مظلوموں کا انتقامی جذبہ، اللہ خیر کرے!
فلسطین میں اسرائیلی جارحیت اور مغربی ممالک کی منافقانہ حمایت ایک ایسے سانحے کو جنم دے رہی ہے جس کا جواب صرف غم و غصہ اور انتقام کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے
کئی روز کی دھمکیوں اور بڑے پیمانے پر جنگی تیاریوں کے بعد آخرکار جمعہ اور سنیچر کی درمیانی شب اسرائیل نے ایران کے متعدد دور افتادہ علاقوں پر ’آتش بازی‘ کر کے ’منہ توڑ جواب دینے‘ کی رسم ادا کر دی۔ مغربی میڈیا کے مطابق اسرائیل کی جانب سے ایران پر ’حملے‘ کے لیے 100 سے زائد طیاروں اور ڈرونز کا سہارا لیا گیا، جس میں بیلسٹک میزائل سائٹس اور فضائی دفاعی بیٹریوں سمیت تقریباً 20 اہداف کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا گیا۔ ایران پر حملے میں ایف-35 طیاروں نے بھی حصہ لیا۔ خبروں کے مطابق اتنا تام جھام کرنے کے باوجود امریکی حمایت یافتہ اسرائیل کو اس وقت شدید پشیمانی کا سامنا کرنا پڑا جب اسلامی جمہوریہ کے دفاعی نظام نے زیادہ تر اسرائیلی میزائل مار گرائے۔
بعد ازاں ایران نے راجدھانی کے اطراف میں ہوئے اسرائیلی حملوں کے جواب میں تل ابیب کو متنبہ کیا کہ اب جوابی کارروائی کے لیے تیار رہے۔ ایرانی فوجی ذرائع نے کہا ہے کہ ایران اسرائیل کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیار ہے اور یقینا اسرائیل کو کسی بھی اقدام کا منہ توڑ جواب ملے گا۔ ایرانی فوجی ذرائع نے صیہونی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اسے منہ توڑ اور حیران کن جواب ملے گا۔ فوجی ذرائع نے مزید کہا کہ ایران ردعمل میں کسی تاخیر یا جلد بازی سے کام نہیں کرے گا، ایران اس حملے کو یاد رکھے گا اور ’احمق‘ کو سزا دینا کبھی نہیں بھولے گا، جو اس طرح دی جائے گی کہ ہر بار دشمن حیران رہ جائے گا۔ مشرق وسطی میں اس تازہ پیش رفت کے بعد خطے میں جنگ کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔
واضح رہے کہ اسرائیل کو امریکہ کی جانب سے ہر طرح کی امداد اور حمایت غیر معمولی انداز میں مل رہی ہے، بشمول بیلسٹک میزائلوں کے خلاف فضائی دفاعی نظام کا جدید ترین اپ گریڈڈ سسٹم ’تھاڈ‘، جس نے اسرائیل پر ایک ہمہ گیر جنگ کو روکنے کے لیے اپنی کوششوں کو وسعت دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ نے اپنی فوجی موجودگی اور پورے مشرق وسطیٰ میں اپنی افواج کی تعیناتی میں زبردست اضافہ کیا ہے۔ امریکہ اسرائیل کی دہشت گردی کو اس کا حق دفاع قرار دیتا ہے، جو کہ اس کی مجبوری ہے۔
ایک جانب امریکہ میں موجود مضبوط یہودی لابی ہے کہ جس کے اختیار میں امریکہ کی انتظامیہ ہے، تو دوسری جانب اسرائیل کے لیے کسی جنگ کا حصہ بننے کا مطلب امریکہ کا اپنا زوال ہے، جس کا امریکہ کے ذہین دماغوں کو بخوبی ادراک ہے۔ در حقیقت فلسطینی مزاحمت کاروں کے ہاتھوں جس طرح سے اسرائیل بے بس ہوا ہے اور طاقت کے بدترین استعمال اور ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اسرائیل نہ تو اپنے یرغمالیوں کو حماس سے آزاد کرانے میں کامیاب ہو سکا ہے اور نہ ہی لبنان اور غزہ سے راکٹوں کی بارش روک سکا ہے اور اس ناکامی اور عالمی ہزیمت کے باعث اب اسرائیل امریکہ کی بھی سننے کو تیار نہیں ہے، جس سے امریکہ کو بھی نظر آ رہا ہے کہ اگر ایران کے ساتھ براہ راست جنگ ہوتی ہے تو امریکہ جو یوکرین میں بری طرح ذلیل ہو رہا ہے، اس کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہوگا۔
موجودہ جنگ کا ایک دوسرا اور اہم پہلو انسانیت کا قتل ہے، جس پر چھاتی پیٹ پیٹ کر حقوق انسانی کی دُہائی دینے والے خود ساختہ ’سپر پاور‘ بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں۔ فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت ایک ایسا المیہ ہے جو نہ صرف اس خطے کے امن کو تباہ کر رہا ہے بلکہ دنیا بھر کے انسان دوست حلقوں میں شدید غم و غصے کو جنم دے رہا ہے۔ حالیہ اسرائیلی حملوں میں جس طرح بے گناہ فلسطینیوں کی جانوں کا ضیاع ہوا، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عالمی ضمیر انسانی حقوق کے تحفظ میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ ان حملوں میں مرنے والا ہر معصوم بچہ، مرد و عورت نئی نسل کے دلوں میں انتقام کی آگ کو بھڑکاتا ہے اور یہ سوال اٹھاتا ہے کہ آخر یہ ظلم کب تک جاری رہے گا؟ کیا دنیا خاموش تماشائی بن کر انسانیت کی اس تباہی کو دیکھتی رہے گی؟
فلسطین میں اسرائیلی جارحیت اور مغربی ممالک کی منافقانہ حمایت ایک ایسے سانحے کو جنم دے رہی ہے جس کا جواب صرف غم و غصہ اور انتقام کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔ آج بھی غزہ میں ہر مرنے والا بچہ اپنے پیچھے ایک خاندان چھوڑتا ہے، جو غم و غصے اور انتقام کی آگ میں جلتا ہے۔ ان خاندانوں کے لیے اپنے بچوں کی بے گناہ ہلاکت کو بھولنا یا معاف کرنا ممکن نہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگی حکمت عملیوں نے نہ صرف عراق، افغانستان، شام، غزہ اور لبنان میں بھی مزید بدامنی کو فروغ دیا بلکہ وہاں ایک ایسی نسل کو جنم دیا جو انتقام اور نفرت کے جذبات سے بھرپور ہے۔ یہی وہ عنصر ہے جو عسکریت پسندی کو تقویت دیتا ہے اور نئی نسل کا انتقامی جذبہ اسی ظلم کا ردعمل بن جاتا ہے۔
انسانی نفسیات کا یہ فطری اصول ہے کہ جب کوئی فرد یا کمیونٹی مسلسل ظلم و جبر کا سامنا کرتی ہے تو وہ یا تو مایوسی کا شکار ہو جاتی ہے یا پھر وہ جارحانہ رویے اختیار کر لیتی ہے۔ فلسطینی عوام کی زندگی جبر اور ظلم کے سائے تلے گزر رہی ہے۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ مغربی طاقتیں اور امریکہ ان ممالک میں جاری خونریزی کے لیے کب تک اپنی ذمے داری سے بچتے رہیں گے؟ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے جو انسانی حقوق کے تحفظ کا دعویٰ کرتے ہیں، فلسطین میں ہونے والے مظالم پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی دہرے معیار کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ کیا یہ بات انسانی حقوق کے علمبرداروں کے دعووں کی ناکامی نہیں ہے کہ معصوم انسانوں کی ہلاکتوں پر عالمی سطح پر کوئی موثر ردعمل سامنے نہیں آیا؟
کیا انسانی حقوق صرف مغربی دنیا کے لوگوں کے لیے ہیں؟ کیا فلسطینیوں کو زندہ رہنے، جینے اور عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق نہیں ہے؟ امریکہ نے اسرائیل کو جدید ترین اسلحہ فراہم کرنے کے لیے اپنے بحری بیڑے تک متحرک کر دیے ہیں، اور برطانیہ اور فرانس نے بھی کھلے عام اسرائیل کے حق میں بیان دیے ہیں۔ اسرائیل کو ہر وہ حربہ اپنانے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے جس سے وہ فلسطینیوں کو نشانہ بنا سکے۔ یہ وہ ممالک ہیں جو عالمی فورمز پر انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن جب فلسطینیوں کی نسل کشی کی بات آتی ہے، تو ان کی زبانیں خاموش ہو جاتی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔