لاچارومجبورمسلم خواتین کو راحت :عارف محمد خان
تین طلاق پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی اہمیت کو اگر کوئی سب سے زیادہ سمجھ سکتا ہے تو وہ نام ہے عارف محمد خان۔ تین طلاق کے مدے پر عارف محمد خان نے نہ صرف اپنی وزارت چھوڑی بلکہ اپنی پوری سیاسی زندگی داؤ پر لگا دی۔ یہ وہ مدا ہے جس پر عارف محمد خان نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا ۔ سپریم کورٹ کے اہم فیصلے کے بعد ’قومی آواز‘ کے مدیر اعلی ظفر آغا نے عارف محمد خان سے گفتگو کی ۔ ’قومی آواز‘ کے قارئین کے لئے اس گفتگو کے اقتباسات پیش خدمت ہیں ۔
قومی آواز: تین طلاق معاملے میں سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے پر آپ کا بنیادی رد عمل کیا ہے۔
عارف محمد خان: یہ فیصلہ میرے لئے انتہائی اطمینان بخش ہے ۔ یہ میں اس لئے نہیں کہہ رہا ہوں کہ میں اس معاملے میں 1986سے آواز بلند کرتا رہا ہوں ۔ بلکہ مجھے اس بات پر اطمینان ہے کہ اس فیصلے سے مسلم سماج میں ایک انتہائی ظالمانہ طرز طلاق کا خاتمہ ہوگا جس کی شکار مجبور اور لا چار مسلم عورتیں تھیں۔ حد تو یہ تھی کہ جب وہ اس نا انصافی کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی تھیں تو وہاں سپریم کورٹ تک ان کی سنوائی نہیں ہو تی تھی۔ آج ان بے اسرا اور لاچار مسلم عورتوں کو سپریم کورٹ نے آواز دے دی، ان کو انصاف مل گیا مجھے اس بات پر اطمینان ہے۔
قومی آواز: آپ نے شاہ بانوکے وقت حکومت سے استعفیٰ دیا تھا ، آج آپ کی فکر سپریم کورٹ نے تسلیم کر لی اس بات پر خوشی تو ہو گی!
عارف محمد خان: ہر شخص کو اپنی کامیابی پر اطمینان تو محسوس ہوتا ہے۔ لیکن بات یہ نہیں ہے ۔ بات یہ کہ شاہ بانو کیس میں تین طلاق کا مسئلہ نہیں تھا۔ اس میں نان و نفقہ کا حق مسلم عورت کو ملے یا نہیں ، یہ معاملہ تھا ۔ اس وقت سپریم کورٹ نے یعنی 1986میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ مسلم عورت کو نان و نفقہ ملنا چاہیے ۔ اس کو رد کرنے کے لئے مسلم سماج نے حکومت پر دباؤ بنایا اور حکومت نے ایک مسلم وومن بل (Muslim Women Bill)پاس کیا جس کے بعد مسلم عورت کا طلاق کے بعد نان و نفقہ کا حق صلب ہو گیا۔بس اس وقت سے تین طلاق کی بحث مسلم معاشرے کے اندر اور مسلم معاشرے کے باہر شروع ہو گئی جو سپریم کورٹ فیصلے کے بعد تقریباً اپنی نہج کو پہنچ گئی۔
قومی آواز: آپ نے اپنی گفتگو کے دوران اکثر یہ بات کہی ہے کہ شاہ بانو کیس پر حکومت نے جو قانون بدلا اس فیصلے کے ردعمل میں فرقہ پرست طاقتوں کو جو طاقت ملی اس نے فرقہ پرستی کو عروج پر پہنچا دیا۔
عارف محمد خان: میں نے اس سلسلے میں کوئی غلط بیانی سے تو کام لیا نہیں ۔ آپ خود غور کیجیے Muslim Women Bill کے بعد فرقہ پرستی جس قدر بڑھی یہ سب جانتے ہیں اور یہ کوئی اتفاق نہیں۔ یہ بھی اتفاق نہیں کہ Shah Bano کافیصلہ اور Muslim Women Bill دونوں ہی 1986 میں واقع ہوئے اور بابری مسجد کا تالا بھی 1986 میں کھلا۔ یہ سب محض اتفاق نہیں۔
قومی آواز: عارف بھائی، کیا محض ایک فیصلہ مسلم سماج میں اصلاحات کا عمل پیدا کر سکتا ہے!
عارف محمد خان: آپ نے درست فرمایا کہ کسی ایک فیصلے سے مکمل سماجی تبدیلی ممکن نہیں۔ لیکن ایک مثبت شروعات تو ہوئی۔ آج مسلم عورت کو آواز تو ملی۔ اب وہ کم از کم عدالت کا دروازہ تو کھٹکھٹا سکتی ہے۔ کیا یہ تبدیلی یہیں رک جائے گی!
قومی آواز: میں پورے مسلم معاشرے میں اصلاحات کی ضرورت کی طرف اشارہ کر رہا تھا!
عارف محمد خان: ظفر صاحب یہ یاد رکھیے کہ سنہ 2017 سنہ 1986 نہیں ہے۔ اس وقت مسلم پرسنل لاء بورڈ نے سپریم کورٹ میں اس معاملے پر جو حلف نامہ پیش کیا اس میں یہ کہا کہ یہ ’طلاق بدعت‘ ہے اور اس کی تبدیلی خود کریں گے۔ یعنی پرسنل لاء بورڈ تک بدل گیا تو کیا مسلم سماج نہیں بدلا اور آئندہ کیا اور اصلاحات تسلیم نہیں کرے گا۔ وقت بدل گیا، مسلم معاشرہ بھی بدل رہا ہے، دیکھتے جائیے تبدیلی آئے گی۔
قومی آواز: قانونی طور پر آپ اس فیصلے سے کس قدر مطمئن ہیں؟
عارف محمد خان: قانونی نقطہ نگاہ سے بھی یہ انتہائی معتدل اور اطمینان بخش فیصلہ ہے۔ دیکھیے سپریم کورٹ میں اس مسئلہ پر بحث کے دوران تین باتیں زیر بحث آئی تھیں۔ اولاً مسلم پرسنل لاء بورڈ کا کہنا تھا کہ یہ آئینی معاملہ ہے اور اس میں تبدیلی کا اختیار محض پارلیمنٹ کو ہے۔ آج جو فیصلہ آیا ہے، اس میں سپریم کورٹ نے یہی کہا ہے کہ پارلیمنٹ اس معاملے پر چھ مہینے کے اندر ایک جامع قانون بنائے۔ یعنی جو پرسنل لاء بورڈ کہہ رہا تھا وہی سپریم کورٹ نے مان لیا اور معاملہ پارلیمنٹ کو بھیج دیا۔
دوسرا ایشو جو بہت سارے افراد نے اٹھایا تھا وہ یہ تھا کہ تین طلاق غیر آئینی ہے کیونکہ اس طرز طلاق سے عورت کے بنیادی حقوق کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ کیونکہ یہ کہاں کا انصاف ہو سکتا ہے کہ کسی معاملے میں دوسرے فریق کو کچھ کہنے کا حق ہی نہیں ہو اور فیصلہ سنا دیا جائے۔ اس دلیل کو بھی سپریم کورٹ نے تسلیم کیا اور اس طرز طلاق کو غیر آئینی قرار دے دیا۔
تیسرا نقطہ بحث جو میں نے سپریم کورٹ میں اٹھایا تھا اور دوسروں نے بھی اٹھایا، وہ یہ تھا کہ تین طلاق خود قرآن کی رو سے بھی غلط ہے۔ اس بات کو بھی ایک جج نے اپنے فیصلے میں تسلیم کر لیا۔
یعنی قانونی اعتبار سے یہ ایک بہت Sound Judgment ہے اور انتہائی اطمینان بخش ہے۔
قومی آواز: چلتے چلتے، آپ کو ذاتی طور پر اس بات پر کتنی خوشی ہے کہ آج آپ کی جدوجہد کامیاب ہوئی!
عارف محمد خان: میں بے حد خوش ہوں اس لیے کہ اس فیصلے نے معصوم اور بے زبان مسلم عورتوں کو زبان دے دی۔ اب وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی جرأت کر سکتی ہیں۔ میرے لیے یہ انتہائی پرمسرت موقع ہے اور میں اس کا خیر مقدم کرتا ہوں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 22 Aug 2017, 5:43 PM