جوشؔ ملیح آبادی کی وفات کے 41 برس بعد ان کے شعری مجموعے اور نثری کتاب کا اجرا

عظیم شاعر جوشؔ ملیح آبادی کی وفات کے 41برس بعد اتوار کے روز ان کے آخری شعری مجموعے ’محمل و جرس‘ اور نثری کتاب ’فکرو ذکر‘ کا اجرا عمل میں آیا

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ پریس ریلیز</p></div>

تصویر بشکریہ پریس ریلیز

user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: عظیم شاعر جوشؔ ملیح آبادی کی وفات کے 41برس بعد اتوار کے روز ان کے آخری شعری مجموعے ’محمل و جرس‘ اور نثری کتاب ’فکرو ذکر‘ کا اجرا عمل میں آیا۔ جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق راجدھانی دہلی میں تزک و احتشام کے ساتھ ’جوش-24‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک تقریب میں ہندی کے ممتاز اسکالر اور دانشور اشوک واجپئی نے رسمِ اجرا کو انجام دیا اور جلسے میں صدارت کے فرائض انجام دئے۔ خیال رہے کہ جوش ملیح آبادیؔ کے اس شعری مجموعہ اور نثری کتاب کو امریکہ کے ہیوسٹن میں مقیم شاعر اور ادیب اور عاشقِ جوش عدیل زیدی نے مرتب کیا ہے۔

اس موقع پر پروفیسر عبدالحق، پروفیسر اختر الواسع، پروفیسر انیس الرحمن، پروفیسر خالد محمود، پروفیسر شہپر رسول ڈاکٹر اطہر فاروقی، ڈاکٹر شعیب رضا خان وارثی، ڈاکٹر ابرار رحمانی، سہیل انجم سمیت کئی اہم دانشور اور قلم کاروں کے علاوہ مرکزی وزیر مملکت برائے پنچایتی راج ایس پی سنگھ بگھیل موجود تھے۔

’مذکورہ دونوں کتابوں کے علاوہ ڈاکٹر ہلال نقوی کی مرتبہ ’کلیاتِ جوش‘ اور جوش ؔکی سوانح عمری ’یادوں کی برات‘ کی رونمائی بھی عمل میں آئی۔ جوش 24-‘ کا اہتمام عبارت پبلی کیشن نے ادبی و ثقافتی تنظیم ’شانِ الفاظ‘ و’لائف ٹو پوائنٹ او‘ کے اشتراک اور متحدہ عرب امارات میں اردو زبان و ادب اور ثقافت کے فروغ میں مصروف تنظیم ’ایپلوز ادب‘ کے تعاون سے کیا تھا۔


اشوک واجپئی نے جوش کو اپنے وقت کا عظیم شاعر قرار دیتے ہوئے عہدِ حاضر میں ان کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اشوک واجپئی نے جوش کی تخلیقات کے پس منظر میں ادب کی طاقت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ملک اور مملکتیں مٹ جاتی ہیں لیکن ادب زندہ رہتا ہے۔

مقرر خاص پروفیسر عبدالحق نے اپنی تقریر میں جوش ؔ کو نئے سیاق میں اور ان کی شاعری کو نئے زاویۂ نگاہ سے دیکھنے ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ جوش ؔ اقدار کے شاعر ہیں۔ پروفیسر عبدالحق نے کہا کہ جوشؔ ملیح آبادی کو نصاب کی حد تک تو پڑھایا جاتا رہا لیکن ان کی شاعرانہ حیثیت پر کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہوا۔

پروفیسر اخترالواسع نے جوش ؔ ملیح آبادی کے یہاں موجود تنوع کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جوشؔ بہر حال شاعر ِ انقلاب بھی تھے اور شاعرِ شباب بھی تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہر تخلیق کار کے ساتھ قاری کو ذہن و ضمیر کی طرف سے پوری آزادی ہے کہ وہ جو چاہے لکھے، خواہ اسے پڑھنے والا پسند کرے یا نہ کرے۔ پروفیسر اخترالواسع نے ’محمل و جرس‘ اور ’فکر و ذکر‘ کے مرتب عدیل زیدی کے تئیں اجتماعی تشکر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ہمیں بھولا ہوا سبق یاد دلایا اور جوش کی یاد کو تازہ کیا۔

پروفیسر انیس الرحمن نے کہا کہ جوش کئی معنوں میں اہم شاعر ہیں، زبان کی سطح پران کی اپنی اہمیت ہے، استعارے خلق کرنے میں ان کا کوئی جواب نہیں، وہ اپنے انداز کی علامتیں نکالتے ہیں اور ان کی اخلاقیت ان کی اہمیت کا بڑا حصہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ جوشؔ نے زمیندارانہ نظام میں آنکھیں کھولیں اور سامراجی نظام بھی انھوں نے دیکھا، ان دونوں ادوار میں انھوں نے کس طرح اپنے آپ کو سنبھالا اور یہ چیزیں کس طرح ان کی شاعری پر اثر انداز ہوئیں، یہ بات بھی سمجھنے کی ہے۔

ڈاکٹر اطہر فاروقی نے کہا کہ اہلِ قلم کی بے وقعتی کے اس عہد میں جوش ملیح آبادی جیسے اعلیٰ اقدار کے لوگوں کی یاد اس لئے بھی آتی ہے کہ وہ اپنی خودداری کے لئے بڑے سے بڑے اعزاز کو ٹھکرا دیا کرتے تھے۔

حقانی القاسمی نے الفاظ کے استعمال میں کمی اور ان کی ختم ہوتی قدر و قیمت کے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر لفظوں کو مرنے سے نہیں بچایا گیا تو تو ہر طرف لفظوں کے قبرستان نظر آئیں گے۔


تقریب میں خصوصی طور سے شرکت کرتے ہوئے مرکزی وزیر مملکت برائے پنچایتی راج ایس پی سنگھ بگھیل نے اپنی تقریر میں کہا کہ انھیں ادبی محفلوں آ کر ذہنی سکون ملتا ہے۔ انھوں نے جوش کی شاعری خوبیاں بیان کرتے ہوئے ان کے اشعار کی گہرائی اور پرفیکشن کا خاص طور سے ذکر کیا۔

عہد ساز شاعر جوش ملیح آبادی کے افکار و الفاظ کے جشن ’جوش-24‘ کے تحت کتابوں کے اجرا کے علاوہ مختلف رنگا رنگ پروگرام پیش کیے گئے۔ جن میں طرحی مشاعرہ، محفلِ موسیقی، غزل سرائی، جوشؔ کی کہانی، جوشؔ کی حیات اور خدمات پر مبنی دستاویزی فلم کی نمائش اور جوشؔ کی کتابوں کی نمائش قابلِ ذکر ہیں۔

مشاعرے کی صدارت پروفیسر خالد محمود اور نظامت پروفیسر رحمن مصور نے کی۔ جن شعرا نے کلام پیش کیا ان میں پروفیسرشہپررسول، خورشید اکبر، اسد رضا، منیر ہمدم، اعجاز انصاری، ماجد دیوبندی، شاہد انجم، قمر جاوید، جاوید مشیری، ارشد ندیم، شاہد انور، شبیر شاد، ارشاد خاں سکندر، سالم سلیم، زبیر انصاری، فرمان چودھری، انس فیضی، عاطف رئیس، آبگینہ عارف اور شارقہ ملک کے نام شامل ہیں۔

محفلِ موسیقی میں ابھرتے ہوئے سنگر، کمپوز حیدر سیف، غزل سرائی میں آگرہ گھرانے کے گلوکار سدھیر ناراین اور کیرتکا نارائن نے جوش کا کلام پیش کر کے سماں باندھ دیا۔ جوش کی کہانی پروگرام میں اسٹوری ٹیلر سویچھا پرشاد نے جوش کے دلچسپ قصے سنائے۔ جوش کی زندگی اور شاعری پر اقبال حیدر (کینیڈا) کے ذریعے بنائی گئی دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی۔

اس یک روزہ تقریب میں مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ سر کردہ لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ جن میں ڈاکٹر ابرار رحمانی، صادقہ نواب سحر، اشفاق عارفی، خورشید اکرم، شعیب رضا خاں وارثی، مسعود ہاشمی، شاکر دہلوی، آسیہ خان، حافظ سلیم احمد، ڈاکٹر مشتاق انصاری، الیاس سیفی، شاکر سیفی، عارف دہلوی وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ عبارت پبلی کیشن کے سربراہ سلام خاں، شانِ الفاظ کے سرپرست اسلم خان، لائف ٹو پوائنٹ کی بانی شارقہ ملک نے مہمانوں کا خیرمقدم کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔