اُردو زبان نہیں، ایک مکمل تہذیب ہے: کامنا پرساد
جشن بہار ٹرسٹ کی بانی کامنا پرساد اردو سے بے پناہ محبت کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اردو ایک تہذیب ہے اور اس کو زندہ رکھنا ہمارا ’پرم دھرم‘ ہے۔
جشن بہار ٹرسٹ کی بانی اور مشاعرہ جشن بہار کی روح رواں کامنا پرساد اُردو ادب میں ایک خاص مقام بنا چکی ہیں۔ 13 اپریل کو نئی دہلی میں وہ 20واں مشاعرہ جشن بہار منعقد کرنے والی ہیں۔ ’قومی آواز‘ نے کامنا پرساد سے اس مشاعرہ اور اُردو زبان کے تعلق سے خصوصی گفتگو کی۔ پیش ہیں اس کے اہم اقتباسات...
اُردو سے آپ کو لگاؤ کیوں کر پیدا ہوا؟
آبا و اجداد کی زبان اُردو تھی اس لیے گھر کے ماحول میں اُردو نے اپنی جگہ بنائی ہوئی تھی۔ اس ماحول میں رہ کر مجھے بھی اُردو سے محبت ہوئی۔ اس زبان میں جو کشش اور دلکشی ہے وہ کسی کو بھی اپنی طرف کھینچنے کی قوت رکھتی ہے، اور پھر مجھے تو بچپن سے ہی یہ ماحول ملا تھا اس لیے اُردو سے لگاؤ ہونا فطری عمل ہے۔
مشاعرہ جشن بہار شروع کرنے کے پیچھے کیا مقاصد تھے؟
مشاعرہ جشن بہار کا آغاز 1999 میں ہوا تھا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ ہم اپنی گنگا-جمنی تہذیب کو فروغ دیں۔ اس وقت ایک مشہور مشاعرہ کسی وجہ سے کچھ مدت کے لیے بند ہو گیا تھا اور میں نے اس پر فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے خشونت سنگھ سے کہا کہ ایسا مشاعرہ شروع ہونا چاہیے جو ہندوستانی تہذیب کی پاسدار ہو۔ خشونت سنگھ جو اس مشاعرے کے پہلے پیٹرن بھی تھے، انھوں نے کہا کہ ’’تو کر لے۔‘‘ حالانکہ میرے لیے مشاعرہ شروع کرنا اس وقت بہت مشکل تھا لیکن میں نے ہمت کی اور سردار جعفری، قرۃالعین حیدر، کلدیپ نیر جیسی شخصیتوں کے تعاون سے مرحلہ آسان ہو گیا۔ آج بہت خوشی ہو رہی ہے یہ سوچ کر کہ 13 اپریل 2018 کو ہم 20واں مشاعرہ جشن بہار منعقد کرنے جا رہے ہیں۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ مشاعرہ جشن بہار اپنے مقصد میں کامیاب ہے؟
یقیناً، جس مقصد سے ہم نے مشاعرہ جشن بہار کا آغاز کیا تھا، اس میں ہم کامیاب ہیں۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ ہم نے مشاعرے کے معیار کو برقرار رکھا ہے اور شروع سے ہی ہماری یہ کوشش رہی ہے کہ اُردو اور اس کی تہذیب کا پاس رکھا جائے۔ میں نے 1999 کے پہلے مشاعرے میں تقریر کے دوران کہا تھا کہ اُردو زبان نہیں ایک مکمل تہذیب ہے، اور آج بھی میں یہی کہوں گی۔ اس تہذیب کو زندہ رکھنا ہمارا ’پرم دھرم‘ ہے۔ ہم ہمیشہ یکجہتی اور امن کی بات کرتے ہیں اور اُردو، جو کہ کئی زبانوں سے مل کر بنی ہے اور اس کا ایک نام ’ریختہ‘ بھی ہے، ہندوستانی تہذیب کی علمبردار ہے۔
اُردو کی مقبولیت میں مشاعروں کا کیا مقام ہے؟
مشاعرے نئی نسل کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور اُردو سے قریب لاتے ہیں۔ مشاعروں میں شاعری سننے والے لوگ ہندوستان کے ہر علاقے میں ہیں۔ اب تو کئی زبانوں میں مشاعرے ہونے لگے ہیں، لیکن مشاعرے کی راہ اُردو نے ہی دکھلائی ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ مشاعروں میں شرکت سے نشست و برخاست کا سلیقہ سیکھنے کو ملتا ہے اور نوجوان نسل کے لیے یہ بہت اہم ہے۔ شاعری اپنے وقت اور معاشرہ کی عکاسی بھی کرتی ہے اس لیے ہمیں بس اس کا معیار برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔
نوجوان نسل میں اُردو کے تئیں آپ کتنی دلچسپی دیکھتی ہیں؟
نوجوان نسل کو اُردو بولنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی، بلکہ وہ عام بول چال کی زبان میں اُردو کا خوب استعمال کرتے ہیں۔ اُردو لکھنے اور پڑھنے میں ان کی دلچسپی ضرور کم ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی وہ میسج بھیجتے یا پوسٹ کرتے ہیں تو اُردو الفاظ کا خوب استعمال کرتے ہیں لیکن لکھتے رومن اسکرپٹ میں ہیں۔بہر حال، اُردو ہمارے آس پاس اس طرح پھیلی ہوئی ہے کہ اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
آپ اُردو کے مستقبل کے بارے میں کیا سوچتی ہیں؟
اُردو زبان نے عروج اور زوال دونوں دور دیکھےہیں اور کوئی بھی زبان اس وقت تک نہیں مٹ سکتی جب تک وہ بول چال اور استعمال سے دور نہ ہو جائے۔ اُردو نے ہندوستان کی تحریک آزادی کے وقت ’انقلاب زندہ باد‘ جیسے نعرے دیے اور اس وقت بھی اس زبان کی موجودگی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ میں پھر یہی کہوں گی کہ یہ ایک مکمل تہذیب ہے جس کو مٹانا آسان نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 12 Apr 2018, 6:33 PM