معمولی تعلیمی لیاقت والا بڑا قلمکار- رئیس حسین نقوی
رئیس حسین نقوی کا اوڑھنا بچھونا اردو ہے۔ اردو ادب کی بے لوث خدمت کرنے والوں کی اگر فہرست مرتب کی جائے تو رئیس حسین نقوی کا نام نامی اس میں ضرور شامل ہوگا
علم و ادب کے گہوارے لکھنؤ میں وکٹوریا اسٹریٹ پر ناظم صاحب کے امام باڑے کے پاس چھتے والی گلی کے نکڑ پر گھڑیوں کی ایک چھوٹی سی دوکان ہے۔ گھڑیوں کی مرمت کی معمولی سی نظر آنے والی یہ دوکان لکھنؤ میں اردو علم و ادب کا مرکز ہوا کرتی تھی۔ اکبر حیدر کشمیری، ملک زادہ منظور احمد، کاظم علی خاں، ضیا عظیم آبادی اور خان محبوب طرزی جیسے اپنے دور کے بڑے بڑے صاحبان قلم اس چھوٹی سی دوکان پر آ کر بیٹھتے تھے۔ اس دوکان پر ادب کے دقیق موضوعات پر بحث و مباحثے ہوا کرتے تھے۔ صاحبان قلم اس دوکان پر بیٹھ کر علمی اور ادبی معلومات سے فیض یاب ہوا کرتے تھے۔ قارئین کا یہ سوال جائز ہے کہ آخر یہ دوکان کس کی ہے۔ اس دوکان پر آخر کون سی ایسی ہستی موجود رہتی تھی جس کے بحر علم سے غواصان ادب فیض یاب ہوتے تھے۔ تو جناب اس کا جواب یہ کہ گھڑیوں کی مرمت کی یہ معمولی سی دوکان رئیس حسین نقوی کی ہے۔ رئیس نقوی لکھنؤ کے ان باقی ماندہ چند ادبی سرمایہ داروں میں شامل جنہوں نے اپنی پوری زندگی اردو علم و ادب کی خدمت میں گزار دی۔
اردو ادب میں ایسے قلمکار کم ہی نظر آتے ہیں جن کی تعلیمی لیاقت تو کم ہے لیکن انکے قدر دانوں میں اردو ادب کی بڑی بڑی عظیم شخصیات شامل رہی ہیں۔۔۔لکھنؤ کے رئیس حسین نقوی ایک ایسے ہی قلمکار ہیں جو نصابی تعلیم تو کم ہی حاصل کر سکے لیکن اکتسابی تعلیم اتنی حاصل کی کہ اعلیٰ نصابی تعلیم حاصل کرنے والے اردو کے بڑے بڑے ادیبوں نے ان سے کسب فیض کیا ہے۔
شعرا ان سے مشورہ سخن کرتے ہیں ۔ جون ایلیا جب آخری مرتبہ لکھنؤ آئے تھے تو رئیس نقوی سے ملاقات کرنے کے لئے انکی دوکان پر پہونچے تھے۔ یاد گار کے طور پر رئیس نقوی کی ڈائری میں اپنے دستخط کے ساتھ یہ شعر لکھ گئے تھے۔
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں اردو ادب پڑھانے والی ایمی بارڈ بھی کئی مرتبہ رئیس نقوی سے کسب فیض کی خاطر لکھنؤ آ چکی ہیں۔ انہوں نے میر انیس پر اپنی تحقیق کے سلسلے میں رئیس نقوی سے کافی مدد حاصل کی تھی۔
رئیس حسین نقوی کا اوڑھنا بچھونا اردو ہے۔ اردو ادب کی بے لوث خدمت کرنے والوں کی اگر فہرست مرتب کی جائے تو رئیس حسین نقوی کا نام نامی اس میں ضرور شامل ہوگا۔ رئیس حسین نقوی اردو کی اتنی ادبی استعداد رکھتے ہیں کہ ان کے تحریر کردہ تحقیقی مقالوں کی بنیاد پر اردو کے کئی اسکالرز ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں۔ ملک اور بیرون ملک کے موقر ادبی رسائل و جرائد میں انکے مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے شائع شدہ مضامین کا مجموعہ 'مضامین رئیس' کے نام سے منظر عام پر آ چکا ہے۔ رئیس حسین نقوی کی ادبی خدمات پر تفصیل سے گفتگو کرنے سے پہلے انکے خاندانی پس منظر کے بارے میں بات کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
رئیس حسین کے اجداد کا تعلق علم و ادب کی بستی نصیر آباد سے ہے۔ ہائی اسکول کی سند کے مطابق انکا سن پیدائش1946 ہے لیکن رئیس حسین کا کہنا ہے کہ اس دار فانی میں انکی آمد سن 1942 میں ہوئی تھی۔ ان کے والد تجارت پیشہ تھے۔ کثیر العیال تھے۔ گھر کے مالی حالات اچھے نہیں تھے اسی لئے رئیس حسین دسویں جماعت سے آگے تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ رئیس حسین کو بچپن سے ہی گھر میں خالص ادبی ماحول نصیب ہوا۔ انکے گھر میں اردو کی قدیم اور دیو مالائی داستانیں پڑھنے اور پڑھ کر سنانے کا شوق سب کو تھا۔ رئیس حسین کی ماں داستان گوئی کے فن میں طاق تھیں۔ رئیس حسین نے اپنی ماں سے 'طلسم ہوش ربا' جیسی درجنوں داستانیں سنی تھیں۔ انہوں نے جب ہوش سنبھالا تو گھر میں آنے والے ادبی رسالوں 'پھلواری'، 'تحفہ'، 'کھلونا' اور جاسوسی دنیا اور رومانوی ادب پڑھنے کا چسکہ لگ گیا۔ شعرو شاعری کا شوق اپنے بڑے بھائی سید نواب حسین تابش کی وجہ سے بیدار ہوا۔ وہ شاعر تھے اور تقن صاحب پیکاں لکھنوی کے عزیز شاگردوں میں شامل تھے۔
جب تک بصارت نے ساتھ دیا رئیس نقوی کو اردو کی کتابیں پڑھنے کا شوق نہیں بلکہ جنون رہتا تھا۔ انہوں نے ہزاروں داستانوں، جاسوسی اور رومانی ناولوں ، افسانوں اور شعری مجموعات کا مطالعہ کیا ہے۔ وہ 'طلسم ہوش ربا' کی سات جلدوں کو پڑھ چکے ہیں۔ 'داستان امیر حمزہ' کی شاید ہی کوئی جلد ہوگی جو انکے مطالعہ سے بچ گئی ہوگی۔ منٹو کے افسانے توا نہیں ازبر ہیں۔ داد ان کے حافظہ کی بھی دینی ہوگی کہ انہوں بچپن سے لیکر جوانی اور جوانی سے لے کر آنکھیں کمزور ہونے تک جتنی بھی داستانیں پڑھی ہیں انکے کردار اور انکے پلاٹ آج تک انکے ذہن میں محفوظ ہیں۔ ناولوں کے معاملے میں وہ خان محبوب طرزی کے عاشق ہیں۔
طرزی اردو کے پہلے ایسے فکشن نگار ہیں جنہوں نے سائنس و ٹکناجی کواپنی تحریروں میں استعمال کیا۔ طرزی نے تاریخی واقعات پر مبنی 'قمر طلعت' سماجی معاملات پر 'آزمائش' رومانی موضوع پر'گلنار' اور 'لیلیٰ کی کتیا' جیسا طنزیہ اور مزاحیہ ناول بھی لکھے۔طرزی نے 'سفر زہرا'، 'اڑن طشتری'، 'فولادی پتلے'، 'طلسم حیات' 'رہبر اعظم'،'عالم امکاں' اور 'مہر افروز' جیسے سائنسی اور 'دولت کے کھیل' اور 'فریدہ' جیسے جاسوسی ناول لکھ کرسن انیس سو پچاس کی دہائی میں تہلکہ مچا دیا تھا۔
رئیس نقوی نے ادب کی مختلف صنفوں کا اتنا مطالعہ کیا کہ خود بھی مضامین لکھنے لگے۔معاشی نا آسودگی کے باعث انہوں نے دوسروں کے لئے لکھنے کا بھی کام کیا۔اتنا انہوں نے اپنے نام سے نہیں لکھا جتنا دوسروں کے لئے لکھا ہے۔ رئیس حسین کو ننیہال بھی ادبی طور سے بہت مالا مال میسر ہوئی۔
معروف افسانہ نگارمسرور جہاں انکی بھانجی اور معروف ترجمہ نگار اور فکشن تنقید نگار وقار ناصری ان کے بھانجے تھے۔ وقار ناصری نے مختلف زبانوں کے ادبی سرمایہ کو اردو میں منتقل کرنے کا کارنامہ بھی انجام دیا ہے ۔ انہوں نے مہا شویتا دیوی کے معروف بنگالی ناول 'ہزار چوراسی کی ماں، اور 'شہزادہ دارا شکوہ' کو اردو میں منتقل کیا ہے۔ انہوں نے قرۃ العین کے ناولوں 'آگ کا دریا' اور 'آخری شب کے ہمسفر' مرزا اطہر بیگ کے 'گلال باغ' اور 'دریچے'، 'خزاں کے دنوں میں' جیسے ناولوں پر تنقیدی مضامین لکھے ہیں۔وقار ناصری نے برسا منڈا پر لکھی کتاب 'جنگل کے دیودار' اور وبھوتی نارائن کی 'شہر میں کرفیو' جیسی کتابوں کو بھی اردو قالب عطا کیا ہے۔
رئیس نقوی اردو ادب کی معلومات کا چلتا پھرتا خزانہ ہیں۔جہاں تک انکے طرز نگارش کا معاملہ ہے تو انکی تحریروں میں لکھنؤ کی ٹکسالی زبان کا مزہ ہے۔بیان اور اظہار پر وہ پوری گرفت رکھتے ہیں۔انکی فلکشن پسندی کی چھاپ انکے مضامین میں جا بجا نظر آتی ہے۔انکے مضامین میں فکشن نگاری کے تمام تر لوازمات موجود ہیں۔انکے انداز تحریر کی خوبی یہ ہیکہ وہ سناتے کم اور دکھاتے زیادہ ہیں۔ وہ کسی خیال کو یونہی براہ راست پیش نہیں کردیتے بلکہ اسکے لئے پس منظر کی مدد سے زمینہ ہموار کرتے ہیں۔
'لکھنؤ کی ادبی روایت' مضمون کا یہ اقتباس دیکھئے اور انکی زبان و بیان کے ساتھ ساتھ موضوع کی مناسبت سے انکے ذخیرہ معلومات کی داد دیجئے۔
''لکھنؤ کو جب نواب آصف الدولہ بہادر نے بسایا تو وہ اپنے ساتھ فیض آباد سے ادبی، لسانی،تہزیبی، تمدنی اور ثقافتی وراثت لیکر آئے تھے۔ ورنہ اس سے پہلے یہاں نہ میر کے آنسؤوں نے درد و غم جمع کئے تھے نہ ان آنسؤوں نےنغمہائے غم کی شکل اختیار کی تھی۔ نہ سودا کی بالیں پہ شور قیامت اٹھا تھا نہ جرت کی شاعری کے حوالے سے انکی چوما چاٹی پر کسی نے تیکھی تنقید کی تھی۔ نہ کسی ضاحک سے سودا کی چشمک اس حد تک بڑھی تھی کہ وہ اسکی ہجو کہنے پر مجبور ہو جائیں۔ نہ مصحفی و انشا میں سخن آرائی کے میدان سے آگے نکل کر کسی اور طرح کی معرکہ آرائی اختیار کی تھی۔ نہ انیس و دبیر کے چاہنے والوں کو ابھی انیسیے اور دبیریے کے خطابات سے لوگوں نے نوازہ تھا بلکہ اسکے برعکس لکھنؤ کی کوئی شناخت نہیں تھی نہ علمی، نہ ادبی اور نہ ثقافتی۔''
'ذکر سالک لکھنؤی'مضمون کا ایک اقتباس دیکھئے اور لکھنؤ کی ٹکسالی زبان کے ساتھ منظر نگاری کا بھی مزہ لیجئے۔
''وہاں کا منظر کچھ اس طرح کا ہوتا تھا کہ سالک صاحب بیچ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ انکے چاروں طرف کرسیوں پر فرمائش کرنے والوں کا مجمع ہے۔سامنے میز پر چائے کی پیالی اور سگریٹ کی ڈبیا رکھی ہوئی ہے۔انکی مخروطی انگلیوں میں دبی ہوئی سگریٹ دھنوئیں کے مرغولوں میں تبدیل ہو رہی ہے۔پر تفکر چہرہ گہری فکر کی گواہی دے رہا ہے۔ چوڑے ماتھے پر شکنیں ہیں اور بے ترتیب بال پڑے ہوئے ہیں جنکو کبھی کبھی وہ سر کے جھٹکے سے ہٹا دیتے ہیں۔۔۔شیر وانی کے بٹن کھلے ہوئے ہیں اور وہ فکر سخن میں غلطاں ہیں۔تمام حاضرین کاغز قلم لئے ہمہ توجہ لکھنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔سالک صاحب وقفے وقفے سے ہر ایک شخص کو اشعار لکھاتے چلے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہیکہ گویا باران سخن ہورہا ہے۔''
نام و نمود کی چاہت سے دور رئیس نقوی نے اپنے تحریر کردہ مضامین کی نقلیں بھی اپنے پاس محفوظ رکھنے کی زحمت نہیں کی ۔
رئیس نقوی کی بصری نقاہت اور اعضا کی کمزوری کے سبب گھڑیوں کی مرمت کا کام اب برائے نام رہ گیا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ اب رئیس نقوی کے علمی تجربات سے کسب فیض کرنے والوں کی تعداد بھی کم ہو گئی ہے اسکی وجہ رئیس نقوی کے معیار علم میں کمی نہیں ہے بلکہ انکی قدر و قیمت سے موجودہ دور کے قلمکاروں کی لا علمی ہے۔ لکھنؤ کی ادبی فضا کی خوشگواری کے لئے رئیس نقوی کا دم غنیمت ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔