آزادی اظہار اور جمہوریت کہاں مر گئی!

احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف حکومت کی سرپرستی میں امریکی پولیس کے تشدد آمیز اور وحشیانہ رویے نے مغربی ممالک کا حقیقی چہرہ عیاں کر دیا ہے

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

نواب علی اختر

امریکہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک کی یونیورسٹیوں میں اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کے حق میں اٹھنے والی آواز کے درمیان یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ عالمی ضمیر بیدار اور عالمی سطح پر انتفاضہ اور انقلاب شعلہ ور ہو چکا ہے۔ احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف حکومت کی سرپرستی میں امریکی پولیس کے تشدد آمیز اور وحشیانہ رویے نے مغربی ممالک کا حقیقی چہرہ عیاں کر دیا ہے اور ان مغرب نواز حلقوں کی قلعی بھی کھول دی ہے جو اسلامی معاشروں میں مغربی دنیا کو انتہائی خوبصورت کر کے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت ہم ان سے یہ اہم سوال پوچھ سکتے ہیں کہ وہ آزادی اظہار اور جمہوریت جس کا آپ دن رات ڈھنڈورا پیٹتے تھے، آج کہاں مر گئی ہے؟

مختصر یہ کہ اقوام عالم کی بیداری، امریکہ اور اسرائیل کی سربراہی میں عالمی سامراجی نظام کو نیست و نابود کر ڈالے گی۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اسرائیل ،امریکہ اور مغربی ممالک کے آشیرواد سے غزہ کی پٹی میں مظلوم فلسطینیوں کا وحشیانہ قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اس ظلم و ستم کی شدت اور وسعت بیان کرنے کے لیے نسل کشی کی اصطلاح بروئے کار لانا بھی کافی نہیں ہے۔ غزہ کی پٹی میں روزآنہ ایسے مجرمانہ اقدامات منظر عام پر آتے ہیں جنہیں دیکھ کر انسانیت شرمسار ہو جاتی ہے اور ہم ہر روز غزہ کے خان یونس کے الشفاء اور ناصر اسپتال کے احاطے میں اجتماعی قبریں منکشف ہونے جیسی لرزہ خیز خبریں سن کر اٹھتے ہیں۔

ان اجتماعی قبروں سے ملنے والی لاشوں کا معائنہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ انہیں بدترین ٹارچر کے ذریعے شہید کیا گیا تھا جبکہ سب سے زیادہ افسوسناک خبر یہ ملی کہ ان میں سے کچھ کو زندہ دفن کر دیا گیا تھا۔ مغربی سامراجی ممالک کے زیر تسلط طاقتیں کھلم کھلا ان مجرمانہ اور وحشیانہ اقدامات کی حمایت کرنے میں مصروف ہیں جن کی مثال تاریخ بشریت میں نہیں ملتی۔ جبکہ کچھ ایسے ممالک بھی پائے جاتے ہیں جو اس بربریت اور قتل عام کو روکنے کے لیے طاقت کے استعمال کے بارے میں حتی سوچتے بھی نہیں ہیں اور حتی اس کے خلاف واضح موقف اپنانے سے بھی کتراتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان ممالک کے سربراہان ظلم اور جرم کو برا کہنا بھی نہیں چاہتے لیکن آج عالمی ضمیر بیدار ہو چکا ہے اور عالمی انقلاب شعلہ ور ہو گیا ہے۔

دنیا کے تمام انسانوں کے لئے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو چکی ہے کہ مغربی تہذیب جس آزادی اظہار کے نام پر ان کے دل موہ لینے کی کوشش کر رہی تھی وہ درحقیقت اندر سے انتہائی کریہہ اور کھوکھلی ہے۔ اسی طرح یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جس عالمی نظام کو ’بشریت کا آئیڈیل ورلڈ آرڈر‘ کہا جاتا تھا وہ انتہائی درجہ دوغلا اور منافق نظام ہے جو دوغلے معیاروں پر استوار ہے۔ اس کے خوبصورت نعرے جنہیں مغربی حکومتیں اپنی اقدار قرار دیتی ہیں اور ان کی بنیاد پر لمبے چوڑے دعوے کرتی ہیں جیسے انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، بچوں کے حقوق، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم وغیرہ، دنیا میں اپنی مانگ بڑھانے کے محض ہتھکنڈے ہیں اور جب مسلمانوں اور تیسری دنیا کی بات آتی ہے تو ان کا کھوکھلاپن اور منافقت واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔


سامراجی ممالک نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے نعرے صرف سیاسی مفادات کے حصول کا ایک ذریعہ ہیں لہذا غزہ جنگ کے بعد مغربی ممالک اور ان کے حامیوں کا اصل چہرہ عیاں ہو گیا ہے۔ یہ حقیقت بھی واضح ہو گئی ہے کہ مغرب کی جانب سے پیش کئے گئے تصورات کا مقصد انسانیت نہیں تھا بلکہ شروع سے ہی اپنے مفادات کا حصول تھا۔عالمی انقلاب کی آگ تو اس وقت ہی جل اٹھی تھی جب اسرائیل کے فوجیوں نے بلڈوزر کے ذریعے 16 مارچ 2003ءکے دن غزہ کے جنوبی شہر رفح میں خاتون صحافی راچل کورے کو اپنے تلے کچل دیا تھا اور یہ آگ آج پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ آج ہم غزہ کی پٹی میں صیہونی فوجیوں کے ہاتھوں بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام کی مذمت کرنے کے لیے امریکی یونیورسٹیوں میں طلبہ کی احتجاجی تحریک کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

کولمبیا یونیورسٹی سے شروع ہونے والا یہ احتجاجی سلسلہ آج نہ صرف پورے امریکہ بلکہ فرانس، برطانیہ اور جرمنی تک پھیل چکا ہے۔ ان تمام مغربی ممالک میں یونیورسٹی طلبہ اسرائیل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ ان مغربی ممالک میں پولیس اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف طاقت کا کھلا استعمال جاری ہے لیکن اس کے باوجود یہ یونیورسٹی طلبہ نے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت اور وہاں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف بھرپور احتجاجی مہم کا آغاز کر رکھا ہے۔

انسانی حقوق اورآزادی اظہار کے خود ساختہ علمبردارامریکہ کی متعدد یونیورسٹی میں داخل ہوکر پولیس نے جس طرح فلسطین کے حق میں مظاہرے کرنے والے طلبہ کو گرفتار کیا، وہ مناظر دنیا نے دیکھے۔ یہ جامعات میں مہینوں سے جاری کریک ڈاون کے بعد سخت نگرانی اور سینسر شپ میں اضافہ تھا۔ اس کریک ڈاون میں مشاعروں پر پابندی، طلبہ اور فیکلٹی کے خلاف سوشل میڈیا مہمات، یونیورسٹی صدور کی برطرفی اور فلسطین کی حمایت کرنے والے طلبہ گروہوں کی معطلی شامل ہے۔ بڑی تعداد میں طلبہ کی گرفتاری نے امریکی جامعات میںآزادی اظہار کی ایک اور تحریک کو جنم دیا ہے ۔طلبہ کی گرفتاری کی تصاویرنوجوانوں کو رومانوی انداز میں متاثر کررہی ہیں جو ایک اشارہ ہے کہ ایک ایسی نسل جسے معلومات سے عاری اور غیرسیاسی سمجھا جاتا ہے، درحقیقت وہ بھی اب انصاف کے لیے لڑنے کو تیار ہے۔

طلبہ کو احتجاج کا حق حاصل ہے، اس پر دنیا بھر سے ان کی حمایت میں آوازیں اٹھ رہی ہیں اور یاد کیا جارہا ہے کہ ماضی میں کس طرح طلبہ تحریکوں نے ویتنام جنگ سے لے کر جنوبی افریقی نسل پرستی کے خاتمے میں اپنا مثبت اور سرگرم کردار ادا کیا۔ لیکن جب بات تحریکوں کی آتی ہے تو کچھ بھی اتنا آسان نہیں ہوتا جیسا ہمیں نظر آتا ہے۔آزادی اظہار اور جمہوریت کے حامیوں کو موجودہ صورت حال پر فکرمند ہونا چاہیے۔ کریک ڈاون سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کس طرح پرامن مظاہروں کو بھی خلل، نفرت انگیز اور تشدد کا خطرہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔ جہاں ایک جانب اس طرح کی مثالیں قائم کی جارہی ہیں وہیں دوسری جانب امکان ہے کہ پابندیوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور یہ صرف امریکی یونیورسٹیز تک محدود نہیں رہے گا۔


ان مظاہروں کی کامیابی کے پیچھے ایک کلیدی وجہ ان کا مقامی صورتحال سے مطابقت رکھنا ہے۔ اسرائیل سے جنگ بندی یا دو ریاستی حل پر مہم چلانے کے بجائے ہر یونیورسٹی کے طلبہ مخصوص مطالبات کررہے ہیں جیسے ان کمپنیوں سے لاتعلقی اختیار کی جائے جو اسرائیلی افواج کو اسلحہ فراہم کررہی ہیں اور وہ لوگ جو اس جنگ سے منافع کما رہے ہیں۔ انہوں نے بڑھتی ہوئی شفافیت کے اعتبار سے اپنے مطالبات بھی ترتیب دیے ہیں۔ایسی صورت میں دنیا بھر کے آمریت پسند امریکہ سے سبق لے رہے ہیں کہ اپنے خلاف اٹھنے والی تنقیدی آوازوں کو موثر انداز میں کس طرح دبایا جائے۔ چھوٹے پیمانے پرآغاز کریں، سب سے پہلے ایک بیانیہ بنائیے، اس پر اپنی گرفت مضبوط کریں، مخالفین کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر ان کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کریں اور پھر ان کے پیچھے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لگا دیں۔

احتجاجی طلباءکے ساتھ کریک ڈاون نے امریکہ سمیت تمام انسانی حقوق کے نام نہادعلمبرداروںکے قول وفعل میں تضاد کو عیاں کردیا ہے۔ انسانی حقوق ، خواتین کے حقوق ، سوچ اور بیان کی آزادی جیسے تمام تصورات کو اسلامی ممالک اور تیسری دنیا کے ممالک پر دباو ڈالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن جب اسرائیل کے مظالم یا عالمی نظام کی بات آتی ہے تو ان تمام خوبصورت تصورات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے اور ان کی کوئی حیثیت تسلیم نہیں کی جاتی۔ حالات تویہی بتاتے ہیں کہ بہت جلد امریکہ سے شروع ہونے والا یہ نیا انقلاب پوری دنیا میں پھیل جائے گا اور اقوام عالم کی بیداری ایک عالمی انقلاب میں تبدیل ہو جائے گی جس کے نتیجے میں ظالم اور ان کی حامی بڑی طاقتوں کا تاج و تخت ملیا میٹ ہو کر رہ جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔