جسٹس لویا پر آج دیا گیا فیصلہ عدلیہ کی تاریخ کا یومِ سیاہ: جسٹس کولسے پاٹل
جسٹس کولسے پاٹل کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک کی عوام زندہ ہے، اس لیے امید ہے کہ جس طرح دلتوں کے معاملے میں سڑکوں پر غصہ اترا ویسا ہی کچھ دوبارہ ہو سکتا ہے۔
ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے جسٹس لویا کے معاملے میں اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں درج مفاد عامہ کی عرضی کو خارج کر دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ سیاسی طور پر متاثر ہے۔ جسٹس لویا جو بی جے پی صدر امت شاہ کی سہراب الدین کے مبینہ انکاؤنٹر والے معاملے کی سماعت کر رہے تھے، ان کی 2014 میں ہوئی اچانک موت سے متعلق سنگین سوال اٹھے تھے اور پورے معاملے کی غیر جانبدارانہ جانچ کرانے کے لیے مفاد عامہ کی عرضی بمبئی ہائی کورٹ اور ناگپور میں داخل کی گئی تھی۔ ان رعرضیوں کو سپریم کورٹ نے اپنے ماتحت لے لیا جس کے سبب عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کی مخالفت بھی ہوئی۔ مخالفت میں ایک بلند آواز بنے بمبئی ہائی کورٹ سے سبکدوش جسٹس بی جی کولسے پاٹل۔ جسٹس لویا کی موت کو مشتبہ بتانے کے ساتھ ساتھ جسٹس پاٹل ان اشخاص میں سے ہیں جنھوں نے کھل کر کہا کہ انھیں یہ جانکاری ملی تھی کہ جسٹس لویا کو اس معاملے میں حکومت کے حق میں فیصلہ دینے کے لیے 100 کروڑ روپے آفر کیے گئے تھے۔ انھوں نے یہ باتیں اس وقت بھی بے خوفی کے ساتھ کہیں اور آج بھی دہرا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر ’قومی آواز‘ کی جسٹس بی جی کولسے پاٹل سے خصوصی گفتگو ہوئی جس کے اہم اقتباسات پیش ہیں۔
سپریم کورٹ نے جسٹس لویا کے معاملے میں جو فیصلہ سنایا ہے اس سے متعلق آپ کیا سوچتے ہیں؟
مجھے لگتا ہے کہ ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں آج کا دن سب سے تاریک اور برے دنوں کی شکل میں یاد کیا جائے گا۔ میری سمجھ میں ایسا کوئی بھی نہیں کہہ سکتا اور نہ ہی کہنا چاہیے کہ جسٹس لویا کی موت قدرتی تھی۔ سارے دستاویزات موجود ہیں، کم از کم ان کی جانچ ہونی چاہیے تھی۔ مطالبہ یہ تھا کہ اس موت کی جانچ ہو، اگر اس کی بھی سماعت نہیں ہوگی تو کیسے چلے گا۔
جسٹس لویا والے معاملے پر سپریم کورٹ کے کئی جج بھی طویل مدت سے آواز اٹھا رہے تھے، پھر بھی تمام سوالوں کو نظر انداز کیوں کیا گیا؟
دیکھیے، 12 جنوری کو سپریم کورٹ کے چار ججوں نے تاریخی قدم اٹھایا۔ ایسا ہندوستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ انھوں نے پریس کانفرنس کر کے سیدھے سیدھے کہہ دیا کہ سپریم کورٹ میں جو چل رہا ہے وہ درست نہیں ہے۔ انھیں جسٹس لویا والے معاملے میں سپریم کورٹ کے رویہ سے ناراضگی تھی۔ اتنا ہی نہیں، 100 سے زیادہ ممبران پارلیمنٹ صدر جمہوریہ سے ملے تھے اور کہا تھا کہ انھیں چیف جسٹس پر بھروسہ نہیں ہے۔ یہ امت شاہ سے جڑا کیس ہے، لہٰذا اس سلسلے میں زیادہ شفافیت برتی جانی چاہیے تھی۔
آپ طویل مدت سے جسٹس لویا کے قتل سے متعلق دستاویزوں کو سامنے لا رہے ہیں، اب کیا کریں گے؟
دیکھیے، دستاویز تو آج سامنے ہیں۔ دلائل اپنی زبان بولیں گے۔ لویا کے گھر آئے فون کا وقت اور پوسٹ مارٹم میں درج موت کے وقت کو دیکھ کر جو کچھ سامنے آتا ہے اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ پانچ بجے ان کے گھر فون آیا کہ جسٹس لویا کا قتل ہوا، لیکن پوسٹ مارٹم میں موت کا وقت 7.15 بجے درج ہے۔ پوسٹ مارٹم اور وِسرا کی رپورٹوں میں بھی تال میل نہیں ہے۔ اتنا گول مال ہے کہ یہ معاملہ دبائے نہیں دب رہا ہے۔ سچ کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ یہ فیصلہ عدالتی نظام پر بدنما داغ ہے۔
اب آگے کیا ارادہ ہے؟
سچ کے ساتھ ہم کل بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ آج عوام کے پاس دستاویزات بھی ہیں۔ ہمارے ملک کی عوام زندہ ہے۔ امید ہے جس طرح دلتوں کے معاملے میں سڑکوں پر غصہ اترا ویسا ہی کچھ دوبارہ ہو سکتا ہے۔ میں سبھی ججوں کو یہی کہنا چاہتا ہوں کہ آج سیتا میّا کی طرح سب کو اگنی پریکشا سے گزرنا ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔