ہیرس یا ٹرمپ! اب اندازہ لگانا مشکل
امریکی صدارتی انتخابات کے لئے سخت مقابلہ جاری ہے۔ کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان خاص طور پر ’سوئنگ ریاستوں‘ میں قریبی ٹکر ہے۔ اوپینین پول کے مطابق، معیشت کی بگڑتی صورتحال ووٹرز کی بڑی تشویش ہے
امریکہ میں صدارتی انتخابات کا مقابلہ اس وقت سخت ہے اور یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کامیابی کس کو ملے گی۔ 5 نومبر کو انتخابات ہوں گے اور کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان یہ مقابلہ انتہائی قریب ہے۔ ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس کا جادو کچھ کمزور پڑتا دکھائی دے رہا ہے، جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کی امیدیں بڑھ گئی ہیں، چاہے وہ صدر بننے کے لئے کتنے بھی ناموزوں کیوں نہ ہوں۔
امریکی ووٹرز کے لئے سب سے بڑی تشویش معیشت ہے۔ موجودہ صدر جو بائیڈن، جو کورونا کے بعد کی بدحالی میں کچھ معاشی بہتری لائے تھے، مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام سمجھے جا رہے ہیں اور یہ چیز ہیرس کے لئے نقصان کا باعث بن رہی ہے۔ اوپینین پول کے مطابق، لوگ ٹرمپ کو اس لئے ووٹ دے سکتے ہیں کہ انہیں لگتا ہے وہ مہنگائی کو کم کر سکتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ درآمدات پر بھاری محصولات لگائیں گے، جس سے صارفین کو نقصان ہوگا، لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ خیالات فیصلہ کن ثابت ہوں گے؟ ہیرس قومی سطح پر سروے میں آگے ہیں، مگر فرق بہت کم ہے۔
عام طور پر وائٹ ہاؤس کی دوڑ اس بات پر منحصر ہے کہ سوئنگ ریاستوں کا کون فاتح بنتا ہے، کیوں کہ امریکہ کی زیادہ تر ریاستوں کے نتائج پہلے سے ہی طے شدہ ہوتے ہیں۔
بہت سے ریپبلکن ٹرمپ کے خلاف ہیں اور انہیں صدر کے منصب کے قابل نہیں سمجھتے۔ ان میں نمایاں نام لِز چینی کا ہے، جو سابق نائب صدر ڈک چینی کی بیٹی اور کانگریس کی سابق رکن ہیں۔ ٹرمپ نے انہیں ایوان نمائندگان سے باہر کر دیا تھا۔ چینی نے حالیہ دنوں میں ہیرس کے ساتھ خواتین ووٹرز کو اپیل کرنے کے لئے دورے کئے اور اس بات پر زور دیا کہ ٹرمپ خواتین کے حقوق اور قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں۔
رواں سال مئی میں ڈونلڈ ٹرمپ پہلے سابق امریکی صدر بن گئے، جنہیں فوجداری الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ نیویارک کی جیوری نے انہیں 2016 کے انتخابات پر اثر انداز ہونے کی سازش کے 34 الزامات میں قصوروار قرار دیا۔ ان الزامات میں ایک فحش اداکارہ کو خاموش رہنے کے لیے رقم دینے کا الزام بھی شامل تھا۔ ٹرمپ نے فیصلے کو ناقص، نامکمل سماعت قرار دے کر مسترد کر دیا اور کہا کہ اصل فیصلہ 50 نومبر کو ہونے والا ہے۔
تقسیم اس وقت واضح ہے، کالج گریجویٹ ہیرس کی حمایت میں ہیں، جبکہ غیر گریجویٹ ٹرمپ کے حامی ہیں۔ اگرچہ اس بار ٹرمپ کے بیانات میں خواتین کے خلاف کم توہین آمیز باتیں ہیں، مگر وہ مذہبی عوامل کا استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے مسیحی ووٹرز کو کہا کہ ایک ‘مافوق الفطرت طاقت’ نے انہیں بچا لیا تھا۔ بغیر کالج ڈگری والے سفید فام ووٹرز جو ان کے ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ مہم کی ریڑھ ہیں، کی تعداد میں 2 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے اور ان کی حمایت پہلی مرتبہ 40 فیصد سے نیچے آ گئی ہے۔
ٹرمپ نے غیر سفید فام ووٹرز کو اپنے حق میں کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے، جبکہ ہیرس نے ان شہری علاقوں پر توجہ مرکوز رکھی ہے جہاں سفید فام کالج گریجویٹ ووٹرز کی اکثریت ہے۔ نوجوان ووٹرز ہیرس کے لئے فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں، کیونکہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور وہ عام طور پر ڈیموکریٹس کو ووٹ دیتے ہیں۔ لیکن، ہیرس کو نوجوان مرد ووٹرز کو اپنے حق میں برقرار رکھنے کے لئے کوشش کرنی ہوگی۔
بائیڈن کو خارجہ پالیسی میں ماہر سمجھا جاتا ہے، مگر بطور صدر وہ اسی شعبے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں جس کا اثر ہیرس کی کامیابی پر بھی پڑ رہا ہے۔ فلسطین میں اسرائیل کے خلاف امریکہ کے مزید مضبوط اقدامات کی توقع تھی، مگر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس مسئلے پر ڈیموکریٹس کو تذبذب میں ڈالنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یوکرین پر روسی حملے پر امریکہ مجموعی طور پر یوکرین کے ساتھ ہیں لیکن یوکرین کو دی جا رہی اربوں ڈالر کی امداد نے انہیں پریشان کرنا شروع کر دیا ہے۔
عام طور پر امریکی انتخابات میں خارجہ معاملات فیصلہ کن نہیں ہوتے، لیکن ڈیموکریٹس نے مغربی ایشیا میں جنگ بندی کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن ایک سال میں 11ویں مرتبہ جنگ زدہ علاقہ میں پہنچے تاکہ پسندیدہ نتیجہ برآمد ہو سکے۔ انہوں نے جنگ کو ختم کرنے، یرغمالوں کو بازیاب کرانے اور فلسطینیوں کی تکالیف کو کم کرنے کے لیے ’سنجیدہ مذاکرات‘ میں شامل ہونے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا۔
نیتن یاہو کے لحاظ سے تلواریں واپس میان میں جانا ایک بری بات ہوگی کیونکہ سیاست میں ان کا اپنا وجود داؤ پر لگا ہے۔ اسرائیل میں امن کی جھلک بھی ان کے لیے مصیبت لے کر آئے گی اور تب ان کے خلاف بدعنوانی کے معاملات چلائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ، جنگ ختم ہوتے ہی لوگوں کی توجہ فوراً اس طرف جائے گی کہ حماس کے ذریعے یرغمال بنائے گئے 120 سے زیادہ اسرائیلیوں کو بچانے میں نیتن یاہو ناکام رہے۔
’نیویارک ٹائمز‘ نے 22 اکتوبر کو ہیرس کو قومی ووٹنگ اوسط میں معمولی ایک فیصد کی برتری دی تھی، انہیں 49 فیصد جبکہ ٹرمپ کو 48 فیصد حمایت حاصل تھی۔ حالانکہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جو ریاستیں طے کریں گی کہ فتح کا سہرا کس کے سر بندھے گا، وہاں دونوں میں سخت مقابلہ ہے۔ مشی گن، نارتھ کیرولائنا، پنسلوانیا اور نیواڈا میں دونوں 48 فیصد کے ساتھ برابری پر ہیں۔ وسکونسن میں ہیرس کو 49 فیصد تو ٹرمپ کو 48 فیصد، یعنی ہیرس کے حق میں محض 1 فیصد کی برتری؛ جارجیا میں ٹرمپ 1 فیصد سے آگے رہے جبکہ ایری زونا میں ٹرمپ 50 فیصد پر رہے اور ہیرس 48 فیصد پر۔ ’فائنانشل ٹائمز‘ نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے اندازے کو دہراتے ہوئے برابری کی رپورٹ دی ہے۔ کچھ اسی طرح کا اندازہ ’اے بی سی نیوز‘، ’فائیو تھرٹی ایٹ‘ اور ’دی اکنامسٹ‘ بھی ظاہر کر رہے ہیں۔
البتہ انتخابی مہم فنڈز کے معاملے میں ہیرس بہت آگے ہیں۔ انہوں نے محض تین مہینوں میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ جمع کیے ہیں جبکہ اسی مدت میں ٹرمپ نے 40 کروڑ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اہم آخری مرحلے کے دوران ڈیموکریٹ اس پیسے کا استعمال کر سکیں گے جس کا جواب ریپبلکن کے پاس نہیں ہوگا۔ اس کا استعمال ممکنہ طور پر میڈیا پر، خاص طور پر اہم ریاستوں میں، کیا جائے گا۔ سی این این نے کملا ہیرس کی ٹیم سے بات کی جس کے مطابق، ہیرس کو توجہ کا مرکز رکھنے والے پروگرام منعقد کیے جائیں گے۔ اس کا مقصد غیرجانبدار ووٹرز کو مائل کرنا ہوگا اور یہ نئی ٹیکنالوجی پر مبنی حکمت عملی ہوگی۔
اب تک پس و پیش میں رہے ووٹرز آخری ہفتے کے آس پاس فیصلہ کریں گے۔ ہندوستانی امریکی بڑی تعداد میں ڈیموکریٹ کو ووٹ دیتے ہیں اور اس بار تو اس پارٹی کی امیدوار کا ہندوستان سے تعلق بھی ہے (ہیرس کی ماں ہندوستانی تھیں)۔ اس وجہ سے ہندوستانیوں کے ووٹ ڈالنے کے رجحان میں تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔
نئی دہلی کو امریکی انتخابات کو کس نظر سے دیکھنا چاہیے؟ ہیرس جیتیں تو اس کا مطلب ہوگا بڑی حد تک بائیڈن کی پالیسیوں کا تسلسل، حالانکہ بائیڈن کے مقابلے میں وہ نظریاتی طور پر بائیں بازو کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتی ہیں۔ جبکہ ٹرمپ سے بڑی ہی گرمجوشی کے ساتھ لپٹنے کے بعد بھی نریندر مودی ان کے چار سال کے دور میں ہندوستان کے لیے کچھ خاص فائدہ نہ اٹھا سکے۔ اگر ٹرمپ جیتے اور انہوں نے کہے کے مطابق درآمدات اور امیگریشن پر گرفت مضبوط کر دی، تو یہ وہ موسیقی تو نہیں ہوگی جسے رائے سینا ہل امریکہ سے سننا چاہے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔