انٹرویو — غالب اُردو کی طرح ہندی اور انگریزی داں طبقہ میں بھی مقبول: عبدالنصیب خان

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

تنویر احمد

گزشتہ دنوں حسن عبداللہ صاحب کی کتاب ’ایولیوشن آف غالب‘ کا اجراءہوا جس میں غالب کے 803 اشعار کا انگریزی ترجمہ موجود ہے۔ ان اشعار کا ترجمہ عبدالنصیب خان نے کیا ہے جو کہ سید عابد حسین جامعہ سینئر سیکنڈری اسکول کے پرنسپل ہیں اور ماڈرن اُردو شاعری کا انگریزی ترجمہ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ’قومی آواز‘ سے انھوں نے اس کتاب اور ترجمہ نگاری کے متعلق تفصیلی گفتگو کی۔ پیش ہیں اس گفتگو کے اہم اقتباسات:

سب سے پہلے تو آپ کو مبارکباد کہ ’ایولیوشن آف غالب‘ میں آپ نے غالب کے اشعار کا انگریزی میں بہت معیاری ترجمہ پیش کیا۔ میں آپ سے یہ جاننا چاہوں گا کہ اس کتاب کی تحریک کہاں سے ملی؟

بہت بہت شکریہ۔ دراصل یہ کتاب حسن صاحب کی غالب سے محبت کا ثبوت ہے۔ حسن صاحب نے تقریباً 6 یا 7 سال پہلے اس طرح کی کتاب شائع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور کئی بار مجھ سے اس کا تذکرہ بھی کیا تھا۔ انھوں نے خود مجھے بتایا تھا کہ غالب سے محبت انھیں وراثت میں ملی تھی کیونکہ ان کے والد جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایجوکیشن فیکلٹی میں پروفیسر تھے جس کے سبب شعری ادب سے ان کا سابقہ پڑتا رہتا تھا۔ حسن صاحب نے کئی بار اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ غالب کے شعر

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

نے مجھے متاثر کیا اور اس کو ہر طرح سے انھوں نے سمجھنے کی کوشش کی۔ دوستوں کے ساتھ اکثر اس شعر پر مباحثہ بھی کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ غالب کو سمجھنا چاہتے تھے لیکن سمجھ نہیں پاتے تھے۔ کچھ اشعار کی تشریح خود کی، کچھ اشعار کے معنی دوستوں کی مدد سے سمجھ سکے اور بقیہ کو سمجھنے کا تجسّس جاری رہا۔ کتاب ’ایولیوشن آف غالب‘ حسن عبداللہ کے اسی تجسّس کا نتیجہ ہے۔

’ایولیوشن آف غالب‘ کی خاص بات کیا ہے؟

اس کتاب میں غالب کے اشعار کو الگ الگ ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے جو اسے دیگر کتابوں سے مختلف بناتا ہے۔ اس کتاب میں موجود غالب کے اشعار کا انگریزی ترجمہ پڑھ کر انگریزی داں طبقہ سمجھ سکے گا کہ بیس سال کی عمر میں غالب کس طرح سوچتے تھے اور 20 سال کے بعد ان کی ذہنی پرواز کیسی تھی اور پھر ڈھلتی عمر میں انھوں نے کس طرح کا کلام پیش کیا۔ غالب کی شاعری کو ادوار کی مناسبت سے پڑھیں گے تو آپ کو اس بات کا بھی اندازہ ہوگا کہ بیس سال کی عمر میں انھوں نے ایک اچھے فلاسفر کی طرح شاعری کی، لیکن جب ان کا شعور پختہ ہو گیا اور ان کی عمر ڈھلنے لگی تو ان کے خیالات میں ایک طرح کا اضمحلال پیدا ہو گیا۔

یہ بات قابل غور ہے کہ صرف رائٹر ہی نہیں، کسی فلاسفر، پینٹر یا فائن آرٹسٹ کے فنون کا ادوار میں مطالعہ کریں گے یا جائزہ لیں گے تو آپ کے سامنے ایک الگ نظریہ اُبھر کر سامنے آ سکتا ہے یا آپ کا پرانا نظریہ متاثر ہو سکتا ہے۔ غالب کی شاعری کو ادوار میں پڑھ کر یقینا غالب سے نا آشنا ادب کے شیدائی محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔


حسن صاحب نے غالب کے اشعار کا ترجمہ کرنے کے لیے آپ کا انتخاب کس طرح کیا؟

’ایولیوشن آف غالب‘ کی اشاعت حسن صاحب روپا پبلی کیشن سے کرانا چاہتے تھے اور بطور مترجم انھوں نے پبلی کیشن کے سامنے میرا نام پیش کیا۔ دراصل اُردو شاعری کا انگریزی ترجمہ میں کرتا رہا ہوں اور میری پی ایچ ڈی کا موضوع بھی یہی تھا۔ حسن صاحب میری ان سرگرمیوں سے واقف تھے اور میں ان کا شکرگزار ہوں کہ انھوں نے مجھے اس گرانقدر کام میں شریک کیا۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں حسن عبداللہ کی کتاب ’ایولیوشن آف غالب‘ کے اجراء کا منظر

کتاب میں موجود سبھی اشعار کا ترجمہ آپ نے کیا ہے، اس میں کتنا وقت لگا؟

حسن عبداللہ صاحب اور روپا پبلی کیشن نے جب مجھے ترجمہ کی ذمہ داری سونپی تو میں انہماک کے ساتھ اس میں لگ گیا۔ کتاب میں کل 803 اشعار شامل ہیں اور جہاں تک میرا اندازہ ہے کہ اس کے ترجمہ میں تقریباً پانچ سے چھ مہینے لگے ہوں گے۔


غالب کے اشعار میں عربی و فارسی کے الفاظ اور مترادفات خوب ملتے ہیں، بطور مترجم آپ کو کس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا؟

ترجمہ بذات خود ایک مشکل فن ہے اور جب ترجمہ غزل کا ہو، اور وہ بھی غالب کی غزل کا تو مشکلات میں مزید اضافہ لازمی ہے۔ غالب کے یہاں موجود ترادف ترجمہ میں مشکل پیدا کرتے ہیں جو کہ تین طرح کے ہیں، پہلا تہذیبی ترادف، دوسرا لسانی ترادف اور تیسرا اسلوبی ترادف۔ میں شاعری کے انگریزی تراجم پہلے بھی کیے ہیں اور افسانوں کے تراجم بھی کیے ہیں لیکن غالب کے اشعار کا ترجمہ کافی محنت طلب رہا۔ میں آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتا ہوں، آپ غالب کا یہ شعر دیکھیں:

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کے تو کیا ہے

تم ہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے

اس شعر کے پہلے مصرع میں ’تم‘ بھی ہے اور ’تو‘ بھی ہے۔ انگریزی ترجمہ میں اس طرح کے ترادف مشکل پیدا کرتے ہیں اور اس طرح کے ترادف غالب کے اشعار میں کئی جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ترجمہ کے دوران میں نے یہ کوشش کی ہے کہ اشعار کے اصل معنی سے ہم دور نہ جائیں۔ دراصل مترجم کی سب سے بڑی دیانت داری بھی یہی ہے کہ اشعار کے اصل معنی کی ترسیل بہت اچھے ڈھنگ سے ہو۔

یہاں پر میں ایک بات کہنا چاہوں گا کہ اردو شاعری کا ترجمہ اور غالب کے اشعار کا ترجمہ بہت ہوا ہے۔ انگریزی زبان میں تو غالب کے تقریباً آٹھ دس کلیکشن موجود ہیں لیکن بغیر اُردو شعر کو سامنے رکھے ان کا انگریزی ترجمہ پڑھیں گے تو پتہ ہی نہیں چلے گا کہ یہ کس شعر کا ترجمہ ہے۔ ترجمہ نگاروں نے کہیں لفظی ترجمہ بھی کر دیا ہے اور کہیں کچھ زیادہ ہی آزادی اختیار کر لی ہے۔ دیانت دار مترجم کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ تشبیہ کو تشبیہ ہی رہنے دیں اور اشعار میں موجود اشاروں کو سمجھیں۔ ایسا وہی کر سکتا ہے جو شاعر کے حالات اور اس وقت کے ٹریڈیشن کو سمجھتا ہو۔ ویسےعام طور پر جو مترجمین ہیں انھوں نے ماڈرن اردو شاعری میں نظموں کے ترجمے کو ترجیح دی ہے۔ مثلاً حالی اور اقبال وغیرہ کی ایسی نظموں کو ترجمہ کے لیے منتخب کیا گیا جو آسان تھیں۔

کیا آپ کو نہیں لگتا کہ مشاعروں کے دلدادہ جدید دور کے نوجوان غالب جیسے کلاسیکی شاعروں سے دور ہوتے جا رہے ہیں؟

غالب کو تو سبھی پسند کرتے ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ غیر مسلم بھی اب انھیں پڑھنے لگے ہیں۔ لیکن جدید دور کے نوجوانوں کو میرا ایک مشورہ یہ ضرور ہے کہ آپ کے پاس جو لٹریچر موجود ہے، جو شاعری موجود ہے آپ اس کو بغور پڑھیں۔ حالی، اقبال فیض یا پھر اخترالایمان، ن م راشد وغیرہ سبھی کو پڑھیں کیونکہ اس سے ذہن وسیع ہوتا ہے اور سوچنے کا نظریہ بدل جاتا ہے۔ ساتھ ہی شاعری میں موجود غنائیت، تغزل اور موسیقیت پر گرفت مضبوط ہوتی ہے۔


803 اشعار جن کا ترجمہ ہوا ہے اس کے انتخاب کا پیمانہ کیا تھا؟

انتخاب تو میرا نہیں ہے، یہ پورا انتخاب حسن عبداللہ صاحب کا ہے۔ انھوں نے بنیادی طور پر ادوار کے مطابق غالب کے اشعار کا ترجمہ اس کتاب میں پیش کیا ہے۔ دراصل کالی داس رضا گپتا کا غالب کی غزلوں پر مشتمل ایک کلیکشن ہے جس سے اشعار کے انتخاب میں کافی استفادہ کیا گیا ہے۔ کبھی کبھی مصنّفین ایسے اشعار کا انتخاب کرتے ہیں جس سے وہ متاثر ہیں یا جو ان کے نظریات کی پاسداری کرتا ہے، مجھے لگتا ہے کہ ’ایولیوشن آف غالب‘ میں شامل اشعار اس کے بھی محرک ہوں گے۔

اُردو میں موجود شعری ادب کا ترجمہ آپ کی نظر میں کتنی اہمیت کی حامل ہے؟

دیکھیے، ترجمہ نگاری ایک ایسا فن ہے جس نے نئے قاری کو جنم دیا ہے۔ آج اگر ادبی کینوس پر اُردو چمک رہی ہے تو وہ ترجمہ کی وجہ سے۔ اگر میں یہاں یہ کہوں کہ غالب کے اشعار کے انگریزی تراجم نے غالب کو عالمی پہچان عطا کی تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ غالب آج اُردو داں طبقہ کی طرح ہی ہندی داں طبقہ میں بھی مقبول ہیں، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کی غزلیں اور نظمیں ہندی زبان میں شائع ہو چکی ہیں۔ ہاں، مترجمین کو اس بات کاخیال ضرور رکھنا چاہیے کہ ترجمہ چاہے جس فن کا ہو، اس کی روح باقی رہنی چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 29 Jan 2018, 1:09 AM