فرحان رضا- تحت اللفظ مرثیہ خوانی جس کا اوڑھنا بچھونا ہے

فرحان رضا نے فن تحت اللفظ مرثیہ خوانی کو جو عروج بخشا ہے وہاں وہ اور ان کا فن ایک دوسرے کے مترادف نظر آتے ہیں

<div class="paragraphs"><p>فرحان رضا / تصویر جمال عباس</p></div>

فرحان رضا / تصویر جمال عباس

user

جمال عباس فہمی

کچھ فنکاروں نے اپنے فن کو وہ عروج بخشا ہے وہ اور ان کا فن ایک دوسرے کے مترادف ہو گئے ہیں۔ یہ فنکار اپنے فن کے ساتھ اس انداز سے مدغم ہو گئے ہیں کہ اس فن سے الگ کر کے ان کو تصور میں نہیں لایا جا سکتا۔ انیس و دبیر نے مرثیہ نگاری کو، میر و غالب نے شاعری کو، پیکاسو اور صادقین نے مصوری کو اور کرشن چندر اور منٹو نے فکشن نگاری کو اس بام عروج پر پہونچا دیا ہے۔ اسی سے ملتا جلتا معاملہ فرحان رضا اور تحت اللفظ مرثیہ خوانی کا ہے۔ فرحان رضا نے فن تحت اللفظ مرثیہ خوانی کو جو عروج بخشا ہے وہاں وہ اور ان کا فن ایک دوسرے کے مترادف نظر آتے ہیں۔ آج یہ حال ہے کہ بر صغیر میں امام حسین کی عزاداری کے حوالے سے یہ ممکن نہیں ہے کہ تحت اللفظ مرثیہ خوانی کا ذکر ہو اور فرحان رضا کا نام نہ آئے۔ فرحان رضا کا بس یہی کارنامہ نہیں ہے کہ وہ بہترین اور موثر انداز میں فن کی تمام تر باریکیوں کے ساتھ تحت اللفظ مرثیہ خوانی کرتے ہیں بلکہ انہوں نے ’تحت اللفظ خوانی، ایک فنی مطالعہ‘ اور ’اردو مرثیہ اور تحت اللفظ خوانی کا فن‘ جیسی کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔

فرحان رضا، انکے فن اور انکی قلمی کاوشوں پر تفصیل سے گفتگو کرنے سے پہلے انکے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفر کا سرسری طور سے جائزہ لینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ فرحان رضا 24 نومبر 1979 میں پاکستان کے شہر کراچی میں اس خانوادے میں پیدا ہوئے جس کا مذہبی، علمی اور ادبی میدان میں بہت شہرہ ہے۔ ان کے والد جمشید رضا اور والدہ صدیقہ رضوانہ کا تعلق علما کے خانوادوں سے ہے۔ فرحان رضا کو ننیہال اور ددھیال بر صغیر کے معروف علما اور شعرا سے مرصع نصیب ہوئی۔ فرحان رضا کے آبا و اجداد کا تعلق ریاست بہار کے علاقے کھجوہ سے ہے۔ معروف عالم دین اور شاعر مولانا محمد مصطفیٰ جوہر فرحان کی والدہ کے پھوپا تھے۔ اس نسبت سے صاحب طرز خطیب اور شاعر علامہ طالب جوہری اور ابوالقاسم جوہری فرحان رضا کے ماموں ہوئے۔ مولانا مصطفیٰ جوہر پٹنہ میں قائم مدرسہ عباسیہ کے پہلے نائب مدرس اعلیٰ تھے۔ ان کی اسلامی فقہ، شریعت، فلسفہ اور تفسیر پر مضبوط گرفت تھی۔ مولانا طالب جوہری کے بھائی ابولقاسم جوہری فرحان کے خسر بھی ہیں۔ فرحان کی ننیہال میں علامہ رضی جعفر جیسی علمی اور دینی ہستی بھی موجود ہے۔ ان کے والد کے نانا مولوی محمد علی ایک دور میں ہندوستان کے جید علما میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی ننیہال اور ددھیال کے علما اور شعرا نے ہمیشہ دین اور اردو ادب کی خدمت کی۔ دینی اور ادبی خدمت کا یہ سلسلہ فرحان رضا سے ہوتا ہوا ان کے فرزندوں تک پہونچ گیا ہے۔ فرحان کے دونوں فرزند مصطفیٰ رضا اور عبّاس رضا صاحب عمامہ ہیں۔ بڑے فرزند مولانا مصطفیٰ رضا نے "دبیریات" کے نام سے مرزا دبیر پر ایک کتاب بھی ترتیب دی ہے۔ فرحان رضا کی تعلیم کراچی میں ہی ہوئی۔ انہوں نے اردو میں ایم اے کیا ہے۔ وہ ایم بی اے بھی ہیں اور سر دست ملک کی ایک بڑی دواساز کمپنی کے مارکٹنگ شعبے سے وابستہ ہیں۔ دوا ساز کمپنی کی ماکیٹنگ اور تحت اللفظ خوانی کا بظاہر آپس میں کوئی رشتہ تو نہیں ہے لیکن ایک طرف فرحان رضا اپنی کمپنی کی صحت بخش دواؤں کی تشہیر اور ترویج میں مصروف ہیں تو دوسری طرف وہ محبان اہل بیت کی رثائی تشنگی کو دور کرنے اور انہیں روحانی طور سے تندرست و تواناں رکھنے کے لئے تحت اللفظ مرثیہ خوانی کی ترویج اور فروغ میں سرگرم ہیں۔


فرحان رضا کو بچپن سے ہی علم و ادب کے ساتھ عزائی ماحول بھی میسر تھا۔ 'پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آ جاتے ہیں'' کے مصداق انکی ماں کی جوہر شناس آنکھوں نے انکے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچان لیا تھا۔ انہوں نے کچھ مجلسیں تیار کرا کے اپنے دلبند کو زیب منبر کر دیا۔ کئی برس تک یہ سلسلہ جاری رہا لیکن تعلیمی مصروفیت کے سبب یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ منبر پر رونق افروز ہونے کا سلسلہ اس وقت بحال ہوا جب انکے عزیز دوست امجد رضا جوہری ایران سے دینی تعلیم مکمل کر کے وطن آئے اور انہوں نے ذاکری شروع کی۔ ایک مجلس میں فرحان بھی انکے ساتھ تھے۔ کہ اچانک مولانا امجد رضا نے پیش خوانی کرنے کی خواہش ظاہر کر دی۔ حافظے کی بنیاد پر فرحان نے سلام کے کچھ اشعار پیش کئے اور سامعین نے داد و تحسین سے انکی حوصلہ افزائی کی۔ 2002 کی ایک مجلس نے انہیں تحت اللفظ مرثیہ خوانی سے ہمکنار کر دیا۔ اس مجلس میں انہوں نے جوش کا مسدس 'ہمراز یہ فسانہ آہ و فغاں نہ پوچھ' پڑھا تھا اور تحت اللفظ مرثیہ سید جاوید حسن نے پیش کیا تھا۔ فرحان، جاوید حسن کی تحت اللفظ خوانی سے بہت متاثر ہوئے تھے۔ یہی جاوید حسن تحت اللفظ خوانی میں فرحان کے استاد بنے اور انہوں نے فرحان کو فن کی باریکیوں کا گیان دیا۔ جاوید حسن کی رہنمائی میں فرحان نے تحت اللفظ مرثیہ خوانی کے میدان میں قدم رنجہ کیا۔ انہوں نے تحت اللفظ مرثیہ خوانی کا آغاز میر انیس کے نظم کردہ معروف مرثیہ' بخدا فارس میدان تہور تھا حر' سے کیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن فرحان نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ فرحان رضا کی تحت اللفظ خوانی کی خوبیوں اور محاسن کی بات کرنے سے پہلے یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ تحت اللفظ مرثیہ خوانی کیا ہوتی ہے؟۔

مرثیہ پڑھنے کے دو معروف طریقے ہیں ایک لحن یا ترنم سے اور دوسرا سادہ طریقے سے تحت الفظ۔ اول الذکر طریقہ اب سوز خوانی سے مخصوص ہے۔ یہ مجلس کا جزو لاینفک ہے۔ مجلس کی ابتدا سوز خوانی سے ہی ہوتی ہے۔ اس کے بغیر مجلس نامکمل تصور کی جاتی ہے۔ تحت اللفظ مرثیہ پڑھنا ایک خاص لہجے اور ادائیگی کا متقاضی ہوتا ہے۔ تحت اللفظ خوانی کا بانی میر ضمیر کو مانا جاتا ہے۔ لیکن اس فن کو عروج مرثیہ نگاری کی طرح میر انیس اور انکے خانوادے کے مرثیہ گویوں نے عطا کیا۔ میر ضمیر سے پہلے مرثیہ لحن کے ساتھ پڑھا جاتا تھا ۔ اس وقت تک مرثیہ کی ہیئت بھی معین نہیں تھی۔ میر انیس وہ مرثیہ گو ہیں جنہوں نے مرثیہ نگاری اور مرثیہ خوانی دونوں کو معراج پر پہونچایا۔ میر انیس کے مرثیہ پڑھنے کے انداز نے تحت اللفظ مرثیہ خوانی کو فن کے درجے پر فائز کر دیا۔

تحت اللفظ خوانوں میں ہمیشہ دو طبقے رہے ہیں۔ ایک طبقہ مرثیہ گو شعرا کا اور دوسرا مشاہیر اور اساتذہ کے مراثی پیش کرنے والوں کا۔ مرثیہ گو شعرا کی پڑھت میں فن کی پختگی کو تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔ مشاہیر اور اساتذہ کا کلام پیش کرنے والوں سے فن کی باریکیوں کا خیال رکھنے کی توقع کی جاتی ہے۔ دونوں طبقوں کی نمائندگی کرنے والی ہستیاں ہر دور میں پیدا ہوتی رہیں لیکن ایک دور وہ آیا جب مرثیہ گو شعرا تو پیدا ہوتے رہے لیکن تحت اللفظ خوانوں کی تعداد اور میعار دونوں میں گراوٹ آتی چلی گئی۔ فرحان رضا نے جب تحت اللفظ مرثیہ خوانی میں قدم رنجہ کیا تو وہ دور تحت الفظ مرثیہ خوانی کے ذوال سے عبارت تھا۔ فرحان نے اپنے پیش رؤوں اور ہم عصروں سے الگ اپنا ایک خاص انداز وضع کیا۔


انہوں نے منبر پر متانت اور شائستگی سے نشست، تلفظ کی درستگی، آواز کے زیر بم اور چہرے کے تاثرات سے کام لیکر تحت اللفظ خوانی کو مرقع سازی میں تبدیل کر دیا ہے۔ ان سب عناصر کی اثر پذیری میں اہم کردار انکی کھنک دار آواز کا ہے۔ فرحان رضا بند کی ادائےگی کے دوران ہاتھ پیر کو قابو میں رکھتے ہیں۔ جس سے آداب اور تہذیب منبر پر آنچ نہیں آتی۔ بیت کی ادائیگی میں بہت متوازن اور مناسب زور دیکر سامعین کو اپنے ساتھ منسلک رکھتے ہیں۔ جو کلام وہ پیش کرتے ہیں وہ انکے ذہن نشین ہوتا ہے اسی لئے وہ تحریر شدہ متن پر نظریں جمائے بغیر سامعین سے آنکھیں دوچار کر کے کلام پیش کرتے ہیں۔ سامعین کے ساتھ آئی کانٹکٹ کی وجہ سے ان کے بیان کی اثر انگیزی دو چند ہو جاتی ہے۔ فرحان رضا منبر پر تحت اللفظ مرثیہ پڑھتے وقت گھٹنوں پر کپڑا ڈالنے کی تہذیب بھی نبھاتے ہیں۔ اس کی ابتدا میر انیس نے کی تھی۔ گھٹنوں کو سفید یا سیاہ کپڑے سے ڈھانپنا تحت اللفظ خوانوں کی تہذیب کا حصہ بن گیا ہے۔

فرحان قلمی میدان میں بھی سرگرم ہیں ۔ انکی تصانیف اور مرتب کردہ کتابوں میں 'شعریات علامہ طالب جوہری' (علامہ طالب جوہری پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ) ' 'جوہر شناسی' (مولانا محمد مصطفیٰ جوَہر پر لکھے گئے شخصی مراثی و مضامین کا مجموعہ)، رثائیاتِ علامہ طالب جوہری، اردو مرثیہ اور تحت خوانی کا فن (رثائی ادب پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ) دبیریات (مرزا دبیر کا منتخب کلام اور ان پر تحریر مضامین کا مجموعہ) اور بستہِ تحت اللفظ خوانی (مجالسِ مرثیہ تحت اللفظ خوانی کی ذاکری کے لئے منتخب مرثیوں کا مجموعہ) شامل ہیں۔

فرحان رضا کے طرز خواندگی نے بر صغیر ہند و پاک کی نوجوان نسل کو بہت متاثر کیا ہے۔ نوجوان نسل کے نمائندے انکی تاسی میں تحت اللفظ خوانی کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔ ان سے تحریک پاکر بر صغیر میں تحت اللفظ مرثیہ خانوں کی ایک کھیپ تیار ہو رہی ہے۔ زوال پذیر تحت اللفظ مرثیہ خوانی کی نشاۃ ثانیہ کا سہرا اگر فرحان رضا کے سر باندھا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔