تقسیم ہند نے اردو کے منظر نامہ کو یکسر تبدیل کر دیا: ڈاکٹر فوزیہ فاروقی
پرنسٹن یونیورسٹی کی استاذ ڈاکٹر فوزیہ فاروقی نے کہا کہ تقسیم ہند نے اردو کا سارا منظر نامہ ہی بدل دیا، تقسیم سے قبل اردو زبان کا قاری ایک وسیع دنیا کا باشندہ تھا، لیکن اس کے بعد اس کا دائرہ سکڑ گیا۔
نئی دہلی: تقسیم ہند کے بعد کے اردو ادب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ تقسیم نے سماج، سیاست اور تہذیب پر جو اثرات مرتب کیے اس کا گہرا مطالعہ کیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام آن لائن بین الاقوامی توسیعی خطبے میں پرنسٹن یونیورسٹی نیو جرسی، امریکہ، کی استاذ ڈاکٹر فوزیہ فاروقی نے ’اردو شاعری تقسیم کے بعد‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
جامعہ کے شعبہ اردوکی جاری کردہ ریلیز کے مطابق انہوں نے کہا کہ اس سانحے نے اردو کا سارا منظر نامہ ہی سرے سے بدل دیا۔ تقسیم سے قبل اردو زبان کا قاری ایک وسیع دنیا کا باشندہ تھا۔ لیکن اس کے بعد اس کا دائرہ سکڑ گیا۔ نئے سیاسی نظام اور ہجرت کے نتیجے میں پیدا شدہ ادب پر کرب، خوف اور تنہائی کی فضا چھائی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی پسند تحریک نے ظالم و مظلوم کے مقابل جوڑے میں حیات و کائنات کے سارے مسائل کو دیکھا۔ لیکن اس کے بعد جدیدیت نے سیاسی، سماجی اور اخلاقی اقدار سے انکار کرتے ہوئے صرف ادبی اقدار پر ہی اصرار کیا۔ 1980 کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے ادب میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ اب پاکستانی ادب میں گنگا-جمنی تہذیب کے نقوش تقریباً معدوم ہوچکے ہیں۔ معاصر شاعری دنیا کو ایک پیچیدہ نظام کی صورت میں دیکھتی ہے۔ اس کا نقطۂ نظر یوٹوپیئن Utopian نہیں بلکہ ڈس ٹوپیئن Distopian ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے صدر شعبہ اردو پروفیسر شہزاد انجم نے صدارتی کلمات میں کہا کہ ”ادب کی دنیا میں تخلیق پر تنقید کا غلبہ اور نقاد کی اجارہ داری کوئی فال نیک نہیں۔ ایک سچا تخلیق کار کسی منظم و منصوبہ بند تحریک و رجحان کا اسیر نہیں ہوسکتا۔“ توسیعی خطبے کے کنوینر پروفیسر خالد جاوید نے ڈاکٹر فوزیہ فاروقی کا مفصل تعارف اور استقبال کرتے ہوئے کہا کہ ”جنوب ایشیائی زبانوں کے ادب پر فوزیہ فاروقی کی نظر بہت گہری ہے۔ وہ ادب کے سیاسی اور تہذیبی تناظرات کا بہت بسیط اداراک رکھتی ہیں۔ بطور خاص انھوں نے تقسیم کے حوالے سے ہندو پاک کی مختلف زبانوں کے ادب کا بصیرت افروز تقابلی مطالعہ کیا ہے۔“
پروفیسر احمد محفوظ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ”ترقی پسند تحریک نے کھلم کھلا ادبی قدروں کو ثانوی درجے کی چیز قرار دیتے ہوئے ادب کو طبقاتی کشمکش اور مخصوص نظریے کے پروپیگنڈے کا ہتھکنڈہ بنا دیا۔ جدیدیت نے ادب کی ادبیت کو از سر نو بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔“ خطبے کے سامعین میں پروفیسر مہر افشاں فاروقی (امریکہ)، ڈاکٹر آفتاب احمد(امریکہ)، ڈاکٹر راجن کلیانی (امریکہ) پروفیسر نجمہ رحمانی(دہلی یونیورسٹی)، پروفیسر محمود کاظمی (حیدرآباد) وغیرہ نے ڈاکٹر فوزیہ فاروقی کے اس خطبے کو نہایت بحث انگیز قرار دیتے ہوئے اہم سوالات قائم کیے۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر ثاقب عمران نے انجام دیئے۔ اختتام ڈاکٹر محمد مقیم کے اظہار تشکر پر ہوا۔
سامعین میں ڈاکٹر جاوید رحمانی، پروفیسر شہپر رسول، پروفیسر کوثر مظہری، پروفیسر ندیم احمد، ڈاکٹر عمران احمد عندلیب، ڈاکٹر سرور الہدیٰ، ڈاکٹر شاہ عالم، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی، ڈاکٹر شاداب تبسم اور بڑی تعداد میں ریسرچ اسکالرز موجود تھے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔