امریکہ: کئی ریاستوں کے اسکولوں میں اسمارٹ فونز ممنوع

اسمارٹ فونز پر پابندی لگانا طلباء کی توجہ کو بڑھا سکتا ہے اور خلفشار کو کم کر سکتا ہے، لیکن ایسا کرنا ان کو سیکھنے کے وسائل اور مواصلاتی ضروری آلات سے محروم کرنا ہوگا

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

مدیحہ فصیح

دنیا بھر کے بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسمارٹ فون بچوں کی ذہنی صحت کے لیے خطرہ ہیں۔ اور اب سوشل میڈیا اور ٹکنالوجی کے بچوں اور نوجوانوں پر پڑنے والے اثرات پر بحث کے درمیان لاس اینجلس ان امریکی شہروں  میں شامل ہو گیا ہے جہاں اسکولوں میں اسمارٹ فونز کے استعمال پر پابندی عائد ہے۔ پچھلے مہینے، لاس اینجلس یونیفائیڈ اسکول ڈسٹرکٹ بورڈ نے 2025 تک طالب علموں کے سیل فونز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال پر پابندی لگانے کے لیے ایک پالیسی تیار کرنے کے لیے قرارداد منظورکی۔ کیلیفورنیا نے 2019 میں اس قانون کو منظوری دی جو اسکول کے اوقات میں اسمارٹ فون کے استعمال پر پابندی لگاتا ہے۔ 19 جون کو گورنر گیون نیوزوم نے کہا کہ جب بچے اسکول میں ہوتے ہیں تو انہیں اپنی پڑھائی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے نہ کہ اسکرین پر۔ پچھلے ہفتے، امریکی سرجن جنرل ڈاکٹر وویک مورتی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر انتباہی لیبلز شامل کرنے کا مطالبہ کیا، جیسا کہ تمباکو اور شراب کی مصنوعات پر چھپے ہوتے ہیں۔ مورتی نے نیویارک ٹائمز میں لکھا، سوشل میڈیا نوجوانوں کی دماغی صحت کے اہم نقصانات سے منسلک ہے۔ ہیلتھ وارننگ لیبل، جس کے لیے امریکی کانگریس کی کارروائی کی ضرورت ہے، باقاعدگی سے والدین اور نوعمروں کو یاد دلائے گا کہ سوشل میڈیا محفوظ نہیں ہے۔

اب تک، اوہائیو، انڈیانا، اوکلاہوما اور فلوریڈا کی ریاستیں سرکاری اسکولوں میں اسمارٹ فونز کے استعمال پر پابندیاں عائد کر چکی ہیں۔ انڈیانا سینیٹ بل 185 پر، جو طلباء کو اسکول میں تدریسی اوقات کے دوران ڈیوائس کے استعمال پر پابندی لگاتا ہے، گورنر ایرک ہولکمب نے مارچ میں دستخط کیے اور یکم جولائی سےیہ قانون نافذ العمل ہوا۔ پچھلے مہینے، اوہائیو کے گورنر مائیک ڈی وائن نے ہاؤس بل 250 پر دستخط کیے،جس کا مقصد خلفشار کو کم کرنے کے لیے کلاس رومز میں اسمارٹ فون کے استعمال کو محدود کرنا ہے۔ صحت یا طبی ہنگامی صورتحال کے لیے رعایت دی جائے گی۔ فروری میں، اوکلاہوما سینیٹ کی مختصات کمیٹی نے اسکولوں میں اسمارٹ فونز کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔ سینیٹ بل 1314 کے تحت طلباء پر اسکول کیمپس میں اسمارٹ فون استعمال کرنے پر پابندی ہے۔


فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینٹیس نے گزشتہ سال مئی میں اسکولوں میں اسمارٹ فونز اور دیگر وائرلیس ڈیوائسز پر پابندی عائد کرنے کے بعد کہا تھا کہ  بچوں کانارمل ہونا، جیسا کہ بچے سوشل میڈیا سے پہلے تھے، اہم ہے۔ سوشل میڈیا حل کرنے سے زیادہ مسائل کا سبب بنتا ہے، اور ان کےخیال میں یہ اچھائی سے زیادہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔ فلوریڈا کا قانون طلباء کی وائی فائی تک رسائی کو بھی روکتا ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ اسکولوں میں سوشل میڈیا کی خواندگی سکھائی جائے۔ پچھلے مہینے، نیویارک اسٹیٹ کی گورنر کیتھی ہوچول نے کہا تھا کہ وہ نوجوانوں کی ذہنی صحت کے تحفظ کے لیے 2025 سے اسکولوں میں فون پر ریاست بھر میں پابندی لگانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ نیو یارک سٹی نے پہلے پابندی عائد کی تھی لیکن اسے 2015 میں ختم کر دیا گیا تھا اور اسے اسکولوں پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ خود فیصلہ کریں۔ نیویارک سٹی پبلک اسکولز کے چانسلر ڈیوڈ بینکس کے مطابق اسمارٹ فونز صرف ایک خلفشار نہیں ہیں، بلکہ بچے اب فون کے مکمل عادی ہو چکے ہیں۔

گزشتہ نومبر میں کیے گئے پیو ریسرچ سروے کے مطابق، تقریباً تین چوتھائی امریکی ہائی اسکول کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ اسمارٹ فونز کلاس روم میں ایک بڑا خلفشار ہیں اوروہ  انہیں مسائل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ مڈل اسکول کے اساتذہ کے 33 فیصد کے مقابلے ہائی اسکول کے تقریباً 72 فیصد اساتذہ کا کہنا ہے کہ سیل فون ان کے کلاس روم میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ نیویارک کی گورنر کیتھی ہوچول نے گزشتہ ماہ 'گارجین' کو بتایا کہ یہ لت لگانے والے الگورتھم نوجوانوں کو کھینچتے ہیں، انہیں اپنی گرفت میں لیتے ہیں اور ایک ایسی جگہ پر قید کرتے ہیں جہاں وہ انسانی رابطے، سماجی میل جول اور کلاس روم میں معمول کی سرگرمیوں سے کٹ جاتے ہیں۔


بچوں کے دماغی صحت کے ماہرین میں سے کچھ نے نوٹ کیا ہے کہ 2010 کی دہائی کے اوائل میں اسمارٹ فونز کی مقبولیت میں اضافہ ایک اہم نقطہ تھا جب ماہرین صحت نے نوجوانوں کی ذہنی صحت میں فرق دیکھنا شروع کیا۔ این وائی یوـ اسٹرن اسکول آف بزنس کے ایسوسی ایٹ ریسرچ سائنسدان، زیک راؤش نے الجزیرہ کو بتایا کہ 2010 اور 2015 کے درمیان، نوعمروں اور خاص طور پر نو عمر لڑکیوں میں ذہنی صحت میں اچانک اور تیزی سے کمی واقع ہوئی۔ سماجی ماہر نفسیات اورمصنف جوناتھن ہیڈٹ نے کہا کہ ان کی تحقیق نے اسمارٹ فون کے استعمال اور زوال پذیر ذہنی صحت کے درمیان ایک مضبوط تعلق کی نشاندہی کی ہے۔

کیا اسکولوں میں اسمارٹ فونز پر پابندی کارآمد ثابت ہو گی؟ بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پر بہت کم تحقیق کی گئی ہے اور اعداد و شمار ان پابندیوں کے اثرات کے بارے میں غیر حتمی ہیں۔ کوئنز لینڈ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کی فیکلٹی آف ایجوکیشن میں ابتدائی بچپن اور جامع تعلیم کی پروفیسر مارلن کیمبل اور آسٹریلیا کی کوئنز لینڈ یونیورسٹی میں تعلیم کی ایسوسی ایٹ پروفیسر الزبتھ ایڈورڈز نے اسکولوں میں موبائل فون پر پابندی کے حق میں اور مخالفت میں شائع شدہ اور غیر مطبوعہ عالمی شواہد کا 'اسکوپنگ ریویو' کیا یا جائزہ لیا۔  مارچ میں شائع ہوئے اس جائزے میں 1317 مضامین، رپورٹس اور طلباء کے مقالے شامل ہیں، جو 2007 سے مئی 2023 کے درمیان لکھے گئے تھے۔


اس کے علاوہ، انہوں نے 22 مطالعات کی نشاندہی کی جس میں فون پر پابندی سے پہلے اور بعد میں اسکولوں کی جانچ کی گئی۔ مطالعات میں برمودا، چین، جمہوریہ چیک، گھانا، ملاوی، ناروے، جنوبی افریقہ، اسپین، سویڈن، تھائی لینڈ، برطانیہ اور امریکہ کے اسکولوں کا احاطہ کیا گیا۔ اپنی ابتدائی تحقیق کی بنیاد پر کیمبل اور ایڈورڈز نے کہا کہ انہیں اسکول میں اسمارٹ فونز پر پابندی کے فوائد کے لیے صرف کمزور ثبوت ملے ہیں۔ تاہم، برطانوی تعلیمی تھنک ٹینک، پالیسی ایکسچینج نے مئی میں ایک مطالعہ شائع کیا جس میں کہا گیا ہے کہ اسمارٹ فون پر مؤثر پابندی اور اسکول کی بہتر کارکردگی کے درمیان واضح تعلق ہے۔ راؤش نے کہا کہ ان اسکولوں سے جو فون سے پاک ہو چکے ہیں – بعض اوقات یہ شروع میں مشکل ہوتا ہے، لیکن پھر جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، بچے کلاس میں زیادہ توجہ دینا شروع کر دیتے ہیں۔ کبھی کوئی ایسا  اسکول نہیں ملا جو فون سے پاک ہو اور اسکول کو اپنے فیصلے پر افسوس ہوا ہو۔

اسمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کے اثرات سے نمٹنے کے طریقے کے بارے میں ماہرین  مختلف آراء رکھتے ہیں۔ کچھ اسکول مکمل پابندی کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسکولوں سے اہم مواصلاتی آلات کو ہٹانے سے مسئلہ کو حل نہیں کیا جاسکتا۔ امریکہ میں قائم نیشنل پیرنٹس یونین کی صدر کیری روڈریگز نے الجزیرہ کو بتایا کہ بچوں کے لیے یہ سمجھانا بہتر ہے کہ فون کب استعمال کرنا مناسب ہے اور کب نہیں۔ تاہم، برطانیہ میں اسمارٹ فون فری چائلڈ ہڈ کی شریک بانی، ڈیزی گرین ویل نے کہا کہ وہ اسمارٹ فون کے استعمال پر پابندیوں کی حمایت کرتی ہیں۔ انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ اساتذہ کا کہنا ہے کہ انہیں اسکول میں درپیش سب سے بڑے مسائل اسمارٹ فونز اور اس سے طلباء میں پیدا ہونے والے سماجی مسائل ہیں۔ دوسری جانب کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ اسکولوں میں اسمارٹ فونز پر پابندی لگانا خلفشار کو کم کر سکتا ہے اور توجہ کو بڑھا سکتا ہے، لیکن ایسا کرنا طلباء کو سیکھنے کے قیمتی وسائل اور مواصلاتی ضروری آلات سے محروم کرنا ہوگا۔


ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک متوازن نقطہ نظر، ریگولیٹڈ استعمال اور واضح رہنما خطوط، اسمارٹ فونز کی خرابیوں کو کم کرتے ہوئے ان کے فوائد سے فائدہ اٹھانے کا سب سے مؤثر طریقہ ہو سکتا ہے۔ کیمبل اور ایڈورڈز، جنہوں نے آسٹریلیا میں اسمارٹ فونز کے حق اور مخالفت  پر شائع شدہ اور غیر مطبوعہ تصانیف کا جائزہ لیا، نے اسمارٹ فون کے استعمال کا تعین کرنے اور بچوں کو اسمارٹ فون کے مثبت استعمال میں مدد کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی سفارش کی ہے اور کہا ہے کہ ان معاملات کو اسکولوں پر چھوڑ دینا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔