سری لنکا میں اقتصادی بحران اور تختہ پلٹ کے بعد پہلی بار صدارتی انتخاب کے لیے ووٹنگ

صدارتی انتخاب کے لیے 38 امیدوار میدان میں ہیں جس میں اہم مقابلہ موجودہ صدر رانل وکرما سنگھے، اپوزیشن رہنما سازتھ پریم داسا اور بائیں بازو کے رہنما انورا کمارا دسانائکے کے درمیان ہے

سری لنکا، تصویر آئی اے این ایس
سری لنکا، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

سری لنکا میں ہفتہ کی صبح 7 بجے سے صدارتی انتخاب کے لیے ووٹنگ شروع ہوگئی۔ ملک کے لیے یہ کافی اہم دن ہے کیونکہ 2022 میں اقتصادی بحران اور تختہ پلٹ کے بعد یہ پہلا عام انتخاب ہے۔ صدارتی انتخاب کے لیے 38 امیدوار میدان میں ہیں جس میں اہم مقابلہ موجودہ صدر رانل وکرما سنگھے، اپوزیشن رہنما سازتھ پریم داسا اور بائیں بازو کے رہنما انورا کمارا دسانائکے کے درمیان ہے۔

صبح 7 بجے سے شام 5 بجے تک 13400 سے زیادہ پولنگ مراکز پر ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اس انتخاب میں 1.7 کروڑ رجسٹرڈ ووٹر ووٹنگ کے اہل ہیں۔ انتخاب کے لیے 200000 سے زیادہ افسران کو تعینات کیا گیا ہے جن کا تحفظ 63000 پولیس ملازمین کے ذریعہ کی جائے گی۔ انتخابی نتائج کا اعلان اتوار کو کیا جائے گا۔ سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ 1982 کے بعد سے سری لنکا کے صدارتی انتخابات کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سہ رکنی مقابلہ ہو رہا ہے۔


موجودہ صدر رانل وکرما سنگھے (75) ملک کو اقتصادی بحران سے باہر نکالنے کی اپنی کوششوں کی کامیابی کی بنیاد پر ایک آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب میں اترے ہیں۔ رانل وکرما سنگھے نے سنگین مالی بحران کی وجہ سے ہوئے زبردست مظاہرے کے درمیان اس وقت کے صدر گوٹبایا راجپکشے کو استعفیٰ دینے اور ملک چھوڑنے کے مجبور ہونے کے بعد 2022 میں عہدہ سنبھالا تھا۔ انہوں نے غیر معمولی اقتصادی بحران کے دوران سری لنکا کی قیادت کی اور ملک میں اقتصادی اصلاحات کیے۔ ساتھ ہی آئی ایم ایف سے راحت پیکیج بھی حاصل کیا۔

 دوسرے امیدوار ساجتھ پریم داسا کو صدر کے عہدے کی دور میں سب سے آگے مانا جا رہا ہے۔ وہ سماگی جن بال ویگیا (ایس جے بی) کے موجودہ اپوزیشن رہنما ہیں۔ سابق صدر رن سنگھے پریم داسا کے بیٹے ہیں۔ انہوں نے بدعنوانی پر قابو پانے کا وعدہ کیا ہے۔


تیسرے اہم امیدوار 55 سالہ انورا دسانائیکے ہیں جن کے پاس پارلیمنٹ میں صرف 3 سیٹیں ہیں۔ وہ بدعنوانی مخالف سخت اقدامات کے حامی ہیں اور غریبوں کے حق سے متعلق پالیسیوں کی وجہ سے کافی مقبول ہیں۔ دسانائکے نیشنل پیپلز پاور یا این پی پی اتحاد کے تحت انتخاب لڑیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔