ششی تھرور کا انٹرویو: جنوب کے لئے بی جے پی نے کیا ہی کیا ہے، شمالی ہند والے داؤ یہاں نہیں چلیں گے!
ترواننت پورم، کیرالہ نے کانگریس امیدوار اور تین مرتبہ کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور کا کہنا ہے کہ بی جے پی کو خود ہی سوچنا چاہئے نے اس نے جنوب کے لئے کیا ہی کیا ہے، اس لئے اس علاقہ میں اس کی دال نہیں گلتی
کیرالہ کے ترواننت پورم سے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور ان دنوں اس سیٹ سے چوتھی بار لوک سبھا میں جانے کے لیے انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ کیرالہ میں دوسرے مرحلے میں 26 اپریل کو ووٹنگ ہونی ہے۔ اس لیے انتخابی مہم کا شور اور امیدواروں کی مصروفیت بھی بڑھ رہی ہے۔ ترواننت پورم میں ششی تھرور کا مقابلہ سابق رکن پارلیمنٹ اور سینئر سی پی آئی لیڈر پی راجندرن اور بی جے پی امیدوار مرکزی وزیر راجیو چندر شیکھر سے ہے۔
اقوام متحدہ کے سابق سفارت کار تھرور ووٹروں سے نرمی اور شائستہ انداز میں اپیل کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ لوگوں نے درمیان نظر آنا کتنا اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی موڈیفائیڈ گاڑی کی چھت پر بیٹھ کر تقریباً دن بھر لوگوں کے درمیان گھوم رہے ہیں، مختلف مقامات پر ٹھہر کر اہم چوراہوں، بازاروں حتیٰ کہ گلی کوچوں میں لوگوں سے باتیں کر رہے ہیں۔ اس سب کے دوران وہ لنچ بریک کے بہانے چلچلاتی گرمی سے کچھ راحت لیتے ہیں۔
ایک دن کی مہم کے بعد نیشنل ہیرالڈ نے ان سے مختلف مسائل پر گفتگو کی، پیش ہیں اسی گفتگو کے اقتباسات:
کیرالہ میں ووٹنگ ہونے میں اب ایک ہفتہ سے بھی کم وقت بچا ہے۔ آپ کی تشہیر کیسی چل رہی ہے؟
بہت اچھا چل رہا ہے، خدا کا شکر ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ میں 10 مارچ سے تشہیر میں مصروف ہوں، تو اب 6 ہفتے تو ہو ہی گئے اور اب آخری ہفتہ باقی ہے۔ میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اور جو لوگ مجھے بتا رہے ہیں، اس میں لوگوں کا پیار، محبت اور حمایت صاف جھلک رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ لوگوں نے جس طرح تین مرتبہ مجھ پر بھروسہ کیا ہے، اسی طرح اس مرتبہ بھی بھروسہ کریں گے۔
پاریادانم (ملیالم میں تشہیر اور سیمی روڈ شو کے لئے استعمال ہونے والا لفظ) کافی بہتر چل رہا ہے۔ ہم گلیوں اور آبادی کے آس پاس کی سڑکوں سے گزرتے ہیں۔ کئی مرتبہ ہمارا وقت آخری مقام تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو جاتا ہے۔ میں پاریادانم کے آخر میں ان تمام مقامات پر جانے کی کوشش کروں گا جہاں ابھی تک نہیں پہنچ سکا ہوں۔ ہم اس انتخابی حلقہ کے ہر کونے تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ لوگوں کو یہ ظاہر کیا جا سکے کہ آپ ان سے ملنے آئے ہیں اور وہ آپ سے ملنے کے لئے آزاد ہیں۔ اس سے پارٹی کارکنان کا بھی حوصلہ دوبالا ہوتا ہے، کیونکہ وہی تو الیکشن اور سیاست کی جان ہیں۔
آپ کے بنیادی ووٹر کون ہیں اور وہ 15 سال کے بعد آپ سے کیا امید رکھتے ہیں؟
ہر کوئی میرا بنیادی ووٹر ہے۔ میں شروع میں تو اس لئے جیت درج کرتا رہا کہ ہر جنس، مذہب اور طبقہ کی حمایت میرے ساتھ رہی۔ قبائلی علاقہ میں میرے ووٹر ہیں، ٹیکنوپارک میں ہیں، ماہی گیر برادری میں ہیں اور تعلیم یافتہ اور اشرافیہ طبقہ میں بھی میرے ووٹر ہیں۔ اور جب میں منتخب ہو جاؤں گا تو یہ تمام میرے اپنے ہی رہیں گے۔ میں ہر کیس کا رکن پارلیمنٹ ہوں، لوگوں کی خدمت کرنا ہی میرا کام ہے۔
حریف جماعت کا ہونے کے باوجود وزیر اعلیٰ پی وجین نے بھی میرے کام کی ٹی وی پر آ کر تعریف کی تھی۔ حقیقت یہی ہے کہ ہر اچھے برے وقت میں لوگوں کے ساتھ ہوں۔ بحران کا وقت ہو یا پھر اوکھی طوفان کا وقت، میں ہر موقع پر موجود رہا۔ میں نے ساحلی علاقہ کے لوگوں کی آواز پارلیمنٹ میں بلند کی۔ میں نے سمندر کے کٹاؤ، ماہی گیروں کے ذریعہ معاش کا مسئلہ اٹھایا اور میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ کوئی دوسرا رکن پارلیمنٹ نہیں ہے جس نے ان مسائل کو اس طرح اٹھایا ہو۔
ظاہر ہے کہ بہتر تو تب ہوگا جب ہم اقتدار میں آئیں گے کیونکہ تب ہم حکومت سے مطالبہ کرنے کے بجائے بہت سی چیزیں خود ہی پوری کر سکیں گے۔ میرا پہلا ہدف یہاں سے جیت حاصل کرنا ہے لیکن اہم مقصد دہلی میں حکومت تبدیل کرنا اور مرکز میں ایک مزید انسانی، پرواہ کرنے والی اور شمولیت پر مبنی حکومت لانا ہے۔
آپ کے حریف راجیو چندر شیکھر کے حلف نامہ میں کئی غلطیاں ہیں اور ان کے خلاف شکایت بھی درج کرائی گئی ہے۔ لگتا ہے پورے سسٹم میں ہی خامیاں ہیں، آپ کا کہیں گے؟
کانگریس اور لیفٹ دنوں نے ہی اس مسئلہ کو اٹھایا ہے اور اب الیکشن کمیشن کو فیصلہ لینا ہے لیکن سسٹم میں جو بھی ہو، اس سے ان پر لوگوں کے بھروسہ میں کمی آئی ہے۔ ان جیسا آدمی کھاتوں میں ہیر پھیر کر کے ٹیکس ادا نہ کرنے کا کام کس طرح کر سکتا ہے؟ اس کا لوگوں پر کافی اثر ہوا ہے، کیونکہ یہاں تو ٹیکس دینے والے اور قانون پر عمل کرنے والے لوگ ہیں۔ اس لئے لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ تو ان کی طرح ہی خوشحال ہیں، پھر بھی مل کے ٹیکس میں کوئی تعاون نہیں کر رہے، جبکہ بی جے پی تو حب الوطنی اور نیشنلزم بکے نعرے لگاتے نہیں تھکتی۔
یہ تو صاف ہے کہ راجیو چندرشیکھر کو یہاں آپ کو نشانہ بنانے کے لئے بھیجا گیا ہے۔ ان کے پاس پوری مشینری ہے تو آپ کس طرح مقابلہ کر رہے ہیں؟
میں اس کا جواب نہیں دے پا رہا ہوں۔ مجھے تو اپنے اور اپنی پارٹی کے آزمائے ہوئے طریقوں پر بھروسہ ہے اور وہ ہے لوگوں کے درمیان جا کر ان سے مکالمیہ کرنا، ان کی بات سننا اور سمجھنا۔ ہو سکتا ہے وہ بہت زیادہ تشہیر کر رہے ہوں لیکن میں تو ہر گلی نکڑ پر لوگوں سے ملاقات کر رہا ہوں اور ہم دونوں میں یہی فرق ہے۔
کانگریس کے منشور پر آپ کی کیا رائے ہے؟ کون سا وعدہ ہے جو آپ کے خیال میں ووٹروں کو سب سے زیادہ متاثر کرے گا اور ان کے لیے اہم ہے؟
ہم نے نیائے (انصاف) کے ذریعے تمام مسائل کو سامنے رکھا ہے۔ اس میں نوجوان، خواتین، مزدور اور کسان اہم ایشوز ہیں۔ میرے حلقے کے بھی یہی ایشوز ہیں۔ کسانوں کی تعداد تھوڑی کم ہے لیکن باقی تمام مسائل یہیں ہیں۔ میں تقریباً ہر جگہ گیا ہوں، کارکنوں کے مسائل بہت اہم ہیں۔ نوجوانوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے کیونکہ آج نوجوانوں کو احساس ہے کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کے پاس کوئی امید نہیں ہے۔ خواتین کا مسئلہ ہے، جو کیرالہ میں بھی بہت اہم ہے۔ وہ یہاں کی آبادی میں اکثریت میں ہیں، اس لیے تمام مسائل اہم ہیں۔
دوسرا اہم معاملہ یہ ہے کہ ہم تمام عوام دشمن قوانین کو تبدیل کریں گے۔ مختصراً، میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے منشور نے ہمیں طاقت بخشی ہے۔ ہمارا تجربہ یہ رہا ہے کہ لوگ منشور چاہتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ لوگ اسے غور سے پڑھیں اور اس کی بنیاد پر ووٹ دیں، اس میں دیگر عوامل بھی شامل ہیں۔ لیکن اس بار ہمارا منشور عوام نے پڑھ لیا ہے اور یہ ایک بہت ہی موثر دستاویز ہے۔
کیا کوئی اور چیز تھی جسے آپ منشور میں شامل کرنا چاہتے تھے؟
میں خود منشور کمیٹی کا حصہ تھا، اس لیے پورا مسودہ میری نظر سے گزرا ہے۔ بعد ازاں ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں۔ میں ورکنگ کمیٹی کا ممبر بھی ہوں لیکن انتخابی مہم میں مصروف ہونے کی وجہ سے اس اجلاس میں شرکت نہیں کر سکا۔
کیرالہ کے لیے ایک مسئلہ اہم ہے اور وہ ہے سی اے اے اور یہ ہمارے منشور میں واضح ہے کہ کون سے قوانین کو واپس لیا جائے گا یا تبدیل کیا جائے گا۔ عام طور پر ہم ان تمام قوانین کو تبدیل کریں گے جو عوام دشمن ہیں۔
ایسا کیوں ہے کہ جنوب عام طور پر بی جے پی کی جارحیت اور موجودگی کو مسترد کرتا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی جنوب میں اپنا قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کے حالیہ دورے اس بات کا مظہر ہیں۔ انہوں نے 2019 میں بھی ایسا ہی کیا تھا، کیونکہ اب یہ واحد علاقہ رہ گیا ہے جہاں وہ پارٹی کو وسعت دینے کی امید رکھتے ہیں۔
لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ انہوں نے جنوب کے لیے کیا کیا ہے؟ پچھلے دس سال کے اقتدار میں بی جے پی نے صرف قومی اسکیموں کے علاوہ کیرالہ کے لئے کچھ نہیں کچھ نہیں کیا، جو بہرحال پورے ملک میں نافذ ہیں۔ اس نے کیرالہ سے تین وعدے کیے تھے اور تینوں کو توڑ دیا۔ انہوں نے کیرالہ کو نیشنل آیوروید یونیورسٹی دینے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ آج کہاں ہے، اسے گجرات میں بنا دیا گیا۔ میری درخواست پر 2015-16 کے بجٹ میں انہوں نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسپیچ اینڈ ہیئرنگ، ترواننت پورم کو نیشنل یونیورسٹی فار ڈس ایبلٹی اسٹڈیز میں تبدیل کرنے کی بات کی۔ پارلیمنٹ میں اس وعدے کے باوجود انہوں نے اسے شمال مشرق میں قائم کیا۔ ایسے میں کیرالہ کے لوگ ان پر کیسے بھروسہ کر سکتے ہیں؟
یہ سمجھنا ہوگا کہ جنوب میں مودی یا بی جے پی کی طرف کوئی جھکاؤ کیوں نہیں ہے۔ ہندوستان میں سرمایہ کاروں کی دلچسپی کئی پیرامیٹرز پر مبنی ہے، جن میں سماج کی کشادگی، تعلیم اور خواندگی کی سطح اور سماجی ہم آہنگی اہم ہیں۔ جنوب ان تمام محاذوں پر سرفہرست ہے۔
ہمارا معاشرہ ایک ایسے ماحول میں تیار ہوا ہے جہاں کئی دہائیوں میں سماجی اصلاحات ہوئی ہیں اور اس نے تینوں مذاہب، ہندو، مسلم اور عیسائی میں ایک نیا شہری شعور بیدار کیا ہے۔ یہاں خواندگی شمال کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ ہماری تاریخ بھی مختلف رہی ہے۔ مثال کے طور پر ہم نے صدیوں سے تمام مذاہب کے لوگوں کو خوش آمدید کہا ہے اور سب مل جل کر امن کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ لہٰذا، فرقہ پرستی، مذہبی تقسیم، تاریخ سے چھیڑ چھاڑ اور سماجی تبدیلیوں کی جس کی بی جے پی شمالی ہندوستان میں بات کرتی ہے وہ یہاں کام نہیں کریں گے۔ ترقی کا دعویٰ کرنے والی پارٹی کو معلوم ہونا چاہیے کہ حقیقی ترقی اسی علاقے میں ہوتی ہے، باقی صرف بی جے پی کا ایجنڈا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔