ریاست کا درجہ مرکزی حکومت سے ملنے والی خیرات نہیں، ہمارا حق ہے، عمر عبداللہ کا انٹرویو

نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام کو ریاستی درجہ بحال کرنے کی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے۔ یہ کوئی مرکز سے ملنے والی خیرات نہیں، بلکہ ان کا حق ہے

جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ
جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ
user

قومی آواز بیورو

جموں و کشمیر جو پہلے ایک ریاست تھی اور اب ایک مرکزی زیر انتظام علاقہ ہے، اس سال ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں ریکارڈ ووٹنگ کا گواہ رہا اور اب 10 سال کے وقفہ کے بعد یہاں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں۔ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے ’فرنٹ لائن‘ میگزین کو دئے گئے انٹرویو میں جموں و کشمیر کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے منصوبے، سیاسی ہتھکنڈوں اور دیگر مسائل پر کھل کر بات کی۔ وہ اس بار گاندربل اور بڈگام سے اسمبلی انتخابات لڑ رہے ہیں۔

انٹرویو کے دوران عمر عبداللہ نے کہا کہ گزشتہ اسمبلی انتخابات کو 10 سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران جموں و کشمیر کی صورتحال میں بڑی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ خاص طور پر ریاستی درجہ کو ختم کر کے جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا۔

عمر عبداللہ نے کہا، ’’اس طویل وقفے کے بعد، عوام جمہوری حکومت کی بحالی کے خواہاں ہیں۔ 2018 کے بعد سے جموں و کشمیر میں کوئی منتخب حکومت نہیں ہے اور دہلی ہم پر حکومت کر رہی ہے۔‘‘


انہوں نے کہا کہ ایک نئی نسل کے ووٹرز سامنے آ چکے ہیں اور یہ انتخابات ماضی کے انتخابات سے مختلف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جن جماعتوں نے پچھلے انتخابات میں ووٹ کا بائیکاٹ کیا تھا، وہ اب عوام کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دے رہی ہیں۔

نیشنل کانفرنس کی جیت کے امکانات پر بات کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ پارٹی کو مکمل اعتماد ہے کہ پارٹی کانگریس اور سی پی آئی (ایم) کے ساتھ مل کر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی اور اسمبلی میں اکثریت کے ساتھ واپس آئے گی۔

عمر عبداللہ نے ان دعووں کو مسترد کر دیا کہ نیشنل کانفرنس کا علیحدگی پسند یا ملی ٹینٹوں کا ایجنڈا ہے۔ ان کے مطابق، پارٹی کے کئی کارکن، رہنما اور وزراء اس لیے مارے گئے کیونکہ نیشنل کانفرنس نے کبھی علیحدگی پسند جھنڈا نہیں اٹھایا۔

انہوں نے کہا، ’’وزیر اعظم مودی کا نیشنل کانفرنس جیسی پارٹیوں کو ملی ٹنسی سے جوڑنا سراسر ناانصافی اور ان ہزاروں لوگوں کی توہین ہے جو ملک کے ساتھ کھڑے رہنے کی وجہ سے مارے گئے۔‘‘


عمر عبداللہ کا کہنا تھا، ’’ریاست کا درجہ ہمیں مرکز سے ملنے والی کوئی خیرات نہیں ہے، بلکہ یہ ہمارا حق ہے۔ مرکز نے اسے ختم کرنے کا کوئی جواز نہیں دیا اور یہ کہنا کہ ہمیں ریاستی درجہ بحال کرنے کے لیے مرکز سے بھیک مانگنی ہوگی، سراسر غلط ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ بی جے پی نے خود سپریم کورٹ میں ریاستی درجہ بحال کرنے کا وعدہ کیا ہے اور اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو ہم عدالت سے انہیں یہ یہ وعدہ یاد دلانے کو کہیں گے۔

پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ ایک منتخب ریاستی حکومت کا یہ دائرہ اختیار نہیں ہے لیکن ایسی حکومت کو ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو مذاکرات کے لیے سازگار ہوں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی کی حکومت نے جموں و کشمیر میں کئی مسائل کو بڑھا دیا ہے، جیسے کہ بے روزگاری، صحت اور تعلیم کا بگڑتا معیار، اور معاشی بوجھ۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر آج ملک کے سب سے زیادہ قرض میں ڈوبے ہوئے علاقوں میں شامل ہے۔

عمر عبداللہ نے بتایا کہ اگر نیشنل کانفرنس کی حکومت بنتی ہے تو ان کی اولین ترجیح ریاستی درجہ بحال کرنے کے لیے کام کرنا ہوگی، اور اگر ضرورت پڑی تو قانونی راستے بھی اپنائے جائیں گے۔

(یہ انٹرویو ابتدائی طور پر فرنٹ لائن میگزین میں شائع ہوا تھا)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔