اردو ادب کا ہر فن مولا تخلیق کار، صادق

ہر فن مولا قلمکار پروفیسر صادق نے 45 کتابیں لکھی اور ترتیب دی ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کے حوالے سے ان کے اوپر متعدد کتابیں بھی تحریر کی گئی ہیں

<div class="paragraphs"><p>اردو ادب کا ہرفن مولا تخلیق کار، صادق</p></div>

اردو ادب کا ہرفن مولا تخلیق کار، صادق

user

جمال عباس فہمی

آج ہم اردو شعرو ادب کے ایک ایسے قلمکار کی خدمات کا جائزہ لینے جا رہے ہیں جن کو اگر اردو ادب کا ہر فن مولا کہا جائے تو بیجا نہیں ہوگا۔ جی ہاں وہ قلمکار شاعر بھی ہیں، افسانہ نگار بھی۔ محقق بھی ہیں اور تنقید نگار بھی۔ مترجم بھی ہیں اور ڈرامہ نویس بھی۔ براڈ کاسٹر بھی ہیں اور ٹیلی کاسٹر بھی۔ محقق کے طور پر ان کا دعویٰ ہے کہ افسانے کی ابتدا سب سے پہلے اردو میں ہوئی۔ انہوں نے غالب کو فاصلاتی نظام تعلیم کا بنیاد گزار ثابت کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ نثری نظم سب سے پہلے افسانہ نگار منٹو نے لکھی۔ فکشن تنقید کی اہمیت کی جانب اردو ناقدین کی توجہ مبزول کرانے کے لئے انہوں نے ایک ایسی کتاب لکھی جو آج بھی فکشن تنقید کی معرکت آلارہ کتاب مانی جاتی ہے۔ اس قلمکار نے 45 کتابیں لکھی اور ترتیب دی ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کے حوالے سے ان کے اوپر متعدد کتابیں بھی تحریر کی گئی ہیں۔ یہ ہر فن مولا قلمکار ہیں پروفیسر سید علی صادق۔ لیکن وہ خود کو فقط صادق لکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اردو شعرو ادب سے الگ ان کی شخصیت کا ایک پہلو مصوری بھی ہے۔

پروفیسر صادق کی ادبی خدمات کے حوالے سے بات کرنے سے پہلے انکے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفر کا ذکر کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ صادق 10 اپریل 1943 کو مدھیہ پردیش کے اجین میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا انتقال ان کی پیدائش کے چندر روز بعد ہی ہو گیا تھا۔ ان کی پرورش کی زیادہ ذمہ داریاں ان کی ننہال والوں نے اٹھائیں۔ صادق نے بی اے تک کی تعلیم اجین میں ہی حاصل کی۔ انہوں نے اورنگ آباد میں مراٹھواڑہ یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ اجین چھوڑنے کی وجہ ان کا ایک برہمن زادی سے معاشقہ اور شادی تھی۔ اس کی وجہ سے اجین میں فرقہ وارانہ فساد کی نوبت آ گئی تھی۔ اجین سے صادق ممبئی چلے گئے جہاں ان کی ننہال کے کچھ افراد رہتے تھے۔ ممبئی سے صادق مہاراشٹر کے تاریخی شہر اورنگ آباد آ گئے۔ اجین میں تعلیم کے دور سے ہی صادق شاعر اور مصور کی حیثیت سے بہت مقبول تھے۔ ہاکی اور بیڈمنٹن کے بھی وہ اچھے کھلاڑی تھے۔ اسکول کی ثقافتی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہتے تھے۔ ڈرامے لکھنے اور ایکٹنگ کا بھی انہیں شوق تھا۔ ادب کی طرف صادق کا رجحان ان کے بڑے بھائی محمود ذکی کی وجہ سے ہوا۔ محمود ذکی شاعر اور صحافی تھے۔ وہ اجین سے شائع ہونے والے اخبار 'نیا سماج 'کے ایڈیٹر تھے۔


اورنگ آباد میں مولانا آزاد ہائی اسکول میں بحیثیت ٹیچر اور نانڈیڑ کے پیپلز کالج میں بحیثیت لیکچرار صادق نے خدمات انجام دیں۔ صادق کے دہلی آنے کا سبب یو پی ایس سی سے سلیکشن بنا۔ ان کا تقرر وزارت تعلیم کے ادارے 'ترقی اردو بورڈ' میں ہو گیا۔ وہاں ساڑھے تین برس گزارے کے بعد وہ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے بحیثیت لیکچرار وابستہ ہو گئے۔ انہوں نے صدر شعبہ کی ذمہ داری بھی سنبھالی۔ اس دوران ڈیپوٹیشن پر انہوں نے دہلی اردو اکیڈمی کے سیکریٹری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ اردو اکیڈمی میں بھی انہوں نے لیک سے ہٹ کر کام کیا۔

تحقیق، جستجو اور اختراع صادق کے مزاج کا خاصہ ہے۔ اسی تحقیق و جستجو کی بدولت صادق کے کم از کم تین کارنامے اردو ادب میں یادگار کہے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے فکشن تنقید کی طرف اردو ناقدین کی توجہ مبزول کرانے کے لئے 'ترقی پسند تحریک اور اردو افسانہ' جیسی کتاب تحریر کی جسے فکشن تنقید کے حوالے سے بڑا کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔ طویل عرصہ گزر جانے کے بعد آج بھی اس کتاب کو اس موضوع پر لکھی گئی ایک معتبر کتاب مانا جاتا ہے۔ فکشن کا کوئی بھی تنقید نگار اس کتاب کو پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ صادق ہی ہیں جنہوں نے دعوی کیا کہ ہندوستان کی تمام مروجہ زبانوں میں اردو کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ ادب کو افسانہ اسی نے دیا ۔ صادق نے بہت مدلل طریقے سے یہ ثابت بھی کیا ہے کہ اردو میں نثری نظم کے خالق معروف افسانہ نگار سعادت حسن منٹو ہیں۔


'اردو کا اولین افسانہ' مضمون میں صادق نے اردو ادب کے ماہرین کے تمام دعووں کو جھٹلاتے ہوئے سر سید کو اردو کا پہلا افسانہ نگار اور ان کی تحریر 'گزرا ہوا زمانہ' کو اردو کا پہلا افسانہ قرار دیا ہے۔ سر سید کی یہ تحریر سب سے پہلے تہزیب الاخلاق میں31 مارچ 1873 میں مضمون کی شکل میں شائع ہوئی تھی۔ صادق لکھتے ہیں کہ ’’میر امن کی 'باغ و بہار' اور غالب کے خطوط کے بعد سر سید کی زبان اردو کے نثری ادب میں خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ انہوں نے اردو نثر کو نہ صرف انقلابی تبدیلیوں سے روشناس کرایا بلکہ اسے ایک نیا موڑ بھی عطا کیا۔ ان کا افسانہ 'گزرا ہوا زمانہ' رجب علی بیگ سرور کے 'فسانہ عجائب' کی طرح چیستانی زبان میں نہیں بلکہ اس سادہ، بے تکلف، رواں اور عام فہم زبان میں لکھا گیا ہے جس کی بنیاد پر سر سید نئی اردو نثر کے باوا آدم کہلاتے ہیں۔‘‘

'اردو کی اولین نثری نظم' کے عنوان کے تحت ایک مضمون میں صادق لکھتے ہیں کہ ’’دلچسپ بات یہ ہے کہ منٹو نے یہ نظم 'زندگی' نامی ایک فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے قلم بند کی تھی۔ یہ تبصرہ 'منٹو کے مضامین' نامی کتاب میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب 1943 میں پہلی بار لاہور سے شائع ہوئی تھی۔ وہ نثری نظم یہ ہے۔

''بلوریں چوڑیوں نے کھنکھناہٹ سے پوچھا

میں خوبصورت ہوں کہ تو!

عود کا دھواں آگ کے بستر سے پریشان ہو کر اٹھا

ہوا میں سانپ کی طرح اس نے بل کھا کر کہا

تو میرے سینے کا راز ہے یا میں!

فرشتے اسمان کی ہلکی پھلکی فضاؤں میں پر تول کر رہ گئے

ابر بہار نے خزاں کی مٹھی کھولی اور بلند درختوں سے سرگوشیاں شروع کر دیں

طلوع آفتاب کی آڑی ترچھی کرنوں کے شور سے

اندھیارا گھبرا کے اٹھا اور بھاگ گیا

گاگر نے چھلکتے ہوئے پانی سے کہا

تو اتنا بے صبر کیوں ہے!

گھونگھٹ کے نیچے ایک کنوارے چہرے پر

نہ معلوم کتنے رنگ آئے اور چلے گئے

سوسن کے پھولوں میں شہد کی بھوری مکھیاں پڑی اونگھتی رہیں

آس شبنم کی بوندوں کی مانند اس کے دل پر ٹپک رہی تھی

دروازے نے ہولے سے آہ بھری اور دہلیز کے ساتھ بغل گیر ہو گیا

تھرتھراتے ہوئے ہونٹوں پر ایک کپکپی منجمد ہوتے ہوتے رہ گئی


جہاں تک زبان کا تعلق ہے تو صادق کی زبان دہلی کی خالص ٹکسالی زبان ہے۔ اس میں شوخی بھی ہے اور سلاست بھی۔ محاورہ بندی بھی ہے اور شستگی بھی۔

صادق کی ایک اور دلچسپ اور چشم کشا کتاب ہے جو غالب کے سلسلے میں ہے۔ اس میں انہوں نے غالب کو فاصلاتی نظام تعلیم کا بانی بتایا ہے۔ 'فاصلاتی نظام تعلیم کا بنیاد گزار غالب' نامی اس کتاب میں صادق نے غالب کے خطوط کے ذریعے ملک کے مختلف گوشوں میں پھیلے اپنے شاگردوں کے کلام کی اصلاح کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ انگلینڈ کے آئزک پٹ مین سے بھی کئی برس قبل دنیا میں سب سے پہلے فاصلاتی تعلیم کی ابتدا ہندوستان میں اردو اور فارسی کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالب نے کی تھی۔ صادق نے اپنے دعوے کی دلیل کے طور پر ہر گوپال تفتہ، علاء الدین خاں علائی، میاں داد خاں سیاح، نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ،حاتم علی خاں مہر اور نواب میر ابراہیم خاں جیسے درجنوں شعرا کے ان خطوط کا حوالہ د یا ہے جن میں

وہ اپنا کلام ڈاک کے ذریعے اصلاح کے لئے غالب کو بھیجتے تھے اور غالب اصلاح کر کے انکا کلام ڈاک کے ذریعے انہیں واپس کر دیتے تھے۔

صادق نے ہندی اور مراٹھی کی کئی مایہ ناز تخلیقات کا اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ ان میں وجے تندولکر کا انعام یافتہ مراٹھی ڈرامہ 'کنیا دان' اور اشوک باجپئی کی ہندی شعری تصنیف 'کہیں نہیں وہیں' بھی شامل ہے۔

صادق نے مرزا غالب پر دو ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ 'اس شکل سے گزری غالب' نامی ڈرامے میں غالب کو اپنی زندگی کے ایک بڑے مسئلہ پنشن سے نبرد آزما دکھایا گیا ہے۔ جبکہ 'فریب ہستی' نامی ڈرامے میں غالب کو موجودہ صدی میں دکھایا گیا ہے۔

جہاں تک صادق کی شاعری کا تعلق ہے، اس میدان میں بھی وہ اپنی طرز کے واحد نظر آتے ہیں۔ ویسے تو صادق نے غزلیں اور قصیدے بھی لکھے ہیں لیکن نظم ان کی پسندیدہ صنف ہے۔ ان کی نظمیں اور غزلیں نئے آہنگ کی غمازی کرتی ہیں۔ صادق اپنی شاعری میں ایک ایسے تجربے کی ترسیل میں مشغول نظر آتے ہیں جو عمومی ہونے کے ساتھ ان کا اپنا ہے۔


ان کی نظمیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش پر نظریں گاڑ کر اس کی پرتوں کو کھنگال کر ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں۔

اپنے گلے پہ چلتی چھری کا بھی دھیان رکھ

وہ تیز ہے یا کند ذرا دھار دیکھ لے

۔۔۔۔۔۔

وہ چیر کے آکاش زمیں پر اتر آیا

جلتا ہوا سورج مری آنکھوں میں در آیا

۔۔۔۔۔۔۔

گرچہ سہل نہیں لیکن تیرے کہنے پر لاؤں گا

کاٹ کے اپنے ہاتھوں میں اب اپنا ہی سر لاؤں گا

۔۔۔۔۔۔۔۔

اس گھومتی زمین کا محور ہی توڑ دو

بے کار گردشوں پہ خفا ہو رہے ہو کیوں

۔۔۔۔۔۔۔

یہ بوڑھی نسل جب کہ تمہیں مانتی نہیں

اپنے بدن میں اس کا لہو ڈھو رہے ہو کیوں

ان کی نظموں کے کچھ ٹکڑے ملاحظہ کیجئے:

تری چھاتیوں سے نکلتی ہوئی دودھ کی دھار

میرے بدن میں لہو بن گئی

میں سے تو بن گئی

تو سے میں بن گیا

رکت اور مانس کا سلسلہ بن گیا

۔۔۔۔۔

عمل میں پیوست مقدر

ہونی کا روپ دھارن کر چکا ہے

اور ہونی کال چکر کا

اور کال چکر کو کون روک پایا ہے

۔۔۔۔۔

بچپن کی آنکھیں

سڑک کنارے کھڑی روتی ہیں

کہ انہوں نے جو کچھ دیکھا

وہ بے معنی ہے

بچپن کی گواہی

عدالت میں تسلیم نہیں کی جاتی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

81 برس کی عمر میں بھی صادق کا قلم جوان ہے اور قرطاس پر جولانیاں بکھیر رہا ہے۔ اللہ ان کی طبیعت کی جولانی کو تادیر سلامت رکھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔