سال 2018 : دنیا میں کہیں اقتدار بدلا تو کہیں عوام نے حکومت کو سرنگوں کیا
پوری دنیا میں سال 2018 سیاست سے لے کر اقتصادی اور سماجی سطح پر کئی طرح کے نشیب و فراز سے بھرا رہا۔ ایک جانب شمالی اور جنوبی کوریا کے رشتے بہتر ہوئے تو ٹرمپ کی ضد نے رخنات پیدا کیے۔
سال 2018 بین الاقوامی سطح پر اتھل پتھل بھرا رہا۔ سیاسی سے لے کر اقتصادی اور سماجی سطح پر سال بھر کئی طرح کے نشیب و فراز دیکھنے کو ملے۔ برطانیہ میں بریکزٹ کو لے کر تھیریسا کو عدم اعتماد تجویز کا سامنا کرنا پڑا تو پٹرول و ڈیزل پر ٹیکس بڑھنے سے فرانس میں مظاہرے ہوئے۔ ایک جانب شمال اور جنوبی کوریا کے رشتے بہتر ہوئے تو ٹرمپ کی ضد نے کئی طرح کے رخنات پید اکیے۔ پاکستان میں اقتدار کی باگ ڈور عمران خان نے سبھالی تو جمال خشوگی کے قتل نے سعودی عرب حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔
سال 2018 کے شروع میں ہی مالدیپ میں ایمرجنسی کا اعلان ہوا۔ فروری میں اس وقت کے صدر عبداللہ یامین نے ملک میں 15 دنوں کے ایمرجنسی کا اعلان کیا۔ سیاسی قیدیوں کو آزاد کرنے کے سپریم کورٹ کے حکم کو یامین نے ماننے سے انکار کر دیا، جس کے بعد بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر اتر آئے۔ اس وجہ سے ملک میں ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا۔ کئی ممالک کی مخالفت کے بعد 22 مارچ 2018 کو ایمرجنسی ختم ہونے کا اعلان ہوا۔ بعد میں انتخابات ہوئے جس میں یامین کی جگہ ابراہیم محمد صالح ملک کے نئے صدر بنے۔
پڑوسی ملک پاکستان میں 25 جولائی کو پارلیمانی انتخابات میں عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف پارٹی (پی ٹی آئی) نے فتح حاصل کی اور وہ ملک کے نئے وزیر اعظم بنے۔ ہندوستان-پاکستان تعلقات میں نرمی لانے کے لحاظ سے عمران نے کرتار پور کوریڈور کھولنے کا اعلان کیا۔ کرتار پور کوریڈور کھولنے کی وجہ سے دونوں ممالک کے رشتوں میں بہتری کی امید جاگی ہے۔ یہ سال نواز شریف کے لیے مشکل بھرا رہا۔ انھیں بدعنوانی کے معاملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک معاملے میں انھیں 10 سال کی سزا سنائی گئی۔ ساتھ ہی انھیں انتخابات لڑنے کے لیے نااہل بھی قرار دیا گیا۔
اس سال برطانیہ میں بریکزٹ کے معاملے پر وزیر اعظم تھریسا مے کی مشکلیں بڑھیں۔ پارلیمنٹ میں ان کے خلاف عدم اعتماد کی تجویز لائی گئی۔ حالانکہ وہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں، لیکن ان کی ہی پارٹی کے ایک تہائی سے زیادہ اراکین پارلیمنٹ کا ان کے خلاف کھڑے ہونا ایک چیلنج بن کر سامنے آیا۔
دہائیوں تک ایک دوسرے کے سخت گیر دشمن رہے جنوبی اور شمالی کوریا کے رشتوں میں اس سال نرمی نظر آئی۔ کم جونگ نے شمالی کوریا کا دورہ کیا تو جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن بھی پیونگ یانگ گئے۔ اس سال کم جونگ اور ٹرمپ کی زبانی جنگ نے بھی خوب سرخیاں بٹوریں۔ ایک دوسرے پر الزامات در الزامات کا دور بھی تھما اور دونوں لیڈروں نے سنگا پور میں ملاقات کی۔
امریکی صدر ٹرمپ اس پورے سال دنیا کے لیے سر درد بنے رہے۔ اوباما دور میں ہوئے ایرانی نیوکلیائی معاہدہ سے امریکہ کو الگ کرنے سے لے کر ایران پر یکطرفہ سخت پابندی لگانے، سیریا سے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے، روس سمیت کئی ممالک پر پابندی عائد کرنے، دہائیوں پرانی روایت کو توڑ کر اسرائیل کے یروشلم میں امریکی سفارت خانہ کھولنے، یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی کے طور پر منظوری دینے جیسے تمام فیصلوں سے انھوں نے اختلافات کو بڑھایا۔
فرانس میں پٹرول، ڈیزل پر ٹیکس بڑھانے سے لے کر کئی دیگر ایشوز پر ملک میں پرتشدد مظاہرے ہوئے۔ ’یلو ویسٹ‘ نام کے مظاہرہ کو ملک بھر سے وسیع حمایت ملی۔ اسی کا نتیجہ رہا کہ صدر ایمینوئل میکرون کو کم از کم تنخواہ اضافہ اور ٹیکس میں چھوٹ سمیت کئی اعلانات کرنے پڑے۔
ترکی میں سعودی عرب کے کمرشیل سفارتخانہ میں صحافی جمال خاشقجی کے منصوبہ بند قتل سے سعودی عرب حکومت کٹہرے میں کھڑی نظر آئی۔ اس قتل میں سعودی کے کراؤن پرنس محمد بن سلمان کا ہاتھ ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔
اس سال کے آخری مہینوں میں سری لنکا کے صدر میتریپالا سریسینا نے ڈرامائی انداز سے وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے کو ان کے عہدہ سے برخاست کر دیا اور مہندا راج پکشے کو ملک کا نیا وزیر اعظم مقرر کر دیا۔ وکرما سنگھے نے راجپکشے کو وزیر اعظم ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد معاملہ سپریم کورٹ پہنچا اور 13 دسمبر کو سپریم کورٹ نے سریسینا کی جانب سے پارلیمنٹ تحلیل کرنے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ 16 دسمبر کو رانیل وکرما سنگھے کی ملک کے وزیر اعظم عہدہ پر واپسی ہوئی۔
2018 میں ہی البانیہ میں مہنگی ہوتی تعلیم کو لے کر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ طلبا اور عام لوگ یونیورسٹی کی ٹیوشن فیس سستی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے نظر آئے۔ مظاہروں کی شروعات راجدھانی ترانہ سے ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے دوسرے شہروں میں بھی حکومت مخالف نعرے گونجنے لگے۔ ملک میں وزیر اعظم ایدی رما کی پالیسیوں کے خلاف پہلے سے ہی عدم اطمینان تھا۔ غریبی اور مہنگے پٹرول نے لوگوں کا جینا دشوار کر دیا۔
سربیا کی راجدھانی بیلگراڈ میں اس سال ہزاروں لوگوں نے سیٹی اور ہارن بجا کر حکومت کے تئیں اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے نظر آئے۔ ملک میں مظاہرے کی شروعات سربین لیفٹ پارٹی کے سربراہ بورکو اسٹیفانووچ پر ہوئے حملے کے بعد ہوئی۔ اس سال نومبر کے آخر میں کالی قمیض پہنے ایک شخص نے اسٹیفانووچ پر لوہے کی راڈ سے حملہ کیا تھا جس میں وہ بری طرح سے زخمی ہو گئے تھے۔ صدر الیکزنڈر نے اس حملے کی مذمت کی تھی، لیکن اس حملے کی شک کی سوئی حکومت پر رہی، جس کے بعد ملک بھر میں مظاہرہ ہوئے۔
مجموعی طور پر سال 2018 میں پوری دنیا میں اتھل پتھل رہا۔ کئی مقامات پر حکومت بدلی تو کئی مقامات پر حکومتوں کو زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ خاص بات یہ رہی کہ دنیا بھر کے کئی ممالک میں حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف ہوئے احتجاجی مظاہروں کے آگے حکومتوں کو جھکنا پڑا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔