افغانوں کے لیے امریکی ویزا پروگرام تعطل کا شکار
امریکہ کے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کے لیے امریکی خصوصی تارکین وطن ویزا پروگرام کے تحت صرف 7 ہزار ویزے رہ گئے ہیں جبکہ غیر یقینی اور عدم تحفظ کا شکار ایک لاکھ 40 ہزار درخواست دہندگان قطار میں ہیں
امریکہ نے افغانستان میں اپنی 20 سالہ جنگ کے دوران لاکھوں افغانوں کو طالبان کے خلاف جنگی کوششوں کی مدد اور حمایت کے لیے ملازمت دی۔ ایسے افغانوں نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر اتحادی افواج کی خدمت کی لیکن امریکی افواج کے اچانک اور عجلت میں انخلاء سے وہ حیران رہ گئے۔ وہ اپنے ہی ملک میں غیر محفوظ ہو گئے۔ امریکہ نے انہیں مختلف پروگراموں کے تحت تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی اور طویل عرصہ سے جاری خصوصی تارکین وطن ویزا پروگرام ان میں سے ایک تھا۔ افغانستان سے امریکی انخلا کو ڈھائی سال سے زائد گزر چکے ہیں اور اس پروگرام کے تحت صرف سات ہزار ویزے رہ گئے ہیں جبکہ غیر یقینی اور عدم تحفظ کا شکار ایک لاکھ چالیس ہزار درخواست دہندگان قطار میں ہیں۔
قطری خبر رساں ادارے الجزیرہ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کئی افغانوں اور ان کے ہمدردوں سے بات کی ہے جو خصوصی تارکین وطن ویزا حاصل کرنے کے لیے کوشاں افغانوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق امریکہ نے 2021 میں جیسے ہی افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلائیں، لاکھوں افغانوں کو طالبان کے دور حکومت میں ایک بار پھر خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں سے ہزاروں لوگوں کے لیے خطرہ اس لیے بھی شدید تھا کیونکہ انھوں نے امریکیوں کے ساتھ کام کیا تھا اور اس کے نتیجے میں انہیں طالبان کے انتقام کا نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔ امریکہ نے ایسے لوگوں کو طویل عرصے سے جاری اپنے ایک پروگرام کے تحت بیرون ملک زندگی بسر کرنے کا امکان پیش کیا۔ اس پروگرام کے تحت افغان مترجم، ٹھیکیدار اور امریکی فوج سے براہ راست تعلق رکھنے والے دیگر افغان ملازمین خصوصی تارکین وطن ویزا (اسپیشل امیگرنٹ ویزا، یا SIV )کے اہل تھے۔
ڈھائی سال بعد، یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکی امدادی کوششوں کا ایک سنگ بنیاد ہونے کے باوجود افغانوں کے لیے امیگریشن کا یہ تنگ راستہ امریکی کانگریس میں تعطل کا شکار ہو سکتا ہے۔ حکومتی تعطل کو روکنے کے لیے امریکی قانون سازوں کو 22 مارچ سے پہلے بجٹ کے مختص بلوں کا پاس کرنا ضروری ہے۔ لیکن ناقدین کو خدشہ ہے کہ یہ پیکج افغانوں کے لیے مزید خصوصی تارکین وطن کے ویزوں کی اجازت کے بغیر پاس ہو جائے گا، جس سے ان افغانوں کے پاس خطرات سے بچنے کے لیے اور بھی کم آپشنز ہوں گے۔
چند دن پہلے 14 مارچ کو قانون سازوں کے ایک دو طرفہ گروپ نے سینیٹ کے سرکردہ رہنماؤں کو ایک خط بھیجا ہے جس میں زور دیا گیا کہ وہ حتمی تخصیصی بلوں میں خصوصی تارکین وطن کے ویزوں کی فراہمی کو شامل کریں۔ اس خط پر دستخط کرنے والوں میں سے ایک سینیٹر جین شاہین نے بتایا کہ امریکی فوج سے جڑے افغان باشندے سنگین خطرے میں ہیں کیونکہ برسراقتدار طالبان اب ان کی تلاش کر رہے ہیں۔ شاہین کے مطابق دو دہائیوں تک، افغانستان میں امریکی فوجی مشن ان قابل اعتماد افغان اتحادیوں پر انحصار کرتا تھا جو امریکی فوجیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے تھے۔ امریکہ نے ان کی حفاظت کا وعدہ کیا تھا ، جیسا کہ انہوں نے امریکیوں کے لیے کیا تھا۔
شاہین ان 13 سینیٹرز میں سے ایک ہیں جو افغانوں کے لیےبیس ہزار مزید خصوصی تارکین وطن ویزوں کو 2024 کے اسٹیٹ اینڈ فارن آپریشنز (SFOPS) کے مختص بل میں شامل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ یہ بل بجٹ پیکج کا حصہ ہے جسے اس ماہ منظور ہونا ہے۔ لیکن امریکی انتخابی سال میں امیگریشن ایک اہم مسئلہ ہے، اور افغان حامیوں کو خدشہ ہے کہ تارکین وطن مخالف جذبات ان کی کوششوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ افغان اتحادیوں کے تحفظ کے ایکٹ کا نظرثانی شدہ مسودہ ، جو خصوصی تارکین وطن کے ویزوں کی شرائط کا تعین کرتا ہے ، کو گزشتہ سال امریکی پارلیمنٹ کے ایوان اور سینیٹ دونوں میں پیش کیا گیا تھا۔ سینیٹ کی مختص کمیٹی نے تو بیس ہزار اضافی ویزوں کی منظوری دے دی لیکن ریپبلکن کنٹرول والے ایوان نے منظوری نہیں دی۔
افغانوں کے لیے ویزا پروگرام پہلی بار 2009 میں قائم کیا گیا تھا – چونکہ اس کو عارضی سمجھا جاتا تھا، اس لیے امریکی کانگریس کو اپنے مینڈیٹ کو باقاعدگی سے بڑھانا پڑتا ہے اور دستیاب ویزوں کی تعداد کو ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے۔ فی الحال، پرنسپل درخواست دہندگان کے لیے صرف سات ہزار خصوصی ویزے رہ گئے ہیں، لیکن افغان حامیوں کا کہنا ہے کہ ایک لاکھ چالیس ہزارسے زیادہ درخواست گزار زیر التواء ہیں، جن میں سے کم از کم بیس ہزار اس عمل کے آخری مراحل کے قریب ہیں۔ موجودہ پروسیسنگ کی ماہانہ شرح تقریباً ایک ہزار درخواست دہندگان ہے، جس کا مطلب ہے کہ ویزے اگست تک یا افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کی تیسری سالگرہ تک ختم ہو جائیں گے۔ مزید قانون سازی کے بغیر یہ واضح نہیں کہ آگے کیا ہوگا۔
ایسوسی ایشن آف وار ٹائم ایلائیز(AWA) یا جنگ کے وقت کے اتحادیوں کی ایسوسی ایشن ، جو امریکی فوج سے وابستہ افغانوں کی ویزا درخواستوں میں مدد کرتی ہے، کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کم اسٹافیری نے بتایا کہ وہ اور ان کی تنظیم سات، آٹھ سالوں سے یہ کام کر رہی ہیں اور کبھی بھی خصوصی ویزے ختم ہونے کے بارے میں فکر مند نہیں رہیں لیکن موجودہ صورتحال پریشان کن ہے۔
خصوصی ویزے ختم ہونے کے امکان نے عبدالرحمن صافی جیسے افغانوں کو دھوکہ کا احساس دلایا ہے۔ 35 سالہ صافی نے افغانستان میں امریکی فوج اور سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) دونوں کے ساتھ کام کیاہے۔ وہ 2021 میں امریکہ کے لیے انخلاء کی پرواز پر افغانستان سے بھاگے تھے۔ وہ امریکہ ان تمام وعدوں کے ساتھ آئے تھے کہ ’ہم آپ کو پیچھے نہیں چھوڑیں گے‘، لیکن اب محسوس کرتے ہیں کہ ایساکوئی معاملہ نہیں ہے۔ صافی ان دسیوں ہزار افغانوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے خصوصی تارکین وطن ویزوں کے لیے درخواست دی ہے۔
خصوصی ویزوں کی کمی مسائل کو بڑھارہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام برسوں سے غیر فعال ہے جب کہ افغان حامیوں کا کہنا ہے کہ 2021 کے انخلاء کے بعد درخواستوں کے انبارلگ گئے ہیں۔ صافی جیسے افغانوں کے لیےخصوصی تارکین وطن ویزوں کے علاوہ آپشنزکم ہیں اور وہ بھی طویل انتظار اور درخواست دہندگان کی تعداد پر سخت پابندیوں کا شکار ہیں۔ 2021 میں انخلا کرنے والے کچھ افغانوں کو انسانی بنیادوں پر پیرول دیا گیا، لیکن یہ ایک عارضی حیثیت ہے جس میں مستقل رہائش یا شہریت کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ دوسروں نے سیاسی پناہ کی حیثیت کے لیے درخواست دی ہے، جس میں سالوں لگ سکتے ہیں اور کامیابی کی کوئی گارنٹی نہیں ہے ۔
انٹرنیشنل ریفیوجی اسسٹنس پراجیکٹ (IRAP) یا بین الاقو امی پناہ گزین امدادی پروجیکٹ کے ایک نگراں پالیسی مشیر ایڈم بیٹس کے مطابق، سابق فوجیوں کے گروپوں کی وکالت کی وجہ سے 2009 سے جاری اس خصوصی ویزا پروگرام کو ابھی تک دو طرفہ حمایت حاصل رہی ہے، یہاں تک کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے دوران بھی۔ لیکن بیٹس ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں خدشہ ہے کہ یہ پروگرام نومبر کے آنے والے عام انتخابات کی وجہ سے کانگریس میں تعصب کا شکار ہو سکتا ہے۔ اسی طرح افغان امریکن فاؤنڈیشن کے ایک وکیل اور بورڈ ممبر جوزف اعظم کو خدشہ ہے کہ دیگر مسائل افغانوں کے لیے خصوصی ویزا پروگرام کو ماند کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق ایسا کسی بھی وجہ سے ہو سکتا ہے کیونکہ امریکہ انتخابی سال میں ہے، دنیا میں دیگر مسائل ہیں، یا لوگ صرف توجہ نہیں دے رہے ہیں ۔ انہیں ڈر ہے کہ یہ پروگرام تقریبا ختم ہونے کے قریب پہنچ گیا ہے۔ یہ ان دسیوں ہزار افغانوں کے لیے تباہ کن ہو گا جو پیچھے رہ گئے ہیں، جو اپنے خاندانوں کے ساتھ چھپے ہوئے ہیں اور جب طالبان نے اقتدار سنبھالا تو ان کی فہرست میں پہلے نمبر پر تھے۔ اس وضاحت کے باوجود کہ کسی بھی قانون ساز نے افغان پروگرام کی مخالفت نہیں کی اعظم کو خدشہ ہے کہ انتخابات کے موسم میں ویزے سیاسی ہتھیار بن سکتے ہیں۔ صدر جو بائیڈن کو افغانستان سے فوجیوں کے انخلاء سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے لیکن اگر وہ اضافی ویزا پروگرام کو منظور کرا لیتے ہیں، تو یہ زخم کو کچھ حد تک بھر دے گا ۔
ہلال معصومی جو انخلاء کرکے امریکہ آئی ہیں، ایک غیر منافع بخش عالمی پناہ گزین گروپ میں افغان پالیسی مشیر ہیں۔ اس سے قبل وہ امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت میں ایک مشاورتی کردار ادا کر چکی ہیں۔ انہوں نے طالبان کے قبضے سے پہلے امن مذاکرات میں مدد کی۔وہ امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کے بارے میں کانگریس کی ظاہری بے حسی سے مایوس ہیں۔ وہ حیرت سےسوال کرتی ہیں کہ اگر امریکی کانگریس ان افغانوں کے تحفظ کے لیے کام نہیں کرے گی، تو کیا یہ کسی بھی افغان کو غیر محفوظ حالات میں تحفظ فراہم کرے گی؟ معصومی کے مطابق اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزرنے والے ہر دن کے ساتھ، افغان اتحادیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا عزم ختم ہوتا جا رہا ہے۔
معصومی نے حال ہی میں ایسی قانون سازی کی کوششوں کی قیادت کی ہے جس سے انخلاء کرکے امریکہ آنے والے افغانوں کے لیے رہائش کا راستہ ممکن ہو سکے۔ لیکن وہ بل کانگریس میں ریپبلکن مخالفت کے باعث الجھ گئے ہیں۔ انہوں نے امریکہ سے باہر غیر محفوظ افغانوں کے لیے امیگریشن کے مزید راستوں پر بھی زور دیا ہے۔ اس میں ترجیحی 2 (Priority-2) پروگرام کی توسیع بھی شامل ہے۔ یہ پروگرام ان افغانوں تک رسائی کے لیے قائم کیا گیا تھا جو امریکہ میں قائم تنظیموں کے ساتھ کام کرتے ہیں لیکن خصوصی تارکین وطن ویزوں کے لیے اہل نہیں ہیں۔ اس وضاحت کیساتھ کہ بائیڈن کی افغان پالیسی کے کچھ نقاد مزیدخصوصی ویزوں کی منظوری کے معاملے پر خاموش رہے ہیں، معصومی امریکی انتظامیہ پر تنقید کی حمایت کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اگر آپ خود غیر فعال ہیں تو آپ یہ منظوری حاصل نہیں کر سکتے۔ ان کےخیال میں یہ افغانوں کی پشت میں چھرا ہے جو افغانستان میں فوج اور امریکی شہریوں کے ساتھ کھڑے تھے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔