کملا ہیرس کی امید اور ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ مہم، امریکہ کے 47ویں صدر کے انتخاب کا فیصلہ قریب

امریکہ کے 47ویں صدر کے انتخاب میں کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان سخت مقابلہ جاری ہے۔ دونوں امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم میں مختلف موضوعات پر زور دیا

<div class="paragraphs"><p>ہیرس اور ٹرمپ (فائل) تصویر سوشل میڈیا</p></div>

ہیرس اور ٹرمپ (فائل) تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آواز بیورو

واشنگٹن: امریکہ میں صدارتی انتخابات کی دوڑ اپنے عروج پر ہے، جہاں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس اور ان کے حریف ریپبلکن پارٹی کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ایک سخت مقابلہ جاری ہے۔ یہ الیکشن ایک منفرد پس منظر میں ہو رہا ہے، جس میں سیاسی تناؤ، متضاد بیانات اور انتخابی حربے شامل ہیں۔

کملا ہیرس نے اپنی انتخابی مہم کے دوران امید، اتحاد، اور خواتین کے حقوق کے مسائل پر زور دیا۔ انہوں نے انتخابی مہم کے آخر میں اپنے خطاب میں کہا کہ یہ انتخاب ملک کی بنیادی آزادیوں کی حفاظت، آئینی اقدار کی بقا اور خواتین کے حقوق کی ضمانت کے لئے اہم ہے۔ نیز، اگر وہ کامیاب ہوئیں تو وہ امریکہ کی پہلی خاتون، پہلی سیاہ فام خاتون اور جنوبی ایشیائی نسل کی پہلی صدر بن جائیں گی۔


دوسری جانب، ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی مہم میں اپنی روایتی جارحانہ بیان بازی کو جاری رکھا، جس میں انہوں نے معیشت کی بحالی اور امریکہ کو غیر قانونی مہاجرین سے پاک کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ ٹرمپ نے اپنی حریف پر کڑی تنقید کی اور یہ بھی کہا کہ اگر وہ انتخاب میں ہار گئے تو نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے! یہ بیان ان کی سیاسی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے، جو کہ انہیں ان کے حامیوں میں مقبول بناتا ہے۔

یہ انتخابی سفر ٹرمپ کے لئے کافی چیلنجز سے بھرپور رہا ہے۔ انہیں مارچ میں اپنی پارٹی کی جانب سے صدارتی نامزدگی ملی اور جولائی میں ریپبلکن نیشنل کنونشن میں انہیں باضابطہ طور پر نامزد کیا گیا۔ یہ ان کی سیاسی زندگی میں ایک اہم واپسی تھی، کیونکہ انہیں کئی قانونی مسائل کا سامنا رہا۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے جب کسی سنگین جرم میں سزا پانے کے بعد کسی ملک میں اعلیٰ عہدے کے لئے نامزد ہوئے۔


کملا ہیرس کا سفر بھی کم دلچسپ نہیں رہا۔ دراصل، کملا ہیرس کو اس وقت موقع ملا جب صدر جو بائیڈن اپنی نامزدگی سے دستبردار ہو گئے۔ کچھ وقت پہلے ہی انہوں نے ٹرمپ کے ساتھ ٹیلی ویژن پر ہونے والی بحث میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ تاہم، بائیڈن نے کملا ہیرس کی اپنا جانشین قرار دیتے ہوئے حمایت کی اور اگست میں ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن میں انہیں باضابطہ طور پر امیدوار نامزد کیا گیا۔

یہ انتخابات ایک ایسی صورت حال میں ہو رہے ہیں جہاں دونوں امیدواروں کے مابین مقابلہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ سیاسی ماہرین نے اسے کئی دہائیوں میں سب سے اہم انتخابی دور قرار دیا ہے۔ اس بار دونوں طرف سے چلائی جانے والی انتخابی مہمات نے ملک کی سیاست میں نئی جہتیں پیدا کی ہیں اور عوامی دلچسپی بڑھا دی ہے۔

جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے، سیاسی مبصرین کی نظریں دونوں امیدواروں کے اس اہم مقابلے پر ہیں، جو نہ صرف امریکہ کے مستقبل بلکہ عالمی سیاست پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ان انتخابات کے نتائج ملک کے اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کی شکل بھی بدل سکتے ہیں اور دونوں امیدواروں کی سیاست کی داستان کو نئی راہیں فراہم کر سکتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔