صدارتی انتخاب میں ٹرمپ کی جیت! بائیڈن حکومت کی فلسطین اور ایران پر پالیسی کملا ہیرس کو لے ڈوبی

امریکی عوام نے فلسطین اور ایران کے معاملے میں بائیڈن حکومت کی جارحانہ پالیسی کو مسترد کر دیا، جس کا اثر کملا ہیرس کی صدارتی انتخابی مہم پر پڑا اور انہیں اس کا خمیازہ اٹھانا پڑا

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

قومی آواز بیورو

امریکی صدارتی انتخابات کی موجودہ صورتحال کے مطابق سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس دوبارہ حاصل کرنے کے قریب ہیں۔ ٹرمپ نے اہم ریاستوں جیسے پنسلوانیا اور جارجیا میں کامیابی حاصل کر لی ہے، جس سے ان کا 270 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنے کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔

صدارتی انتخابات میں متعدد مسائل ہوتے ہیں جن پر امیدوار کی ہار اور جیت منحصر ہوتی ہے لیکن بائیڈن حکومت کی خارجہ پالیسی نے بھی کملا ہیرس کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ دراصل، اسرائیل کی فلسطین کے خلاف جارحیت اور ایران کے ساتھ تعلقات میں سخت رویہ، بائیڈن حکومت کی پالیسیوں میں ایک نمایاں پہلو رہا ہے۔ امریکی عوام کی اکثریت نے ان پالیسیوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا، جس کا سیدھا اثر نائب صدر کملا ہیرس کی انتخابی مہم پر پڑا۔

امریکہ کی عالمی پالیسی میں اسرائیل کی حمایت ہمیشہ سے اہم رہی ہے لیکن حالیہ برسوں میں یہ پالیسی اس وقت تنقید کا شکار ہوئی جب اسرائیل نے فلسطین کے ساتھ اپنے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا کی۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں فوجی کارروائیاں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں مسلسل عالمی سطح پر بحث کا موضوع بنیں اور بائیڈن حکومت کی طرف سے اسرائیل کی کھلی حمایت نے امریکی عوام میں شدید ناراضگی پیدا کی۔

اسی دوران، ایران کے معاملے میں بائیڈن حکومت کا رویہ مزید پیچیدہ بن گیا۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی کی کوششوں کو کمزور سمجھا گیا اور ایران کی بیلسٹک میزائل پروگرام کے خلاف اقدامات کو ناکافی قرار دیا گیا۔ اس پالیسی نے امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد کو ناراض کیا، خاص طور پر وہ حلقے جو ایران کے ساتھ تعلقات میں مزید سختی چاہتے تھے۔


کملا ہیرس، جو کہ بائیڈن کی نائب صدر ہیں، اس پالیسی کی بڑی حامی رہی ہیں۔ تاہم، ان کی سیاسی حیثیت اس وقت متاثر ہوئی جب عوام نے ان کے اور بائیڈن کی پالیسیوں کو فلسطین اور ایران کے معاملے میں تنقید کا نشانہ بنایا۔ انتخابی مہم کے دوران ہیرس نے بار بار اپنی حمایت کا اظہار کیا لیکن یہ پالیسیوں کی عوامی ناپسندیدگی سے بچ نہ سکیں۔ ایک طرف جہاں بعض حلقے اسرائیل کے حق میں تھے، وہیں بہت سے لوگ فلسطین اور ایران کے حوالے سے زیادہ نرم موقف کے حامی تھے۔

کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فلسطین اور ایران کے بارے میں بائیڈن اور ہیرس کی پالیسیوں نے ان کے لئے انتخابی مشکلات پیدا کیں۔ یہ پالیساں خاص طور پر ان ووٹرز کے لئے پریشانی کا سبب بنیں جو جنگ اور بیرونی مداخلت کے خلاف تھے۔ عوام نے محسوس کیا کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں اخلاقی اصولوں کا فقدان ہے اور اس کے نتیجے میں کملا ہیرس کو انتخابی میدان میں پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ سب اس وقت ایک بڑی سیاسی بحث کا حصہ بن چکا ہے، اور کملا ہیرس کو اب ان پالیسیوں کے خمیازے کا سامنا ہے۔ اگرچہ بائیڈن حکومت نے فلسطین اور ایران کے حوالے سے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کی کوشش کی، لیکن امریکی عوام کا ردعمل اور عالمی سطح پر ان پالیسیوں کی مخالفت کملا ہیرس کی انتخابی مہم کو مزید مشکل بنا گیا۔

آخرکار، کملا ہیرس کی انتخابی ناکامی ایک گہرے سیاسی پیغام کا اشارہ ہے کہ امریکی عوام کا ردعمل خارجہ پالیسیوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے، اور یہ کملا ہیرس کی سیاسی حکمت عملی میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔

آخری اطلاع موصول ہونے تک ڈونلڈ ٹرمپ 267 الیکٹورل ووٹوں حاصل کر چکے تھے، جبکہ کملا ہیرس 214 ووٹوں تک محدود تھیں۔ اگر وہ الاسکا یا کسی باقی ماندہ سوئنگ ریاست میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں وہ وائٹ ہاؤس پہنچ جائیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔