’میں پی ایم مودی پر اب بھی بھروسہ نہیں کرتا، انھوں نے بھروسہ کرنے والوں کو دھوکہ دیا‘
سنیوکت کسان مورچہ کے اہم لیڈر راکیش ٹکیت نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ وہ وزیر اعظم مودی کو دھوکہ باز مانتے ہیں اور ان کی کسی بھی بات پر بھروسہ نہیں کرتے۔
سوال: وزیر اعظم نریندر مودی نے جس طرح زرعی قوانین کو واپس لیا، ملک میں بحث شروع ہو گئی ہے کہ ایسا انھوں نے اتر پردیش اور پنجاب میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے مدنظر کیا، آپ کیا سوچتے ہیں؟
راکیش ٹکیت: مجھے حقیقی معنوں میں خوشی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ایسے تین سیاہ قوانین کی واپسی کا اعلان کیا جو کسی بھی طرح کسانوں کے حق میں نہیں تھے۔ یہ ہندوستانی کسانوں کی جیت ہے۔ ہم زراعت پر انحصار کرنے والے ملک ہیں۔ دیہی ہندوستان کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی کے لیے اس سے جڑی سرگرمیاں زندگی گزارنے کا اہم ذریعہ ہیں۔ یہ مزدوری کرنے والے تقریباً 52 فیصد لوگوں کو روزگار مہیا کراتی ہے۔ جی ڈی پی میں اس کی شراکت داری 14 سے 15 فیصد ہے۔ اس طرح سے کوئی بھی غلط فیصلہ زراعتی معیشت کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ایک بار یہ ڈھانچہ ہلا تو اس پر جو پورا ڈھانچہ کھڑا ہے، وہ بھی منہدم ہو جائے گا۔ اس پر کوئی بڑا ڈھانچہ بنانے کی جگہ اس کے موجودہ ڈھانچے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ یہ گر جائے گا۔
میں وزیر اعظم کے اعلان کی تعریف کرتا ہوں۔ کسانوں کے مسائل کو سمجھنے میں انھیں ایک سال لگ گیا۔ آخر میں یہ اہم ہے کہ کسانوں نے نصف لڑائی جیت لی ہے۔ انتخابات کے مدنظر مودی حکومت کے ذریعہ لیے گئے اس یو-ٹرن پر بحث ہونے دیجیے۔ ملک کے کسان نابینہ نہیں ہیں۔ بھلے ہی انتخابات کی وجہ سے زرعی قوانین پر یو-ٹرن لیا گیا ہو، انھوں نے دیکھا کہ حکومت نے ان کے ساتھ کیا کیا۔ مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے ساتھ جدوجہد کرتے ہوئے 700 کسانوں کی شہادت کو کسان بھول نہیں سکتے۔ وزیر اعظم کا اعلان اپنے وجود کو بچانے کے لیے کسانوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ یہ کسانوں... سبھی ہندوستانی کسانوں کی جیت ہے۔ مودی کا یو-ٹرن اشارہ دیتا ہے کہ ہم جمہوری ملک میں اب بھی سانس لے سکتے ہیں۔
سوال: تو اب آپ مودی کو بھروسے کے لائق وزیر اعظم کے طور پر دیکھتے ہیں؟
راکیش ٹکیت: وہ دھوکے باز ہیں۔ انھوں نے 15 لاکھ روپے دینے جیسے کئی وعدے عوام سے کیے لیکن کچھ نہیں ہوا۔ انھوں نے ان لوگوں کو دھوکہ دیا جنھوں نے ان پر بھروسہ کیا۔ میں اب بھی ان پر بھروسہ نہیں کرتا۔
سوال: مودی حکومت کے خلاف اس طرح کی بڑی جیت کے بعد کیا آپ یو پی سے انتخاب لڑنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں؟
راکیش ٹکیت: جیسا کہ میں نے کہا، ہم نے اپنی جدوجہد میں نصف راستہ ہی طے کیا ہے۔ میں کسانوں کے لیے جدوجہد کر کے خوش ہوں۔ ایم ایس پی، ڈیری کسان، گنا کسان، کھیتی کسانی کا پروڈکشن پرائس، سبسیڈی، کھیتی کے لیے بجلی اور آبپاشی جیسے کئی مسائل ہیں۔ ہم لوگوں کو کئی ایشوز دیکھنے ہوں گے۔ ان قوانین پر ہماری جدوجہد نے اشارہ دیا ہے کہ ’اتحاد‘ کی اہمیت ہے، اس لیے مستقبل کے لیے ہمارے منصوبے تیار ہیں۔ میں انتخاب نہیں لڑوں گا۔ میں میرٹھ یا وارانسی جیسے چھوٹے انتخابی حلقوں میں مودی سے جدوجہد نہیں کروں گا۔ میرا انتخابی حلقہ بڑا ہے۔ میں تب تک مودی سے ملک کے چوک چوراہے پر جدوجہد کرتا رہوں گا جب تک کسانوں کو ان کے حقوق نہیں دیئے جاتے اور حکومت کسانوں کے فائدے کے لیے منصوبے تیار نہیں کرتی۔
سوال: کیا زراعت ریاست کا بھی موضوع نہیں ہے؟ آپ کو کیا لگتا ہے، ریاستوں میں کیا خامیاں ہیں؟
راکیش ٹکیت: زرعی پالیسیاں مرکزی حکومت کے ذریعہ طے کی جاتی ہیں۔ اس لیے اس کی خامیوں کو ریاستی حکومتیں بھرتی ہیں۔ میں نے مطالبہ کیا ہے کہ کسانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے مرکز ایم ایس پی کی گارنٹی کا قانون لائے۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ جب نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، تب وہ ایم ایس پی کی گارنٹی کے حامی تھے اور کسانوں کے مفادات کی گارنٹی یقینی کرنے کے لیے قومی قانون بنانا چاہتے تھے۔ لیکن اب انھوں نے 360 ڈگری کا یو-ٹرن لے لیا ہے۔ اسی لیے میں انھیں دھوکہ باز کہتا ہوں۔
(یہ انٹرویو سنتوش گلاب کلی مشرا نے لیا ہے جو ’نوجیون ڈاٹ کام‘ پر شائع ہوا)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔