہے۔‘‘ خاندان کی خواتین سب سے پہلے اٹھ جاتی تھیں۔ کھانا گرم کرنا اور سب کے لئے روٹیاں بنانا ان کا کام تھا۔ بچوں کو بیدار نہیں کیا جاتا تھا تاہم گھر میں چہل پہل کی وجہ سے ہم میں سے اکثر عموماً بیدار ہوجاتے تھے۔ گرما کی تعطیلات ہونے کی وجہ سے ہمیں دوبارہ سونے کے لئے مجبور نہیں کیا جاتا تھا۔ مدد کرنے کے عہد کو پورا کرنے کے لئے میں اور میری کچھ رشتہ دار بہنیں سحری کا دسترخوان بچھانے میں مدد کرتی تھیں۔ سب سے پہلے ہم ایک موٹی دری بچھاتے اور اس کے بعد اس پر ایک سفید چادر۔ اس کے درمیان زعفرانی، سرخ اور بھورا پرنٹ کیا ہوا دسترخوان بچھایا جاتا جس پر برتن اور کٹورے وغیرہ رکھے جاتے تھے۔ بڑے لوگ جمع ہوتے اور سحری کھاتے تھے۔ 

سحری ختم ہونے سے صرف دس منٹ پہلے گلی میں آواز لگانے والے دوبارہ آ جاتے اور سحری کا وقت ختم ہونے کی اطلاع دیتے۔آخر میں مسجد سے اذان رات کا سینہ چیرتی ہوئی سحری ختم ہونے اور روزہ شروع ہونے کا اعلان کرتی تھی۔ 


یہی معمول دہرایا جاتا جب دن ختم ہونے لگتا تھا۔ سہ پہر تمام خواتین افطار کی تیاری شروع کر دیتیں۔ بچوں کو چھوٹے موٹے کام سونپے جاتے جیسے برفیلے پانی میں شکر گھولنا تاکہ نیمو کے شربت کا ایک بڑا جگ تیار کیا جا سکے یا برف توڑ کر اس کو پانی میں ملانا یا نیمو کے شربت کو اچھی طرح سے ملانا تاکہ تمام اجزاء اس میں اچھی طرح سے مل جائیں۔ افطار کی خصوصی پلیٹیں تیار کر کے مسجد کو بھیجی جاتی تھیں تاکہ مسافر اور غریب لوگ جو افطار تیار نہیں کر سکتے اچھی غداؤں کے ساتھ روزہ افطار کر سکیں۔ مسجد کو یہ پلیٹیں پہونچانا بچوں کی ذمہ داری تھی۔ ان پلیٹوں کو مسجد لے جاتے ہوئے ہمیں اہمیت اور فخر کا احساس ہوتا تھا۔ نہ صرف ہم غریبوں کے لئے کھانا لے جاتے بلکہ ہماری پلیٹوں میں پڑوس کے مکانوں سے آنے والی چھوٹی پلیٹوں کے مقابلہ میں زیادہ اشیاء  ہوتی تھیں۔ 

میرا غرور جلد ختم ہو گیا جب میں نے اس بات کو یہ سمجھ کر میرے دادا کو بتایا کہ وہ میری اس بات سے خوش ہونگے انھوں نے یہ کہہ کر مجھے حیران کر دیا کہ ’اب تمہارا تمام ثواب جاتا رہاً‘ انھوں نے کہا کہ جب تم کوئی اچھا کام کرتے ہو یہ فیصلہ آپ نہیں کر سکتے کہ یہ کتنا اچھا ہے یہ اللہ میاں طے کرتے ہیں کہ یہ اچھا ہے یا نہیں۔ جب تم اس کی بات کرتے ہو وہ ناراض ہو جاتے ہیں۔‘‘ 

مجھے یاد ہے میرے دادا ایک ہمدرد اور نرم دل انسان تھے۔ ان کے تعلق سے میری پسندیدہ یادیں ان کو رمضان کے دوران غریبوں میں کپڑے تقسیم کرتے دیکھنا تھا۔ رمضان کے آخری عشرہ میں ہر دوپہر میں میرے دادا جو میرے لئے ابا تھے، گلی میں کھلنے والے اصل دروازے سے متصل چھوٹے سے راستہ میں جو مکان کے وسطی حصہ کو ملاتا تھا، ایک لکڑی کی کرسی پر بیٹھتے تھے۔ یہ راستہ ایک کمرہ کی طرح تھا، گھر کے ایک دیوان خانہ کی طرح جہاں لوگ اندر داخل ہونے کی اجازت ملنے تک انتظار کرتے تھے۔ میرے دادا اس طرح بیٹھتے کہ کوئی رکاوٹ نہ ہو لیکن باہر کی گلی سے کچھ فاصلہ رکھتے تھے۔ ان کے قریب فرش پر ایک سفید چادر بچھی ہوتی تھی جس پر کپڑے رکھے ہوتے تھے۔ سفید سخت کپاس کا کپڑا پائجامہ کے لئے اور ململ میں ہلکے رنگوں کے کپڑے کرتہ کے لئے ان کے قریب رکھے رہتے تھے۔ دوسری طرف خواتین کے لئے رنگین لباس ہوتے تھے۔ سفید چادر کے بازو پلاسٹک کی ایک باسکٹ ہوتی تھی جس میں جارجیٹ کے حجاب یا دوپٹے ہوتے تھے تاکہ خواتین کا لباس مکمل ہو جائے۔ 

یہ زکوۃ تھی جو میرے دادا رمضان میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ یہ صرف رقم خرچ کرنا نہیں تھا (قران کے مطابق کسی کی سالانہ آمدنی کا 2.5 فیصد (اگرچہ میرے ناخواندہ دادا کوئی حساب نہیں رکھتے تھے) بلکہ جو کوشش تھی وہ نیک تھی کیونکہ وہ خود بازار جاتے اور کپڑوں کا انتخاب کرتے تھے، جن میں خواتین کے ملبوسات بھی شامل ہوتے تھے۔ بازار میں ہر کوئی انہیں جانتا تھا اور مقدس ماہ رمضان میں تقسیم کے لئے کپڑے گھر پہونچائے جاتے تھے۔ ابا کے مطابق، وہ غریبوں کو عید پر نئے کپڑے پہننے کا موقع دیتے تھے۔ 


چونکہ وہ یہ کام برسوں سے کررہے تھے‘لوگ اس کے بارے میں جانتے تھے اور ہمارے گھر پر جمع ہوجاتے تھے۔باہر کوئی بورڈ نہیں لگا ہوتا تھا اور میرے دادا ہمیشہ اندر بیٹھتے تھے وہ اپنے اس نیک عمل کا کوئی دکھاوا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ان کے ایک بزرگ دوست جو برسوں سے ان کے ساتھ تھے بحیثیت درزی ضرورت کے مطابق کپڑے کو ناپ کر اس کو کاٹتے تھے۔عام طور پر میرے دادا اس خاتون سے کوئی سوال نہیں کرتے جو اپنے دو یا پانچ افراد خاندان کے لئے کپڑے مانگتی تھی۔صرف اسی وقت جب کوئی شک و شبہ ہوتا تو وہ روک دیتے تھے۔ 

خاندان کے بچوں کے لئے رمضان سے لطف اندوز ہونے کا یہ ایک اور موقع ہوتا تھا۔ کپڑوں کا ڈھیر کھیل کا ایک نیا میدان ہوتا تھا اور جب دوپہر میں تقسیم شروع ہوتی اس کا نظارہ ایک تفریح کے طور پر کیا جاتا تھا۔ اکثر ہم لباس کے ساتھ دوپٹہ ملانے میں مدد کرتے تھے۔ 

کئی برس بعد میرے ایک دکھاوا کرنے والے چچا نے یہ ذمہ داری میرے دادا کے گذرنے کے بعد سنبھالی لیکن ان میں فرق تھا۔انھوں نے روایت توڑ دی۔ اپنے سر پر ٹوپی پہنے وہ اپنی کرسی گھر کے باہر گلی میں لگانے لگے، آنے جانے والوں سے بات چیت کرتے رہتے تاکہ لوگ دیکھ سکیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ اچھے کام کے لئے وہ زکوۃ حاصل کرنے والوں سے خاندان کے لئے دعا کرنے کے لئے کہتے جو ان کی عید کو مسرتوں سے بھرتی تھی۔ جتنی بلند آواز میں ان کا شکریہ ادا کیا جاتا وہ اتنا زیادہ خوش ہوتے، سب لوگوں کو دکھانے کے لئے تھا۔ 

ابا کے انتقال کے بعد یہ کام روک دیا گیا تھا، کیونکہ اچھائی کی جگہ نمائش اور دکھاوے نے لے لی تھی۔ اس کے بعد کئی دیگر مسلم خاندانوں کی طرح ہم نے بھی زکوۃ کی رقم مدرسوں کو بھیجنا شروع کیا۔ یہ کام سہولت بخش بھی تھا اور روح کو مطمئن کرنے والا بھی، کیونکہ ہمیں یقین تھا کے رقم غریب بچوں پر خرچ کی جائے گی۔ علاوہ ازیں اس بات بھی کا بھی احساس تھا کہ بچے دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، وہ جب بڑے ہونگے تو دین کی خدمت کریں گے۔ دین کی خدمت ایک انتہائی بہترین کام تصور کیا جاتا تھا، ایک ایسا کام جو دنیا کی مصروفیات کی وجہ سے ایک عام مسلمان انجام دینے سے قاصر تھا۔ 


مجھے زندگی میں ان باریکیوں کا پتہ بہت بعد میں چلا۔ بچپن میں مجھے اسلام کے بارے میں آہستہ آہستہ معلوم ہوتا رہا۔ گھر پر مذہبی تعلیم کا کوئی باقاعدہ انتظام نہیں تھا۔ قران اور نماز پڑھنا سیکھنا بچوں کے لئے ضروری تصور نہیں کیا جاتا تھا، اگرچہ میری ماں کے اصرار پر نیم دلی سے ہمیں قران کی تعلیم دلانے کی کوشش کی گئی۔ کچھ معلمین کی خدمات حاصل کی گئیں اور ان کو نکالا بھی گیا۔اس کام کے لئے کبھی کسی مولانا یا حافظ کی خدمات حاصل نہیں کی گئیں، نہ ہی ہمیں مسجد بھیجا گیا جیسا کہ پڑوس کے بچے جاتے تھے۔ یہ ہمیں ہمارے محلہ کی مسلم برادری سے دور رکھنے کا ایک اور طریقہ تھا۔ میں نے اسلام کے بارے میں ان قصہ کہانیوں سے سیکھنا شروع کیا جو میری ماں اور بعض اوقات میرے والد سنایا کرتے تھے۔ 

اس سیکھ کو ان سوالات سے مدد ملتی تھی جو میں ہمارے عقیدے کے بارے میں پوچھا کرتی تھی۔ اگرچہ کچھ سوال میرے ذہن میں پیدا ہوتے تھے کچھ سوال ایسے بھی تھے جو میرے اسکول کے دوست مجھ سے پوچھا کرتے تھے۔ ان کے سوال حقیقی تجسس سے لے کر موروثی بدگمانی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے تھے۔ تم رمضان میں روزہ کیوں رکھتے ہو؟ کیا تہمارے کھانے میں ہمیشہ گوشت ہوتا ہے؟ کچھ سوال دقیانوسی بھی ہوتے تھے، مسلمان روزانہ کیوں نہیں نہاتے ہیں؟ اور کچھ سراسر مضحکہ خیز کہ تمہاری کتنی مائیں ہیں؟ 

یہ سوال مجھے کبھی پریشان نہیں کرتے تھے نہ میرے والدین اس کا برا مانتے تھے۔ مجھے ہمیشہ ان سے ان سوالوں کے معقول جوابات ملتے تھے۔ میرے اسکول کے دوست مجھ سے کوئی حسد نہیں رکھتے تھے اگرچہ دوسروں کے مقابلہ میں میرے دوست کم ہی تھے۔کلاس میں واحد مسلم لڑکی ہونے کے باوجود مجھے کبھی تعصب کا احساس نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ میرا ٹفن بانٹ کر کھانے میں پس و پیش نے بھی مجھے تشویش میں مبتلا نہیں کیا کیونکہ میرے کانونٹ اسکول میں کئی لڑکیاں عموماً صرف اپنے گھروں سے لایا کھانا ہی کھاتی تھیں۔ ہو سکتا ہے کہ انھیں گھروں پر یہی سکھایا جاتا ہو۔ یا میں یہ سمجھنے کے لئے ابھی اتنی باشعور نہیں تھی۔ یا ہو سکتا ہے کہ وہ سادگی کے دن تھے۔ 

آہستہ آہستہ میں اس تعصب کو سمجھنے لگی جو دونوں طرف چل رہا تھا۔ چونکہ میرے زیادہ تر دوست سکھ تھے، مجھے گھر میں کہا جاتا کہ میں ان کے گھروں سے آیا گوشت نہ کھاؤں کیونکہ یہ حلال نہیں ہوتا۔ اس لئے جب پہلی مرتبہ مجھے ایک سکھ دوست کے گھر دوپہر کے کھانے کے لئے مدعو کیا گیا تو میں نے چکن کے بجائے صرف چھولے بھٹورے پر اکتفا کیا۔ تاہم جب میری سکھ دوست میرے گھر کھانے پر آئی تو اس نے سرگوشی میں مجھ سے کہا کہ اس کی دادای نے میرے گھر میں گوشت کی غذاؤں کو کھانے سے منع کیا ہے۔ چکن کھانے سے بچنے کے لئے جو بھی بہانہ میں نے بنایا تھا (میں نے چکن کھانے سے یہ کہہ کر گریز کیا تھا کہ مجھے مرغی کی ٹانگوں کے ساتھ کشتی لڑنے سے زیادہ چھولے کھانا آسان ہے) میری ماں کی ہدایتیں میرے کانوں میں گونج رہی تھیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔