انٹرویو— مودی حکومت ملک کو برباد کرنے پر آمادہ: گہلوت

2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی کو 31 فیصد ووٹ ملے تھے جب کہ اپوزیشن کو 69 فیصد ووٹ ملے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ ملک میں ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جنھوں نے مودی-بی جے پی کی قیادت کو خارج کیا۔

تصویر پرمود پشکرنا/ قومی آواز
تصویر پرمود پشکرنا/ قومی آواز
user

وشو دیپک

گجرات اسمبلی انتخابات کے دوران سینئر کانگریس لیڈر اشوک گہلوت نے کانگریس سربراہ راہل گاندھی کے ساتھ کافی وقت گزارا۔ ان کا کہنا ہے کہ مہاتما گاندھی کے نظریات کو راہل گاندھی آگے بڑھا رہے ہیں۔ راہل گاندھی ملک کے قبائلیوں، دلتوں، پسماندہ طبقات اور مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ وہ ملک کے غریب شخص کو مرکز نگاہ رکھ کر ہی سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ کانگریس پارٹی، راہل گاندھی اور ملک کی سیاست سے متعلق کئی موضوعات پر اشوک گہلوت نے ’قومی آواز‘ کے نمائندہ وشو دیپک سے بات چیت کی۔ پیش ہیں اس کے اہم اقتباسات...

وشو دیپک: گجرات انتخابات میں کانگریس کی سیٹوں میں تقریباً 100 فیصد اضافہ ہوا۔ ووٹ شیئر بھی دہائیوں بعد 40 کے پار پہنچا۔ آپ کے مطابق یہ نتائج کیا پیغام دیتے ہیں؟

اشوک گہلوت: یہ صرف میں نہیں بلکہ پورا ملک مانتا ہے کہ بھلے ہی انتخابات میں فتح بی جے پی کو حاصل ہوئی ہو لیکن اخلاقی فتح کانگریس کی ہوئی ہے۔ اس فتح کے معنی اس لیے مزیدبڑھ جاتے ہیں کیونکہ گجرات وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست ہے اور بی جے پی انتخابات سے قبل ہمیشہ یہی دعوے کر رہی تھی کہ اسے 150 سے زیادہ سیٹیں ملنے والی ہیں۔ لیکن عوام نے وزیر اعظم کی انا اور بی جے پی کے دعوؤں کو پوری طرح خارج کر دیا۔ موجودہ حالات میں اس اخلاقی فتح کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس نے مثبت انتخابی تشہیر کا راستہ اختیار کیا۔ ہم نے ترقی اور روزگار کے ایشو پر بی جے پی کو گھیرا لیکن ان کے پاس کسی بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔

فتح تو فتح ہوتی ہے چاہے ایک ووٹ سے ہو یا ایک لاکھ ووٹ سے۔ کانگریس آخر جیتتے جیتتے کس طرح ہار گئی؟

میں آپ کی اس بات سے متفق ہوں کہ فتح آخر فتح ہی ہوتی ہے چاہے ایک ووٹ سے ہی کیوں نہ ہو۔ میرے خیال سے بی جے پی کو یہ فتح اس لیے حاصل ہوئی کیونکہ ان لوگوں نے آخر کے کچھ دنوں میں جذباتی ایشوز کو زبردست طریقے سے ہوا دی۔ مودی نے خود گجراتی وقار کا ایشو زور و شور سے اٹھایا۔ منی شنکر ایر کے بیان کو گجراتی وقار سے جوڑ کر لوگوں کو اُکسایا گیا۔ دراصل مودی اور امت شاہ کو سمجھ میں آ گیا تھا کہ اس انتخاب میں بی جے پی شکست کھانے والی ہے اس لیے آخر متبادل کے طور پر اشتعال انگیز ایشوز کو ہوا دی گئی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بی جے پی نے اس انتخاب میں سرکاری مشنری کا غلط استعمال کیا۔ مرکز اور ریاست دونوں جگہ بی جے پی کی حکومت ہے اس لیے پیسوں کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے بی جے پی نے کمزور طبقے کو خوفزدہ کیا۔ سرکاری مشنری کا استعمال کرتے ہوئے تاجر طبقہ کو ڈرایا گیا اور ان سے کہا گیا کہ اگر بی جے پی کو ووٹ نہیں دو گے تو چھاپہ ماریں گے۔ کچھ سیٹوں پر اس طرح کے ہتھکنڈوں کا بھی اثر ہوا۔

تصویر پرمود پشکرنا/ قومی آواز
تصویر پرمود پشکرنا/ قومی آواز
سینئر کانگریس لیڈر اشوک گہلوت

گجرات انتخابات کے انچارج ہونے کے ناطے آپ نے راہل گاندھی کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کے ساتھ کام کیا۔ ایک لیڈر کے طور پر راہل گاندھی کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟ ملک کے لیے ان کا ویژن کیا ہے؟

دیکھیے، یہ بات میں گجرات انتخابات سے پہلے بھی کہتا رہا ہوں اور اب بھی کہتا ہوں کہ راہل گاندھی ملک کے ایسے لیڈر ہیں جو سماج کے سب سے نچلے پائیدان پر کھڑے آدمی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ وہ گاندھی کے اس فلسفے کو مانتے ہیں کہ حکومت یا ریاست کی کوئی بھی پالیسی سماج کے سب سے پچھڑے پائیدان پر کھڑے انسان یا طبقے کو دھیان میں رکھ کر بنانا چاہیے۔ وہ ملک کے قبائلی، دلت، پسماندہ اور مسلمانوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ جو ملک کا غریب شخص ہے اس کو مرکز نگاہ بنا کر وہ سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ راہل ملک کے پالیٹیکل ڈسکورس کو بدلنا چاہتے ہیں اور نفرت کی سیاست کو ناپسند کرتے ہیں۔راہل گاندھی سیاسی مخالفین سے نفرت کرنے میں یقین نہیں رکھتے۔ سیاست کرنے کا ان کا انداز بالکل مختلف ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ بہت سہل انداز میں لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں، ان کی تکلیف سنتے ہیں اور عوام کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں۔ صرف سیاسی لیڈر کے طور پر ہی نہیں بلکہ ایک انسان کے طور پر بھی وہ بہت حساس ہیں۔ آر ایس ایس-بی جے پی نے سوشل میڈیا کے ذریعہ باضابطہ مہم چلا کر راہل گاندھی کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کی اور اس کے لیے کروڑوں روپے خرچ کیے لیکن گجرات انتخابات کے بعد اب یہ غلط فہمی دور ہونے لگی ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کی قلعی کھل چکی ہے۔

آپ نے اندرا جی کا دور دیکھا ہے، راجیو گاندھی اور سونیا گاندھی کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ راہل گاندھی کا انداز ان کی دادی، والد یا والدہ سے مختلف ہے یا یکساں؟

صرف میں نے ہی نہیں بلکہ گجرات انتخابات کے دوران سب نے اس بات کو نوٹس کیا ہے کہ جس طرح بھیڑ کا رجحان اندرا جی کی ریلیوں میں دیکھنے کو ملتا تھا وہی رجحان اس بار انتخابات میں راہل کی ریلیوں میں بھی دیکھنے کو ملا۔ مجھے ان سب کے کام کرنے کا طریقے میں فرق کم اور یکسانیت زیادہ نظر آتی ہے۔ اندرا جی کے دور میں جب میں نے سیاست شروع کی تھی تب میں نوجوان تھا۔ میری طرح میرے دوسرے ہمعصر نوجوانوں کو، جس میں غلام نبی آزاد، مکل واسنک، دگ وجے سنگھ جیسے لوگ شامل ہیں، اندرا جی نے سیاست میں آگے بڑھایا۔ اسی طرح راجیو گاندھی نے بھی اپنے دور میں کانگریس پارٹی میں نوجوان سوچ کو آگے بڑھنے کا موقع دیا۔ راہل گاندھی بھی ٹھیک ایسا ہی کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں راہل گاندھی بھی اندرا کی طرح غریبوں کے حق کی بات کرتے ہیں، ایک مثبت سیاست کرنا ان کے خون میں شامل ہے۔

مودی حکومت کے تین سال پر آپ کی رائے کیا ہے؟

مودی حکومت ملک کو برباد کرنےپر آمادہ ہے۔ کسان خود کشی کر رہے ہیں، تاجر خوفزدہ ہیں۔ میڈیا بھی خوف یا کسی مجبوری کے سبب ان کا ساتھ دے رہی ہے لیکن جمہوریت میں ایساہمیشہ نہیں چل سکتا۔ دوسروں کو چھوڑیے، خود ان کی پارٹی کے لوگ خوفزدہ ہیں۔ سچ بولنے کی ہمت کسی میں نہیں ہے۔ مودی حکومت کے وزراء بھی کچھ بولنے سے پہلےسو بار سوچتے ہیں۔ سب کے منھ پر تالا لگا ہوا ہے۔ کسی کی ہمت نہیں کہ مودی اور امت شاہ کی لائن سے ہٹ کر کچھ بول دیں۔ لیکن میں کہنا چاہتا ہوں کہ تین سالوں میں ملک کے اندر خوف کا راج چلتا رہا لیکن یہ اب زیادہ دنوں تک نہیں چلنے والا۔ کوئی حیرانی نہیں کہ اگلے انتخابات میں آپ کو ملک کی سیاست میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں ۔ بی جے پی-آر ایس ایس اور فاشسٹ طاقتوں کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔

اس سال مدھیہ پردیش اور راجستھان جیسی بڑی ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ کانگریس پارٹی کی کیا پالیسی ہوگی؟

راہل جی کی رہنمائی میں ہر ریاست کے مدنظر الگ الگ پالیسی تیار کی جائے گی۔ پارٹی کو مضبوط کرنا، کارکنان کو متحد کرنا اور جمہوری سوچ رکھنے والی پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا کانگریس کی پہلی اور بڑی ترجیحات ہوں گی۔ ایشوز پر مبنی انتخابی تشہیر پر توجہ دی جائے گی جیسا کہ ہم نے گجرات میں بھی کیا۔ راہل گاندھی کی سوچ کو مرکز نگاہ رکھ کر مثبت پالیسی کے ساتھ کانگریس انتخابی تشہیر کے لیے میدان میں اترے گی۔

اس وقت اپوزیشن بہت کمزور نظر آ رہا ہے۔ کانگریس پارٹی 2019 کے انتخابات کو دھیان میں رکھتے ہوئے اپوزیشن طاقتوں کو متحد کرنے کے لیے کس طرح کی کوشش کر رہی ہے؟

اپوزیشن کمزور نہیں بلکہ بکھرہ ہوا ہے۔ اگر 2014 کے انتخابات کی ہی بات کریں تو بی جے پی کو 31 فیصد ووٹ ملے تھے جب کہ اپوزیشن کو 69 فیصد ووٹ ملے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جنھوں نے مودی-بی جے پی کی قیادت کو خارج کیا۔ اگر اپوزیشن متحد ہو کر 2019 میں انتخابات لڑے گا تو بی جے پی کے پاس کچھ بھی نہیں بچے گا۔ یہ بات آر ایس ایس اور بی جے پی کے لوگ بھی اچھی طرح جانتے ہیں اس لیے ذات اور مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو بانٹنے والی سیاست کر رہے ہیں۔

اب آپ کچھ اپنے بارے میں بتائیے، کیا آپ راجستھان کی سیاست میں واپس جائیں گے یا پھر قومی سیاست میں سرگرم رہیں گے؟

دیکھیے، پہلا انتخاب میں نے 1977 میں لڑا تھا اسمبلی کا۔ وہ ٹکٹ میں نے مانگا تھا۔ اس کے بعد میں ہمیشہ ممبر پارلیمنٹ رہا۔ تین مرتبہ مرکز میں وزیر رہا اور دس سال ریاست کا وزیر اعلیٰ رہا۔ مجھے سب کچھ بغیر مانگے ملا۔ تین مرتبہ ریاستی کانگریس کا صدر رہا اور دو مرتبہ کانگریس کا جنرل سکریٹری رہا، یہ سب کچھ بغیر کسی گروہ بندی اور بغیر کسی سفارش کے ملا۔ جب بغیر کچھ کہے پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے مجھ پر اعتماد ظاہر کیا ہے تو پھر کچھ کہنے کی ضرورت کیا ہے؟ مجھے جو ذمہ داری دی جائے گی میں اس کو بخوبی نبھانے کی کوشش کروں گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔