اسرار جامعی: چلتے پھرتے پرچی تقسیم کرنے والا شاعر خاموش ہو گیا!

اسرار جامعی نے کبھی شادی نہیں کی، اور تا عمر شعر و ادب کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ قطعہ گوئی ان کی پہچان تھی، لیکن طنز و مزاح پر مبنی نظمیں بھی ادبی حلقوں میں ان کی شہرت کا سبب بنیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آفتاب احمد منیری

ان دنوں میں جامعہ میں نیا نیا وارد ہوا تھا اور یہاں ہونے والی علمی و ادبی سرگرمیوں میں اپنی شرکت ضروری خیال کرتا تھا۔ وہ ایسی ہی ایک ادبی محفل تھی جس میں میں نے پہلی بار اسرار جامعی کو دیکھا (جنھیں آج مرحوم لکھتے ہوئے کچھ اچھا محسوس نہیں ہو رہا۔ 4 اپریل کی علی الصبح محترم نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون)۔ ایک باریش بزرگ، جن کے سر پر مخملی ٹوپی سجی تھی اور کاندھے پر کپڑے کا تھیلا لٹک رہا تھا۔ تیزی کے ساتھ پروگرام ہال میں داخل ہوئے۔ انھیں دیکھتے ہی طلبا نے ان کے لیے نشست خالی کر دی، اور وہ نہایت اطمینان کے ساتھ اس پر بیٹھ گئے۔ چند ساعتوں کے بعد ہی میں نے ان صاحب کو پروگرام ہال میں موجود لوگوں کے درمیان پرچیاں تقسیم کرتے دیکھا۔ میں نے بصد اشتیاق اپنے ایک ساتھی سے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ جواب ملا- یہ طنز و مزاح کے مشہور شاعر اسرار جامعی ہیں۔ تھوڑی دیر بعد انھیں ڈائس پر بلایا گیا اور وہ اپنے مخصوص انداز میں ان اشعار کے ساتھ طلبا سے مخاطب ہوئے:

بس ڈاکٹر ہی ڈاکٹر آئے وہاں نظر

اردو ڈپارٹمنٹ بڑا باکمال ہے

حیرت سے سب کو دیکھ کے اسرار نے کہا

یہ اردو کا ہی شعبہ ہے یا اسپتال ہے


انھوں نے یہ اشعار کہے اور محفل قہقہہ زار بن گئی۔ اسرار جامعی سے یہ پہلی ملاقات مجھے مبہوت کر گئی۔ ایک ایسے دور میں جب تکلف اور تصنع شاعروں کی پہچان بن گئی ہے، ایسے درویش صفت شاعر کی موجودگی نے مجھے حیران کن مسرت عطا کی۔ اور پھر میں نے اس پراسرار شاعر کی تلاش شروع کر دی۔ کافی تلاش بسیار کے بعد جامعہ کی ڈاکٹر ذاکر حسین لائبریری میں ان کا طنز و مزاحیہ اشعار پر مبنی شعری مجموعہ ہاتھ لگا۔ اسے پڑھ کر میں مزید حیرت زدہ ہوا۔ یہ کتاب جامعہ کے معماروں میں سے ایک شیخ الجامعہ ڈاکٹر ذاکر حسین کے نام معنون کی گئی تھی، جنھوں نے کبھی اسرار جامعی سے یہ کہا تھا:

"آپ کا نام ایسا ہونا چاہیے جیسے دوسرے اخباروں اور کتابوں میں سنہری حروف میں لکھا کریں، نہ کہ آپ خود اسے فرشوں اور دیواروں پر لکھیں۔"

اس شعری مجموعے کی فہرست کو اسرار جامعی نے 'کھل جا سم سم' کے عنوان سے بند کیا تھا۔ کتاب میں معروف ترقی پسند ناقد محمد حسن کا وہ مضمون بھی شامل ہے جس میں اسرار جامعی کے شعری امتیازات کا اعتراف ان الفاظ کے ساتھ کیا گیا ہے:


"اسرار جامعی کے یہاں طنز و مزاح کا تانا بانا فکر و احساس کی تازہ کاری سے بُنا جاتا ہے۔"

بعد ازاں میری نظر سے معروف ٹی وی اینکر تحسین منور کی وہ تحریر گزری جس میں اسرار جامعی کی جرات آمیز طنزیہ شاعری کو سلام پیش کرتے ہوئے ماضی کے دریچے سے ایک واقعہ قلم بند کیا گیا ہے جس کے مطابق ٹاڈا کا قانون پاس ہوا تھا اور اس وقت کے وزیر داخلہ کے سامنے اقلیت مخالف و متعصب اس قانون کے خلاف اسرار جامعی نے ایک طنزیہ نظم سنائی۔ اس کے بعد وزیر داخلہ کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ٹاڈا کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔

ہندوستانی سیاست میں کثرت سے استعمال کیے جانے والے وہ الفاظ جن کا نفاذ کبھی عمل میں نہ آ سکا، اس کے حوالے سے بھی یہ قلندر صفت شاعر خائف رہتا تھا۔ ان کا یہ مشہور قطعہ اب تو زبان زد خاص و عام ہو چکا ہے:

کیا پتے کی بات کہہ دی جامعی اسرار نے

کیوں ادا کرنا پڑا ہے اس کا کفارہ ہمیں

بھائی چارے کا یہ مطلب اب نہ ہونا چاہیے

ہم تو ان کو بھائی سمجھیں اور وہ چارہ ہمیں


اسرار جامعی نے کبھی شادی نہیں کی، اور تا عمر شعر و ادب کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ قطعات کے علاوہ ان کی طنز و مزاح پر مبنی نظمیں بھی ادبی حلقوں میں ان کی غیر معمولی شہرت کا سبب بنیں۔ اسرار جامعی کی مشہور نظموں میں دلی درشن، چچے کی دعا، لیڈر کی دعا، شاعر اعظم اور غزل پیمائی قابل ذکر ہیں۔ ان میں ایک مشہور نظم 'شاعر اعظم' ہے جس میں شاعری کے گرتے معیار پر طنز کیا گیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:

خبط مجھ کو شاعری کا جب ہوا

دس منٹ میں ساٹھ غزلیں کہہ گیا

سب سے رو رو کر کہا سن لو غزل

تاکہ میں ہو جاؤں پھر سے نارمل

نام ہے اسرار میرا محترم

ساری دنیا جانتی ہے بیش و کم

شاعر اعظم ہوں میں عزت مآب

وہ یہ بولے میں تو بہرا ہوں جناب


اردو کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں اکبر الٰہ آبادی اور ساغر خیامی جیسے شعرا کی روایت کے امین اسرار جامعی کی داخلی زندگی نہایت کسم پرسی کے عالم میں گزری۔ سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد کے ہاتھوں کم عمری میں ہی ادبی ایوارڈ حاصل کر چکے اس قلندر صفت شاعر کی ایسی قابل رحم حالت میں وفات تمام ادب نواز تنظیموں اور اداروں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ وہ سالہا سال سے معاشی مشکلات، تنہائی اور بے سر و سامانی کے عالم میں اس جامعہ نگر کے علاقے میں خاموشی کے ساتھ زندگی کا سفر طے کرتے رہے جہاں بڑی بڑی ادب نواز شخصیتیں جلوہ افروز ہیں۔ اب جب کہ اردو طنز و مزاح کا یہ نمائندہ شاعر ہمارے درمیان نہیں رہا تو حسب روایت ان کے نام پر تعزیتی مجالس کا بازار گرم ہوگا اور ان کی شعری و ادبی خدمات کے قصیدے گائے جائیں گے، اس لیے کہ ہم ایک مردہ پرست قوم ہیں۔

آج ان کی یاد شدت سے آ رہی ہے اور آنکھوں کے سامنے وہ تمام مناظر گشت کر رہے ہیں جب جب اس درویش صفت شاعر سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ان میں سے ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے یہ روداد سخن تمام کرتا ہوں...


جامعہ اسکول کے احاطہ میں وہ اچانک سامنے سے آتے دکھائی دیئے۔ میں نے لپک کر انھیں سلام کیا اور انھوں نے مجھ سے مصافحہ کرتے ہوئے ایک سوال داغ دیا۔ جامعہ کا بانی کون ہے؟ میں نے جواباً عرض کیا- جامعہ کے بانیان تو کئی ہیں۔ انھوں نے فوراً کہا غلط! جامعہ کے بانی مولانا محمد علی جوہر تھے۔ اور یہ کہتے ہوئے مجھے ایک پرچی تھما دی۔ میں حیرت و استعجاب کے عالم میں اس پرچی میں تحریر یہ قطعہ پڑھنے لگا:

ہماری جامعہ ملیہ کا بانی تھا وہی جوہر

وطن پہ مرنے والوں میں جو سب سے محترم نکلا

نہ آیا لوٹ کر واپس غلامی کی فضاؤں میں

لحد ہے مسجد اقصیٰ میں گو لندن میں دم نکلا

(مضمون نگار جامعہ سینئر سیکنڈری اسکول، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اردو زبان و ادب کے استاذ ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Apr 2020, 7:40 PM