نازک انسانی احساسات کا شاعر، ہارون شامی

ہارون شامی گرد و پیش کے حالات پر نظر رکھتے ہوئے انسانی احساسات کی شاعری کرتے ہیں۔ ان کی شاعری ماضی کے پس منظر میں مستقبل کا منظر نامہ ترتیب دیتی ہے

<div class="paragraphs"><p>ہارون شامی </p></div>

ہارون شامی

user

جمال عباس فہمی

اکیسویں صدی کے شعرا کی اچھی خاصی تعداد ایسی ہے جن کی شاعری عصری مسائل، انسان کی ذہنی کشمکش اور حسیت سے عبارت ہے۔ یہ شعرا محض تفنن طبع یا تسکین قلب کے لئے شعر نہیں کہتے بلکہ معاشرے میں اخلاقی اقدار کے بکھراؤ کو روکنے کی تدابیر سے بھی سروکار رکھتے ہیں۔ ایسے ہی شعرا کی صف میں ایک نمایاں نام ہارون شامی کا بھی ہے۔ ہارون شامی گرد و پیش کے حالات پر نظر رکھتے ہوئے انسانی احساسات کی شاعری کرتے ہیں۔ ان کی شاعری ماضی کے پس منظر میں مستقبل کا منظر نامہ ترتیب دیتی ہے۔ ان کی شاعری میں گزشتہ اور آئندہ کے تہزیبی، معاشی، اخلاقی اور سیاسی ٹکراؤ کی سنسناہٹ محسوس ہوتی ہے۔ ان کی شعری جمالیات اپنے تمام تر حسن کے ساتھ ان کے اشعار میں موجزن نظر آتی ہے۔ وہ معاشرے میں ہر سطح پر موجود استحصال کے خلاف آواز بھی اٹھاتے ہیں اور لوگوں کو گھٹن کی فضا سے آزادی بھی دلانا چاہتے ہیں۔ ہارون شامی کے کلام کے تین مجموعے 'شرح آرزو'، 'عکس' اور 'بازگشت' منظر عام پر آ چکے ہیں، جنہیں مداحوں کی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ہارون شامی کی شاعری کی حسن کاریوں پر کوئی بات کرنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ انکے خاندانی پس منظر اور تعلیمی اور ادبی سفر پر ایک نظر ڈال لی جائے۔

ہارون شامی کا حقیقی نام محمد ہارون صدیقی ہے۔ وہ اتر پردیش کے ضلع دیوریا میں 1949 کے پہلے مہینے کی پہلی تاریخ کو اس عالم اضداد میں پیدا ہوئے۔ وہ پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں اور ان سے چھوٹی تین بہنیں ہیں۔ والد شیخ شفاعت حسین علاقے کے با اثر زمیں دار تھے۔ ہارون نے انٹر تک کی تعلیم دیوریا میں ہی حاصل کی۔ انہوں نے گورکھپور کے مدن موہن انجینئرنگ کالج سے 1973 میں انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ 1976 میں یو پی پاور کارپوریشن میں ملازمت اختیار کی اور ایگزیکیوٹیو انجینئر کے عہدے سے حسن خدمت کے تمغے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔ ہارون شامی خوش نصیب ہیں کہ اپنے والد کے اعلی ادبی ذوق کی وجہ سے انہیں بچپن سے ادبی ماحول نصیب ہوا۔ ان کے والد کو اردو اور فارسی پر دسترس حاصل تھی۔ سعدی، رومی، اقبال اور غالب کے سیکڑوں اشعار انہیں ازبر تھے۔ تصوف کی جانب انکی طبیعت مائل تھی تو کبھی کبھی صوفیانہ شاعری کر لیا کرتے تھے۔ جب ایک ایسے بازوق باپ کا مشفقانہ سایہ کسی جوان کو میسر آئے تو اس کا شاعری کی جانب رجحان ہونا فطرتاً لازمی ہے۔ یہی ہارون کے ساتھ ہوا۔ ان کے اندر شعر گوئی کی صلاحیت والد کے سائے میں ہی پروان چڑھی۔ انہوں نے پہلا شعر اور پہلی غزل 1970 میں کہی۔ جو ابھی تک ان کے حافظے میں تازہ ہے۔ اس غزل کے دو اشعار یہ ہیں۔

آہ کیا ہم نے محبت کی سزا پائی ہے

ہجر منظور نہیں ملنے میں رسوائی ہے

۔۔

تم تو کہتے تھے بجز وہم خدا کچھ بھی نہیں

آج کیا بات ہے کیوں یاد خدا آئی ہے

۔۔


ہارون کو اپنے فن شعر گوئی کو سیقل کرنے کا موقع گورکھپور میں ملا جہاں وہ انجینئرنگ کی پڑھائی کر رہے تھے۔ ہارون کو معروف شاعر ایم کوٹھیاوی راہی کی رہنمائی میں شعر گوئی کی نوک پلک سنوارنے کا موقع میسر آیا۔ جب تک ہارون گورکھپور میں رہے انہیں کوٹھیاوی راہی کی اصلاح کا فیض حاصل رہا۔ ضلع بستی میں ٹرانسفر ہونے کے بعد انکی ملاقات اختر بستوی سے ہو ئی جو کچھ ہی عرصہ میں گہری دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ اختر بستوی علامہ اقبال کے عاشق نہیں بلکہ مرید ہیں۔ اسی لئے شاعری میں نظمیں زیادہ کہتے تھے اور غزلیں بہت کم ۔ہارون شامی پہلے 'سرشار' تخلص کے ساتھ شاعری کرتے تھے لیکن انکو ہارون سرشار سے ہارون شامی بنانے میں اختر بستوی کا بہت بڑا کردار ہے۔ ہارون شامی کے جد امجد شیخ رحیم خواجہ اسحاق شامی چشتی کے سلسلے کے بزرگ تھے۔ جو شام سے تبلیغ دین کی خاطر ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے۔ اختر بستوی کے مشورے پر ہارون نے اسی مناسبت سے تخلص شامی اپنا لیا۔ دوستی دوستی میں ہارون نے اختر بستوی سے بہت کچھ سیکھا۔ ہارون شامی کو نظمیں کہنے کا شوق اختر بستوی کی وجہ سے لگا۔

ہارون شامی سائنس کے طالب علم رہے اور پیشے کے اعتبار سے انجینئر ۔ بظاہر شاعری اور انجینئرنگ کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں ہے لیکن ہارون شامی کی زندگی میں کب انجینئرنگ کی کھردراہٹ ادب کی لطافت میں ضم ہو گئی پتہ ہی نہیں چلا۔

1982 میں جب انکا پہلا شعری مجموعہ 'شرح آرزو' منظر عام پر آیا تو اس نے نہ صرف بازوق قارئین کی توجہ حاصل کی بلکہ خمار بارہ بنکوی، پروفیسر ملک زادہ منظور احمد، ڈاکٹر بشیر بدر، بیکل اتساہی اور راہی شہابی جیسے اس وقت کے مشاہیر شعرا نے انکی شاعرانہ فنکاری کو داد و تحسین سے نوازا۔

اردو کے معروف ناقد اور محقق پروفیسر شارب ردولوی کا شامی کی شاعری پر کہنا ہے کہ ’’انکی شاعری میں مجھے جدید زمانہ بولتا ہوا سنائی دیتا ہے۔ انہوں نے غزل کو ہنگامہ خیزی کے عہد میں بھی علامتوں اور بے ضرورت تشبیہوں اور استعاروں کے استعمال سے محفوظ رکھا۔ ان کے یہاں سادگی میں جو خلوص کی خوشبو ہے وہ متاثر کن ہے۔‘‘

ہارون شامی کی شاعری کے محاسن پر لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر اور کہنہ مشق شاعر پروفیسر عباس رضا نیر کی رائے بھی بہت اہم ہے، ’’ہارون شامی کی امتیازی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک ہی خیال کو متعدد رنگوں میں نظم کرنے کا ہنر بھی رکھتے ہیں۔ وہ ایک ہی فکر کو مختلف زاویوں سے ٹٹولتے ہیں اور ہر زاویہ کی اصل شناخت کو اظہار کے مختلف لباس عطا کرتے ہیں جو موضوعاتی یک رنگی کے باوجود لطافت کی نیرنگی کا مزہ دیتا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شامی کو اظہار بیان پر پوری قوت حاصل ہے اور وہ ایک ہی تصویر کو طرح طرح کے رنگوں میں پیش کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔‘‘


ہارون شامی کی شاعری میں حسن و جمال اور فکر و خیال کی پوری دنیا موجود ہے۔انکی شاعری کلاسیکیت کے ساتھ جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگی کا بہترین امتزاج ہے۔ وہ لفظوں کو بہت سلیقے سے برتتے ہیں۔

اس قبیل کے کچھ اشعار ملاحظہ کیجئے۔

چمک اٹھے شب تیرہ میں برق کی صورت

وہ روشنی ہے کہاں آج خوش جمالوں میں

۔۔۔۔۔۔۔۔

یقیں کم ہے بہت کم گماں زیادہ ہے

کہ روشنی ہے بہت کم دھواں زیادہ ہے

۔۔۔۔

جانے کیا شے ہے جو موجود نہیں ہے لیکن

ڈھونڈتا رہتا ہوں میں جس کو گماں سے آگے

۔۔۔۔

چراغ شب تھا کہ وہ ماہتاب تھا کیا تھا

وہ اک خیال تھا یا کوئی خواب تھا کیا تھا

۔۔۔۔۔

آسمانوں پر نئی دنیا کوئی آباد کر

یہ تری دنیا نہیں ہے یہ جگہ کچھ اور ہے

۔۔۔۔۔

ہارون شامی کو پامال مضامین میں جدت پیدا کرنے کا ہنر بھی خوب آتا ہے۔ محبوب کو یاد کرنا اور اسے بھلانے کی کوشش بہت گھسا پٹا مضمون ہے لیکن شامی نے اس کو اس انداز سے باندھا ہے کہ اس مضمون میں تازگی پیدا ہو گئی۔ کہتے ہیں۔

تجھے بھلانے کی کوشش میں خود کو بھول گیا

یہی سزا ہے مری تجھ سے دل لگانے کی

۔۔۔۔۔۔

دل سے تمہاری یاد نکلتی نہیں مرے

الجھی ہوئی ہے پاؤں میں زنجیر کی طرح

ہارون شامی کے یہاں عشق کے جذبات کا بیان قدرے جداگانہ انداز میں نظر آتا ہے۔

تجھ کو کھو کر بھی کبھی تجھ سے جدا ہو نہ سکا

آج بھی دل میں وہی سوز نہاں ہے کہ جو تھا

۔۔۔۔

میں اپنے آپ سے کچھ دور ہوتا جا رہا ہوں

تری باتوں کا شاید کچھ اثر ہونے لگا ہے۔


'خواب' ہارون شامی کا پسندیدہ موضوع ہے۔ اس موضوع پر انکے یہاں مختلف نوع کے اشعار موجود ہیں۔ اسی خواب کے حوالے سے وہ ایک ایسی دنیا کو وجود پذیر ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں جہاں ہر شخص ہنستا مسکراتا نظر آئے۔

دنیا میں ہر کوئی مجھے ہنستا ہوا ملے

ممکن نہیں اگرچہ یہی میرا خواب تھا

خواب کا ایک یہ پہلو بھی خوب ہے۔

مدت ہوئی نکلے ہوئے خوابوں کے سفر میں

اب دیکھیے کب آتا ہوں میں لوٹ کے گھر میں

۔۔

ہارون شامی گہری سیاسی بصیرت بھی رکھتے ہیں اور سیاسی شعبدہ بازیوں پر طنز کرنے کی جرات بھی۔

شامی یہ اک فریب حقیقت نہیں تو کیا

ہر حکمران وقت کو عادل کہا گیا۔

چراغ کیسے جلیں گے ہوا مخالف ہے

امیر شہر کی ہر ہر ادا مخالف ہے

۔۔

کیسے کہیں کہ کون ستم گر ہے دوستو

تالے لگے ہوئے ہیں ہماری زبان پر

یہاں خیال کے اظہار پر ہے پابندی

مرے خیال کو لفظوں کی خامشی دیدے۔

ہارون شامی نفرت سے نفرت اور یکجہتی اور اخوت کے حامی ہیں۔

نفرتوں کی اس قدر بارش ہوئی

بہ گیا سب کچھ مرا سیلاب میں

دلوں میں بھر گیا ہے زہر آتش نفرت

ہر ایک شخص کسی اور کا مخالف ہے۔

سادہ اور پر اثر طریقے سے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ انسانی جذبات اور احساسات کی شاعری کرنے والے ہارون شامی کے کلام کے کچھ اور مجموعے زیر ترتیب ہیں۔ شعر و سخن کے شوقینوں کو انکا بے صبری سے انتظار ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔