غزہ میں قحط کی دوسری لہر!

اگر غزہ میں قحط پر قابو پانے کیلئے عالمی برادری کی جانب سے وسیع اقدامات انجام نہ پائے تو عنقریب غزہ میں بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے

<div class="paragraphs"><p>غزہ کا منظر / Getty Images</p></div>

غزہ کا منظر / Getty Images

user

نواب علی اختر

جب حماس اور اس کے اتحادیوں نے7 اکتوبر 2023ء کو اسرائیل پر حملہ کیا تو یہ حملہ فوراً دنیا بھر کی شہ سرخی بن گیا۔ اس کے بعد جواباً غزہ کے لوگوں کے خلاف شروع ہونے والی نسل کشی کی بے رحمانہ مہم آج تک جاری ہے۔ تاہم مشکلات کا شکار بنیامن نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت پر یہ عقدہ کھلا کہ یہ حملہ قدرت کی جانب سے بھیجا گیا تحفہ تھا کیونکہ سب سے پہلے تو حالت جنگ میں ہونے کی وجہ سے حکومت اپنے سیاسی مسائل کو نظرانداز کر سکتی ہے۔ جبکہ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ انہیں فلسطین کے مسئلے کا حتمی حل نکالنے کا موقع مل گیا۔

کسی قوم کو یوں اچانک سے صفحہ ہستی سے مٹایا نہیں جا سکتا، اس لیے اس مسئلے کا جڑ سے خاتمہ کرنے کے لیے اسرائیل کو سب سے پہلے ایک بیانیہ تشکیل دینا تھا اور حملے کو جواز بنا کر فلسطینیوں کو یہودیوں کا دشمن کے طور پر دکھایا جانا تھا۔ لہٰذا 40 بچوں کے سر قلم کرنے (جس جھوٹ کو امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی بار بار دہرایا) کے ساتھ ساتھ حماس کے مزاحمت کاروں کی جانب سے خواتین کے جنسی استحصال کی خبریں عالمی میڈیا کے ذریعہ پھیلائی گئیں لیکن جلد ہی واضح ہو گیا کہ ان تمام صہیونی الزامات کو ثابت کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اگر مغربی میڈیا ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا تو جلد ہی ظاہر ہو جاتا کہ یہ دعوے سراسر جھوٹے ہیں۔

اب جبکہ فلسطین میں ریپ اور منظم جنسی استحصال کے ثبوت سامنے آرہے ہیں لیکن مغربی میڈیا میں ان شواہد پر کوئی بات نہیں ہوگی کیونکہ اس بار مرتکب اسرائیل جبکہ متاثرین فلسطینی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے کہا ہے کہ ایسے بے شمار واقعات سامنے آئے ہیں جہاں زیر حراست فلسطینی خواتین اور بچیوں کو مختلف اقسام کے جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ مرد اسرائیلی افسران خواتین کو برہنہ کرکے ان کی تلاشی لیتے ہیں۔ کم از کم دو فلسطینی خواتین قیدیوں کا مبینہ طور پر ریپ کیا گیا جبکہ دیگر کو مبینہ طور پر ریپ اور جنسی تشدد کی دھمکیاں دی گئیں۔ اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے فلسطینی خواتین کی توہین آمیز حالات میں تصاویر بھی آن لائن پوسٹ کی گئی ہیں۔

فلسطینی خاتون اور پانچ بچوں کی والدہ لمیٰ خاطر کو نومبر میں اسرائیل کی جانب سے رہا کیا گیا، وہ بتاتی ہیں کہ پہلی تفتیش میں ہی انہیں ریپ اور خاندان کو قتل کرنے کی دھمکی دی گئیں۔ وہ اور دیگر خواتین قیدیوں کا جنسی استحصال کیا گیا جبکہ انہیں سینیٹری پیڈز جیسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم رکھا گیا۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں ان تمام الزامات کی تصدیق کی گئی ہے جو فلسطینی برسوں سے لگاتے آ رہے ہیں کہ نکبہ سے لے کر اب تک فلسطینیوں کو محکوم بنانے کے لیے اسرائیل جنسی استحصال اور تذلیل کا سہارا لیتا ہے۔ شواہد موجود ہیں کہ اسرائیل کے سابق فوجیوں نے فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا۔ جب بات اسرائیل پر آتی ہے تو ہر الزام ایک اعتراف ہوتا ہے۔


اس طرح گذشتہ 10 ماہ سے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت اور بربریت جاری ہے۔ اس دوران غزہ میں مقیم فلسطینی اب تک کئی بار ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں نقل مکانی کر چکے ہیں اور یوں جلاوطنی کی حالت میں جلاوطن ہوتے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے کوآرڈینیٹر سیگرڈ کاگ نے سلامتی کونسل میں اپنی تقریر میں بتایا کہ آج غزہ کی پٹی میں 19 لاکھ انسان جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ غزہ گذشتہ کئی سالوں سے غاصب صیہونی رجیم کی جانب سے زمینی، سمندری اور ہوائی محاصرے کا شکار ہے اور اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے عالمی ادارے اور تنظیمیں اس ظالمانہ محاصرے کو ختم کروانے کے لیےکوئی اقدام انجام نہیں دے رہے ہیں۔

آج غزہ کی پٹی میں بسنے والے عام فلسطینی شہری حقیقی معنی میں دکھ اور درد میں مبتلا ہیں اور ان کی زندگی مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ جنگ کا شکار غزہ میں بھوک اور غذائی قلت بدترین صورتحال اختیار کر چکی ہے اور اگر وہاں انسانی امداد فراہم نہیں کی جاتی تو عنقریب شمالی غزہ میں شدید قحط پیدا ہو جانے کا خطرہ ہے۔ اگرچہ پورے غزہ میں شدید غذائی قلت پائی جاتی ہے لیکن 10 لاکھ فلسطینی ایسے ہیں جن کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے ماہرین نے بھی غزہ میں کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں مقیم فلسطینی شدید غذائی قلت سے روبرو ہیں اور انہیں ایک حقیقی خطرہ درپیش ہے۔

غزہ کے حالات پر نظر رکھے ہوئے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ شمالی غزہ میں قحط کی پہلی لہر کے بعد جس میں دسیوں عام شہری جاں بحق ہوئے ہیں اور خاص طور پر حاملہ خواتین اور بچوں کو شدید نقصان پہنچا ہے، اب اس خطے میں قحط کی دوسری لہر شروع ہونے والی ہے۔ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کے لیے زمینی راستے کا کوئی متبادل نہیں پایا جاتا۔ یونیسف نے بھی غزہ میں بچوں کی درد ناک صورتحال کے بارے میں بتایا ہے کہ اس وقت غزہ کے 3000 بچے شدید بھوک کا شکار ہیں اور مسلسل اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں میڈیکل سہولیات نہ ہونے کے باعث ان بچوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔ جنوبی غزہ میں بھی صورتحال بہت نازک ہے اور وہاں بھی انسانی امداد کی فراہمی شدید حد تک کم ہو چکی ہے۔

یہی مسئلہ اس بات کا باعث بنا ہے کہ بچوں کی زیادہ تعداد بھوک کا شکار ہو کر اس کے نتیجے میں موت کے خطرے سے روبرو ہو جائے۔ اسرائیل کے وحشیانہ حملے اور عام شہریوں کی جلاوطنی فلسطینی گھرانوں کو میڈیکل کی سہولیات فراہم کرنے میں بہت بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں ہر 10 میں سے 9 بچے شدید بھوک کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے اداروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر غزہ میں قحط پر قابو پانے کیلئے عالمی برادری کی جانب سے وسیع اقدامات انجام نہ پائے تو عنقریب غزہ میں بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔


اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ غاصب صیہونی رجیم کی جانب سے غزہ کے فلسطینیوں کے خلاف بھوک کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے ۔ حقوق انسانی کا ڈھنڈورا پیٹنے والا امریکہ سمندر میں مصنوعی بندرگاہ بنا کر بہت ہی کم مقدار میں انسانی امداد کی فراہمی کی بجائے اسرائیل سے غزہ کے خلاف محاصرے کی شدت کم کر کے وہاں انسانی امداد کی فراہمی ممکن بنانے کا مطالبہ کر سکتا تھا مگرصہیونی نواز امریکی قیادت نے اپنے ووٹروں کو خوش کرنے کے لیے مظلوم فلسطینیوں کو مرنے دیا۔ ایسی صورت میں سلامتی کونسل کے اراکین کو چاہئے کہ وہ اسرائیل اور اس کے اتحادی امریکہ پر دباؤ ڈالیں کہ وہ غزہ میں کسی شرط کے بغیر فوری اور مستقل جنگ بندی کروائیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔