عبدالقوی دسنوی: آسمانِ ادب کا درخشاں ستارہ
یہ دیکھ کر بے انتہا خوشی ہو رہی ہے کہ ’گوگل‘ نے آج اپنا ’ڈوڈل‘ اردو ادب کی عظیم المرتبت شخصیت مرحوم پروفیسر عبدالقوی دسنوی کے نام کر دیا ہے۔ غالباً یہ پہلا موقع ہے جب اُردو کے کسی مشہور ادیب کو یہاں جگہ ملی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس ڈوڈل کو تیار کرنے کے لیے گوگل کی ٹیم نے کافی محنت بھی کی اور جیسا کہ ایک ویب سائٹ نےبتایا ہے، گیسٹ گوگل ڈوڈلر پربھا مالیہ نے کئی ڈیزائن تیار کیے تھے جس میں سے ایک کو فائنل کیا گیا۔ یہ دیکھنا بھی اچھا لگ رہا ہے کہ ایک غیر اُردو داں کے بنائے گئے ڈیزائن میں اُردو کا نقش دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ’گوگل‘ کا یہ قدم اُردو ادب کے لیے جہاں باعث فخر قرار دیا جا سکتا ہے وہیں یہ دیکھنا افسوسناک بھی ہے کہ اُردو ادب کا درد رکھنے والے اس سپاہی کی وفات کے 6 سال گزر جانے کے بعد بھی اُن پر کوئی ایسا کام نہیں کیا گیا جس پر اُردو والے فخر کر سکیں۔ ان کی وفات کے فوراً بعد ستمبر 2011 میں ’کتاب نما‘ نے پروفیسر عبدالقوی دسنوی نمبر ضرور شائع کیا تھا لیکن اس کے بعد خاموشی ہی رہی۔
یقیناً ’گوگل‘ نے آج عبدالقوی دسنوی کا ’ڈوڈل‘ تیار کر اُردو ادب کو فروغ دینے کا دعویٰ کرنے والی تنظیموں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہوگا کہ علامہ اقبال، اسداللہ خان غالب اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسی ہستیوں کے یوم پیدائش اور یوم وفات پر تو ہر سال تقریب منعقد کرتے ہیں لیکن اقبال، غالب اورابوالکلام کی حیات کے مختلف گوشوں سے روشناس کرانے والی شخصیت عبدالقوی دسنوی فراموشی کے شکار ہو رہے ہیں۔ جی ہاں! عبدالقوی دسنوی نے ’قادر نامہ غالب‘، ’ بھوپال اور غالب‘ اور ’اقبال بھوپال میں‘ جیسی تصنیفات سے غالب اور اقبال کو نئی پہچان دی تو ’لسان الصدق‘ (ترتیب)، ’تلاش آزاد‘، ’ابوالکلام آزاد‘ اور ’حیات ابوالکلام آزاد‘تصنیف کر خود کو ابوالکلام شناس بھی ثابت کیا۔اس کے علاوہ ’اجنبی شہر‘، ’تاریخ اندلس‘، ’نسخہ بھوپال اور نسخہ بھوپال ثانی‘ جیسی کتابیں لکھ کر اُردو ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔
یکم نومبر 1930 کو بہار کے دسنہ میں پیدا ہوئے اور آرہ اسکول شاہ آباد (بہار) میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے والے عبدالقوی دسنوی کی شخصیت اور ان کی اردو ادب نوازی حالانکہ ان کے ہم عصروں سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اُردو عوام میں بھی ان کی خوبیوں کو عام کیا جائے۔ معروف نقاد پدم بھوشن پروفیسر گوپی چند نارنگ نے ان کے بارے میں ’کتاب نما‘ کے عبدالقوی دسنوی نمبر میں لکھا ہے کہ ’’پروفیسر عبدالقوی دسنوی فرشتہ صفت انسان تھے۔ مجسم نیکی، شرافت اور انسانیت۔ ... وہ فنا فی الادب شخصیت تھے۔ سوائے لکھنے، پڑھنے اور اردو کی خدمت کے انھیں کسی سے سروکار نہ تھا۔ اب تو وہ سانچہ ہی ٹوٹ گیا جس میں ایسی بے لوث، بے ریا اور ملنسار شخصیتیں ڈھلا کرتی تھیں۔ ان کے کئی شاگرد آج کے ادبی منظرنامے پر نامور حیثیت رکھتے ہیں۔ ‘‘ اس قدر خوبیاں رکھنے والی شخصیت کو یاد کرنا صرف ’گوگل‘ کا کام نہیں ہے۔ اُردو تنظیموں اور اداروں کو بھی اس جانب غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سیمینار، ورکشاپ اور مذاکرے کے لیے صرف وہی ہستیاں رجسٹرڈ نہیں جن پر پہلے ہی کئی سیمینار، ورکشاپ اور مذاکرے ہو چکے ہیں۔
عبدالقوی دسنوی نے اُردو ادب کو فروغ دینے کے لیے صرف تصنیفات پر توجہ نہیں دی بلکہ انھوں نے اپنے شاگردوں کو اُردو سے محبت کرنے والا اور اُردو کی ترویج و ترقی میں محنت کرنے والا بھی بنایا۔ انھوں نے یہ ثابت کیا کہ ایک شفیق استاد کس طرح اپنے شاگردوں کو محنت کش اور اُردو سے محبت کرنے والا بناتا ہے۔ ان کی شفقت کا اندازہ ان کے ہی شاگرد پروفیسر خالد محمود کی اس تحریر سے بھی ہوتا ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ ’’آپ بات کیجیے اگر آپ چھوٹے ہیں، طالب علم ہیں تو ’عزیزم‘ کی پرخلوص آواز سننے کے لیے تیار ہو جائیے، خصوصاً اگر آپ نے کوئی ایسی بات کہہ دی ہے جس سے قوی صاحب متفق نہیں ہیں تو مسکرا کر ’عزیزم‘ ضرور کہیں گے۔ اگر آپ کی بات پر صرف مسکرا دیں اور عزیزم نہ کہیں تو انھیں اپنی بات سے متفق ہی سمجھیے۔ عزیزم کہہ دیں تو اب آپ ان سے متفق ہونے کا ذہن بنا لیجیے کیونکہ ان کا استدلال آپ کو اتفاق رائے پر مجبور کر دے گا۔‘‘ (’کتاب نما‘، ستمبر 2011، صفحہ 8)
عبدالقوی کی اُردو نوازی، اُردو سے عشق اور اُردو کے لیے کیے گئے کارناموں کو دیکھا جائے تو وہ آسمانِ ادب کے درخشاں ستارہ ہیں۔ ان کی کاوشیں کبھی فراموش نہیں کی جا سکتیں، لیکن اُن کی یاد میں تقاریب کا انعقاد بھی ضروری ہے۔ اس سے اُردو ادب سے محبت رکھنے والے طلبا کو حوصلہ بھی ملے گا اور ان کو عبدالقوی دسنوی کے ذریعہ کی گئی جدوجہد کا پتہ بھی چلے گا۔ عبدالقوی کے کارناموں کا تذکرہ کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبۂ اُردو سے منسلک ڈاکٹر شہزاد انجم نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ ’’عبدالقوی دسنوی اُردو کے مایہ ناز استاد اور ابوالکلام شناس تھے۔ اردو ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے انھوں نے صرف تصنیف و تالیفی کام انجام نہیں دیے بلکہ پروفیسر خالد محمود اور پروفیسر نعمان خان جیسے شاگردوں کا گروہ تیار کیا جو ان کے کام کو آگے بڑھا رہے ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ایک زمانے میں جب سرونج میں اردو ترقی کر رہی تھی اور جب سیفیہ کالج میں اردو شعبہ قائم ہوا تھا تو عبدالقوی دسنوی نے اس علاقے میں اُردو کے فروغ کے لیے جہد مسلسل کی تھی۔‘‘
یہ بھی پڑھیں... اوکھلا: ایک جنگل کے سجنے سنورنے کی داستان
ہمیں آج بھی اُردو کے لیے جہد مسلسل کرنے والے جنونی اور محب اردو کی ضرورت ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ اُردو ادب گروہ بندی اور علاقہ بندی کے مرض میں مبتلا ہے۔ بہار کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ دسنہ میں پیدا ہونے والے عبدالقوی دسنوی کا بھوپال والوں نے اغوا کر لیا، لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ وہ بہار یا ہندوستان کے نہیں بلکہ دنیائے اُردو سے محبت رکھتے تھے۔ انھوں نے زیادہ وقت بھوپال میں گزارا اور بھوپال سے متعلق بہت کچھ لکھا اس کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ ان کا رشتہ صرف وہیں سے تھا۔ ونوبا بھاوے یونیورسٹی (جھارکھنڈ) میں شعبۂ اُردو سے منسلک ڈاکٹر ہمایوں اشرف نے بہت درست فرمایا ہے کہ ’’عبدالقوی دسنوی نے اُردو کے لیے جو کچھ کیا ہمیں اس کے بارے میں بحث کرنی چاہیے نہ کہ اس بارے میں کہ وہ دسنہ میں زیادہ رہے یا بھوپال میں۔‘‘
7جولائی 2011 کو اس دارفانی کو الوداع کہنے والے اور شبلی انعام، امتیازِ میر، نواب صدیق حسن خاں ایوارڈ، پرویز شاہدی ایوارڈ جیسے اعزازات سے سرفراز عبدالقوی دسنوی نے 25 سے زائد کتابیں تصنیف دیں اور کم و بیش 25 ترتیب و تدوین اور اشاریے پر مبنی کتابیں منظر عام پر آئیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں مضامین مشہور و مقبول رسائل و جرائد میں شائع ہوئیں۔ انھوں نے اُردو ادب کے لیے اپنی پوری زندگی لگا دی، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اُردو والے عبدالقوی دسنوی کی کاوشوں و کارناموں کا احترام کرتے ہوئے فراموشی کا رویہ چھوڑ کر مثبت راہ اختیار کریں اور گوگل سے سبق حاصل کریں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 01 Nov 2017, 6:15 PM