اسماعیل ہنیہ کی پر اسرار زندگی...سید خرم رضا
وہ ملک جو حماس جیسے بچے کے لئے پوری دنیا سے گہار لگائے کہ اس نے مجھے مارا ہے، میرے لوگوں کو اغوا کر لیا ہے، میں اس کو برباد کر دوں گا، وہ کہاں کی طاقت ہے!
اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر عام طور پر پوری دنیا، بلخصوص اسلامی دنیا میں ہنگامہ بپا ہو گیا ہے۔ کسی کو یقین نہیں آیا کہ اسماعیل ہنیہ کو ایران کے دارالحکومت تہران میں اسرائیل نے قتل کر دیا ہے۔ جس وقت اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل کے دعوے کے مطابق مارا گیا وہ اس وقت نو منتخب ایرانی صدر کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرنے کے لئے تہران گئے ہوئے تھے۔ ابھی اس بات کی تصدیق بھی نہیں ہوئی تھی کہ ان کی موت کے پیچھے کن طاقتوں کا ہاتھ ہے کہ اسرائیل نے فوراً اعلان کر دیا کہ انہوں نے اسماعیل ہنیہ کو قتل کیا ہے اور 7 اکتوبر کے حماس حملے کا بدلا لے لیا ہے۔
اگر کوئی اور سازش نہیں ہے تو اسرائیل کو بڑی فوجی طاقت کہتے ہوئے شرم آتی ہے کیونکہ جس ملک کو اپنے اوپر حملے سے پہلے پتہ نہ لگے تو وہ کس بات کی طاقت ہے! وہ ملک جو حماس جیسے بچے کے لئے پوری دنیا سے گہار لگائے کہ اس نے مجھے مارا ہے، میرے لوگوں کو اغوا کر لیا ہے، میں اس کو برباد کر دوں گا، وہ کہاں کی طاقت ہے! جس نے کمزور حماس کے لوگوں کو نہ صرف مارا بلکہ ان کو کھانے پینے سے پریشان کیا، اس کے لئے یرغمالیوں کو چھڑوانا تو بہت دور کی بات، وہ ان کے بارے میں یہ پتہ لگانے میں بھی کامیاب نہیں ہوا کہ ان کو حماس کے لوگوں نے کہاں چھپا رکھا ہے۔ اگر ایسا ہے تو اسرائیل کو جو فوجی طاقتور ملک سمجھتے ہیں وہ غلط سمجھتے ہیں اور اگر اس جنگ کے پیچھے سیاست ہے اور نیتن یاہو اپنی کرسی بچانے کے لئے نورا کشتی لڑ رہے ہیں تو پھر بہت گہری سیاست ہے اور حماس یا اسماعیل ہنیہ کی مدد کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔
اسماعیل ہنیہ 1962 یا 1963 میں اس وقت کے مصر کے زیر کنٹرول غزہ کی پٹی کے الشطی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والدین 1948 کی فلسطین جنگ کے دوران اشکلون سے جلا وطن ہو گئے تھے۔ ہنیہ نے 1987 میں غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے عربی ادب میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور یہیں وہ حماس میں متحرک ہوئے۔ اسماعیل ہنیہ کی شادی اپنی چچازاد بہن سے ہوئی تھی اور ان کے 13 بچے تھے، جن میں سے کچھ عرصہ قبل جان بحق ہو گئے تھے۔ ہنیہ مالی اعتبار سے کمزور نہیں تھے اور وہ ایک کروڑ پتی شخص تھے۔ ستمبر 2016 میں ہنیہ اپنی بیوی اور اپنے دو بیٹوں کے ساتھ حج کے لئے مکہ گئے تھے۔
ہنیہ کی بہنیں، خالدہ ، لیلیٰ، اور صباح، اسرائیلی شہری ہیں اور جنوبی اسرائیل کے بیڈوین قصبے تل السبی میں رہتی ہیں۔ لیلیٰ اور صباح دونوں بیوہ ہیں لیکن ممکنہ طور پر اپنی اسرائیلی شہریت برقرار رکھنے کے لیے تل السبی میں رہتی ہیں۔ تین بہنوں کے کچھ بچے اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف )میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔
13 دسمبر کو ایک رائے عامہ کے جائزے کی بنیاد پر دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہنیہ ریاست فلسطین کے صدر کے عہدے کے لیے موجودہ محمود عباس کو بھاری اکثریت سے شکست دے سکتے تھے۔ اس جائزے میں 78 فیصد نے ہنیہ کے حق میں رائے دی تھی۔
ایسے شخص کا قتل اور وہ بھی دوسرے ملک کی سرزمین پر، سوالات کھڑے کرتا ہے۔ یاسر عرفات کی موت پر بھی آج تک کئی طرح کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ ایران میں پہلے ابراہیم رئیسی کی موت، پھر مغربی ممالک کی جانب نرم رویہ رکھنے والے صدر کا انتخاب اور اب اسماعیل ہنیہ کی موت، ایرانی خفیہ ایجنسیوں پر بھی سوالات اٹھانے پر مجبور کرتا ہے۔ ایران کیا جواب دے گا کہ وہ اپنے مہمانوں کی بھی حفاظت نہیں کر سکتا۔
اسماعیل ہنیہ کی موت نے جہاں ایران کی حفاظتی صلاحیتوں پر بڑا سوال کھڑا کر دیا ہے وہیں نیتن یاہو کی سازش، حماس کی سیاست، محمود عباس کی گرتی مقبولیت اور اسماعیل ہنیہ کی ذاتی زندگی کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو لیکن عوام بلخصوص مسلمانوں کا جذباتی استحصال کیا جا رہے۔ جب تک حقیقت سے پردہ اٹھتا ہے تب تک بیچارے عوام یہی سب کچھ سوچتے رہیں گے کہ ان کا اسماعیل ہنیہ کا مداح ہونا درست ہے یا وہ اسرائیل یا نیتن یاہو کی سازش کا شکار ہوئے ہیں۔ اس موت کا امریکی صدارتی انتخابات پر کیا اثر پڑے گا اس پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی جائے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔