خصوصی انٹرویو: ’یہ تو شروعات ہے، اب خود کو ثابت کرنا سب سے بڑا چیلنج‘، نومنتخب رکن پارلیمنٹ اقرا حسن
کیرانہ سے بی جے پی امیدوار پردیپ چودھری کے لیے پی ایم مودی کے ساتھ ساتھ دو ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور کئی مرکزی وزراء نے بھی انتخابی تشہیر کی، لیکن اقرا حسن کو وہ شکست نہیں دے پائے۔
اقرا حسن کیرانہ کے سابق رکن پارلیمنٹ منور حسن اور تبسم حسن کی بیٹی ہیں۔ اتر پردیش میں اس مرتبہ کئی نوجوان رکن پارلیمنٹ بنے ہیں، ان میں اقرا حسن کا نام انتہائی اہم ہے۔ انھوں نے کیرانہ پارلیمانی حلقہ سے بی جے پی کے سابق رکن پارلیمنٹ پردیپ چودھری کو شکست فاش دی۔ پردیپ چودھری کے لیے نہ صرف وزیر اعظم نریندر مودی، بلکہ دو ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور کئی مرکزی وزراء نے بھی انتخابی تشہیر کی، لیکن اقرا حسن کو وہ شکست نہیں دے پائے۔ 29 سالہ اقرا نے اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت ’قومی آواز‘ کے نمائندہ کو دیا۔ پیش ہیں اس گفتگو کے اہم اقتباسات...
آپ کو جیت کی مبارکباد۔ یہ کامیابی ایک مثال ہے۔ کیا آپ کو اپنی شکست کا خدشہ تھا؟
آپ کا شکریہ۔ انتخابی نتائج آنے سے پہلے کوئی بھی پوری طرح ہار یا جیت کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ لیکن میں پُرامید تھی کہ ہم جیت رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ ہمیں 36 قوموں کی حمایت مل رہی تھی۔ میں نے سیاست میں یہی سیکھا ہے کہ جنھیں 36 قوموں کی حمایت ملتی ہے، وہ انتخاب میں نہیں ہارتے۔ میں انتخاب لڑنے کے لیے ایک سال سے کوشاں تھی۔ سچ کہوں تو جب آر ایل ڈی اور سماجوادی پارٹی کا اتحاد ٹوٹ گیا تو بہت مایوسی ہوئی تھی۔ لیکن کیرانہ میں کسانوں کا اتحاد سب سے مضبوط رہا۔ یہاں کمیرا طبقہ پوری طرح متحد ہرا۔
خبر ہے کہ خواتین نے آپ کو متحد ہو کر ووٹ دیا۔ بی جے پی کی حمایت والے علاقوں سے ووٹ ملنا اس کا ثبوت ہے۔
کیرانہ جیسا دہلی سے نظر آتا ہے، ویسا ہے نہیں! کیرانہ کو لے کر جس طرح کے پروپیگنڈے تیار کیے گئے ہیں، جس طرح اسے بدنام کیا گیا ہے، وہ غلط ہے۔ یہاں باہر کے لوگ آگ کر فرقہ پرستی کو فروغ دیتے ہیں۔ ہجرت جیسی جھوٹی کہانی سنائی جاتی ہے۔ کیرانہ میں زراعت، کسانی سے لے کر تمام ایشوز عوام کے اجتماعی ایشوز ہیں۔ خواتین ہی نہیں، مجھے سبھی طبقات نے ووٹ دیا ہے۔ میری انتخابی تشہیر کے دوران خصوصاً لڑکیوں میں بہت جوش و خروش دکھائی دے رہا تھا۔ تشہیر کے دوران جاٹ اکثریتی ایک گاؤں نالا میں خواتین نے جس طرح میرے لیے محبت اور اپنائیت کا مظاہرہ کیا تھا، اس کے بعد مجھے یقین ہو گیا تھا کہ قوتِ نسواں میری کشتی کو پار لگانے جا رہی ہے۔ خاص طور سے سبھی طبقات کی میری بہنوں کی حمایت شاندار رہی۔
کیا نوجوان طبقہ کی ان قوتِ نسواں یعنی ہماری بہنوں کے لیے کوئی مثبت منصوبہ بھی آپ کے ذہن میں ہے؟
لڑکیوں میں بے پناہ قابلیت ہوتی ہے۔ میری جیت انھیں اپنی جیت محسوس ہو رہی ہے۔ اس سے ان میں اعتماد بڑھا ہے۔ مجھے انھوں نے ہی کامیاب بنایا ہے۔ ان کے لیے جو کچھ بھی میں کر سکتی ہوں وہ ہمیشہ میری ترجیح رہے گی۔ خاص طور سے میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کرنا چاہوں گی۔ میں لندن سے تعلیم حاصل کر ہندوستان آئی ہوں، لڑکیاں یہ بات کئی بار مجھ سے پوچھتی ہیں۔ میں چاہوں گی کہ یہاں سینکڑوں لڑکیوں کو لندن تعلیم حاصل کرنے کے لیے جانے کا راستہ ہموار ہو۔
ریاست اور مرکز میں آپ کی مخالف پارٹی بی جے پی کی حکومت ہے۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے آپ کو شکست دینے کے لیے علاقہ میں چار انتخابی جلسے کیے تھے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ حکومت آپ کی مدد کرے گی؟
ہمارے انتخاب جیتنے کے بعد 100 سے زیادہ حامیوں پر کیرانہ اور سہارنپور میں مقدمے درج کیے گئے، جبکہ ہمارے حامیوں نے کوئی جلوس نہیں نکالا، کوئی ہنگامہ نہیں کیا۔ پولیس ساتھ میں تھی اور شکریہ بھی رہائش پر جا کر ادا کیا۔ حوصلہ کو توڑنے والی اس سازش سے ہم واقف ہیں۔ دو سال سے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور برداشت کر رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر تھوڑا شبہ تو ہوتا ہے، لیکن لڑائی پارلیمنٹ میں لڑی جائے گی۔ میرے دادا، والد اور والدہ تینوں پارلیمنٹ میں رہ چکے ہیں، اس لیے بہت سارے طریقوں سے میں بھی واقف ہوں۔ این ڈی اے اتحاد کی حکومت اس بار کمزور ہے اور انڈیا اتحاد نے اب بھی امیدیں باندھ رکھی ہیں۔ ریاستی حکومت نے 2027 میں بدلنے جا رہی ہے۔ عوام کا ذہن بدل گیا ہے، بس ابھی تھوڑا صبر کی ضرورت ہے۔
رکن پارلیمنٹ بننے کے بعد آپ کی ترجیح کیا رہے گی؟ ایوان میں کس طرح کے سوالات آپ اٹھانے جا رہی ہیں؟
سب سے پہلے میں گنّے کی بقایہ ادائیگی پر بات کرنے جا رہی ہوں۔ یہاں تین ماہ تک دھرنا ہوتا رہا، سبھی ذات اور طبقہ کے لوگ اس سے متاثر ہیں۔ ہمارے یہاں کسان گنّے کی زراعت پر کافی منحصر ہیں۔ پیسے کی ادائیگی اب بھی رکی ہوئی ہے۔ بغیر فنڈ اور معاہدہ والے ٹیچر بہت پریشان ہیں، لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے کالج کی ضرورت ہے۔ کیرانہ کے لیے ایک منڈی کا مطالبہ بھی بہت اہم معاملہ ہے۔ یہ سبھی باتیں پارلیمنٹ میں رکھنے کا ارادہ ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔