مشاعرہ ’جشن نو بہار‘ کا شاندار انعقاد
’جشن بہار ٹرسٹ‘ کے تحت نوجوان نسل کو فروغ دینے کے مقصد سے کرائے گئے مشاعرہ میں اردو اور ہندی کے نوجوان شعرا نے نئی فکر اور منفرد اسلوب میں اپنا کلام پیش کر ناظرین کو لطف اندوز کیا۔
نئی دہلی: انڈیااسلامک کلچر سینٹر میں پہلے مشاعرہ ’جشن نوبہار ‘ کا انعقاد انتہائی دلکش اور ادبی ماحول میں ہوا۔ اس موقع پر’جشن بہار ٹرسٹ‘ کی بانی کامنا پرساد نے کہا کہ ’’تبدیلی قدرت کا مزاج ہے اور تبدیلی ہی ترقی کی ضامن ہے۔ آج بدلتی ہوئی دنیا کونوجوان ذہنوں سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے ۔اس لئے نوجوان نسل کی فکر کو منظر عام پر لانا ضروری ہے ۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ہماری کوشش ہے کہ شاعری اور ادبی محفلوں کے ذریعے ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اور ادبی روایت کو نئی نسل تک پہنچایا جائے ۔‘‘
گزشتہ اپریل میں ڈی پی ایس (متھرا روڈ) میں ہوئے 20ویں عالمی مشاعرہ ’جشن بہار‘ کے موقع پر کامنا پرساد نے جس ’جشن نو بہار‘ کے آغاز کا اعلان کیا تھا، اس تقریب میں دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے بطور خاص شرکت کی۔ نوجوان نسل کو فروغ دینے والی اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’سماجی تبدیلی کے لئے شاعری بے حد موثر اور طاقتور ذریعہ ہے۔ نوجوان ذہن دنیا اور سماج میں ہو رہی تبدیلیوں کو محسوس کرتا ہے اور اس کے پیش نظر مستقبل کو سنوارنے میں مثبت رول ادا کر سکتا ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’نوجوان تخلیق کاروں کے جدید خیالات اورفکرِنو سے ہماری امیدیں وابستہ ہیں۔ جشنِ نوبہار کی یہ گنگا-جمنی محفل ان کی کاوشوں کو منظرعام پر لانے کے لئے ایک ضروری پہل ہے۔‘‘ اس موقع پر منیش سسودیا نے مشاعرے کی کنوینر کامنا پرساد کو اس قدر بے مثال تقریب کے انعقاد کے لیے مبارکباد بھی پیش کی۔
اُردو اکادمی دہلی اور ہندی اکادمی دہلی کے زیر اہتمام انڈیا اسلامک کلچر سنٹر کے بی ایس عبدالرحمن آدیٹوریم میں منعقد اس مشاعرہ کا آغاز روایت کے مطابق شمع روشن کرکے کیا گیا۔ اس موقع پر ہندی اور اردو زبان سے تعلق رکھنے والے ملک کے نوجوان شعرائے کرام نے تازہ دم آواز ، نئے اسلوب اور جدید لب و لہجہ سے محفل کے باذوق سامعین کو مسحور کیا۔ ’جشنِ نو بہار‘ میں نوجوان تخلیق کاروں کی شاعری میں جدت شدّت سے محسوس کی جاسکتی تھی۔ شعرائے کرام نے جدید افکاراور منفرد انداز بیان میں کلام پیش کرتے ہوئے دہلی میں مشاعرے اور کوی سمّیلن کی روایت میں ایک نیا باب وا کیا۔
اس مشاعرہ میں نوجوان شاعروں نے اپنی تخلیقات پیش کیں ان کے اسمائے گرامی ہیں حسین حیدری، اظہراقبال، ابھیشیک شکلا، گورو ترپاٹھی، وِپل کمار، سبیکہ عبّاس نقوی، قیص جونپوری، مُدتا رستوگی اور رمنیک سنگھ ۔پروگرام کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر سیف محمود نے انجام دیے۔ اس موقع پر ادب سے دلچسپی رکھنے والے سینکڑوں افراد نوجوان نسل کو سننے کے لیے حاضر ہوئے اور داد سخن کے ذریعہ ان کی حوصلہ افزائی کی۔ شاعروں کے کچھ منتخب کلام قارئین کے لیے پیش خدمت ہیں:
اظہر اقبال:
خود اپنی سوچ کے برعکس جینا پڑ رہا ہے
ستم یہ ہے کہ سالی زندگی کم ہورہی ہے
یہ تمہا را پہلا عشق ہے سوچ لو
میرے لئے یہ راستہ نیا نہیں ہے
وپل کمار:
اس ہجر پہ تہمت کی جسے وصل کی ضد ہو
اس درد پہ لعنت کہ جو اشعار میں آجائے
سبیکہ عباس نقوی:
تمہیں لگا کہ مری ا ٓنکھو ں میں لگا کاجل
صرف سنگار ہے
جس پر تم فلمی گانے لکھو گے ؟
تمہیں لگا مری آنکھوں کاکاجل
تمہاری سرمایا دار، زنِ بے زار دکانوں میں بکتی ہوئی
صرف اک مہنگی ڈبیا ہے
مدتا رستوگی:
ریزہ یزہ ترک یہ رشتہ ہوا
سچ کہیں جو ہوا اچھا ہوا
اک تو دل کے قدم بھی تیز تھے
اس پہ زینہ عشق کا بھیگا ہوا
ابھیشیک شکلا:
سیا ہ رات کی سرحد کے پا ر لے گیا ہے
عجیب خواب تھا آنکھیں اتار لے گیا ہے
ہے اب جو خلق میں مجنوں کے غم سے مشہور
وہ اب مری ذات سے وحشت ادھار لے گیا ہے
گورو ترپاٹھی:
چلتا ہے ا تیہاس میں ،پل پل اپنی را ہ
بوند کو نہ درکار ہے ،نا ساگر کی چاہ
پھونک پھونک شعلہ جلے ،دیا جلے بن پھونک
ویمنسیہ میں سرم لگے ،پریم سہج او موک
قیص جونپوری:
میں اک مرد ہو ں
اور معافی مانگنا چاہتا ہوں
کیرل کی جشا سے ، دلی کی نربھیا سے
رمنیک سنگھ :
آیوگ دیا گیا ہے ، نشپکچھ چانچ ہوگی
راجا دوشی پایا جائے گا ،
یہ امید
اتنی ہی مورکھتا پورن ہے جتنا یہ وشواس
یہ پٹری مر سکتی ہے ٹرین کے نیچے آکر
چھت لے سکتا ہے اپنی جان ،خود پر سے کود کر
حسین حیدری:
خاکی رنگ کی دیواروں
پر لٹکتی گاندھی جی کی
بڑی سی فوٹوکے
پیچھے سے دوپہری میں
ایک لمبی بھوری سی
چھپکلی نکلتی ہے
- (محمد تسلیم کے اِن پُٹ کے ساتھ)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔