’یومِ قدس‘ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے تناظر میں...سراج نقوی
’یوم قدس‘ پر دنیا بھر میں فلسطینیوں کی حمایت میں کھڑے ہونے والے لوگوں کو یہ احساس نہیں ہونا چاہیے کہ عام مسلمانوں نے بھی فلسطینیوں کے دکھ درد میں ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے
گزشتہ کئی دہائیوں سے دنیا بھر کے مسلمان رمضان المبارک کے آخری جمع کو ’یوم قدس‘ کے طور پر مناتے آ رہے ہیں۔ بنیادی طور پر اس کا انعقاد مسجد اقصیٰ کی بازیابی اور صہیونی ریاست کا اس پر قبضہ ختم کرنے کے عزم کی تجدید کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ ایک المیہ ہی ہے کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی یعنی مسلمانوں کو ان کے قبلہ اوّل سے محروم کرنے والی صہیونی ریاست اسرائیل سے مسلمان اپنا جائز حق لینے میں ابھی تک ناکام ہیں۔ بہرحال یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن جہاں تک جمعۃ الوداع کے ’یوم قدس‘ کے طور پر منانے کا تعلق ہے تو اس کا مقصد اس عزم کو زندہ رکھنا ہے کہ مسلمان اپنے قبلہ اول کی حصولیابی کے مشن کو بھولا نہیں ہے۔
لیکن اس سال ’یوم قدس‘ کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ اس لیے کہ قبلہ اوّل کی بازیابی سمیت تمام فلسطینی علاقوں کو قابض صہیونی حکمرانوں سے آزاد کرانے اور ایک آزاد فلسطین کے قیام کے لیے تمام فلسطینی حماس کی قیادت میں گزشتہ 7 اکتوبر سے برسر جہاد ہیں۔ ان چھ ماہ میں مظلوم فلسطینیوں کو کتنی قربانیاں دینی پڑی ہیں۔ ان کا کس قدر جانی و مال نقصان ہوا ہے۔ صہیونی درندوں نے ان پر ظلم و ستم کے کتنے پہاڑ توڑے ہیں ان کی تفصیل ساری دنیا کے سامنے ہے۔ یہ الگ بات کہ بیشتر مسلم حکومتیں ان حقائق سے اپنے مفادات اور خود غرضی کے سبب چشم پوشی کیے ہوئے ہیں۔ لیکن صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مظلوم فلسطینی شہریوں خصوصاً بچوں اور خواتین پر مسلسل کیے جا رہے صہیونی مظالم نے کئی ایسے ممالک کو بھی فلسطینیوں کے حق میں لا کھڑا کیا ہے جو یہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل کو یہ یقین دلاتے رہے ہیں کہ وہ اس کے کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے ہیں۔
مسلم حکمرانوں کی بے حسی پر خاک ڈالیے لیکن یہ بہرحال حقیقت ہے کہ باقی دنیا میں ایسے کئی ممالک ہیں کہ جنھوں نے اسرائیل سے یا تو اپنے سفارتی رشتے منقطع کر لیے ہیں یا پھر اس کے ساتھ تعاون سے اپنے ہاتھ کھینچ لیے ہیں۔ ایسے بھی ممالک ہیں کہ جنھوں نے اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹا کر اپنی بیداری کا ثبوت دیا ہے، اور اسرائیلی بربریت کے خلاف اپنی آواز بلند کی ہے۔
ان تمام حالات میں رمضان کے آخری جمعہ کو ’یوم قدس‘ کے طور پر منانے کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ اس دن صرف قبلہ اوّل کی بازیابی کے لیے آواز بلند کرنا اور اس مقصد کے لیے جلسے جلوس کرنا، احتجاجی مظاہرے کرنا ہی کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم ان فلسطینیوں کے تئیں اظہار یکجہتی بھی کریں کہ جنھوں نے گزشتہ چھ ماہ میں اپنے معصوم بچوں، اپنی خواتین یا بزرگوں کو کھو دیا ہے۔ جو صہیونی درندگی کے نتیجے میں بے گھر ہو گئے ہیں۔ جو زندہ تو ہیں لیکن خوف و دہشت کے سائے میں زندگی گزارنے کے لیے مجبور کر دیے گئے ہیں اور جن تک غذائی وطبّی امداد پہنچنے کے راستے بھی اسرائیل نے بند کر دیے ہیں۔ جنھیں رمضان المبارک کی برکتوں سے محروم کر کے غیر اعلانیہ قیدی بنا دیا گیا ہے۔ بات ان کی نہیں کہ جو اسرائیل سے برسر پیکار ہیں، بلکہ یہ ان کی بات ہے کہ جو فلسطین کے عام شہری ہیں، ایک آزاد اور خود مختار فلسطین کا قیام اور مسجد اقصیٰ کی بازیابی ان کا بھی خواب ہے۔
مسجد اقصیٰ کی بازیابی کے لیے رمضان کے آخری جمعہ کو کیے جانے والا احتجاج اس مرتبہ صرف ایک رسمی انعقاد نہیں ہونا چاہیے۔ اس دن کی اہمیت اس سال یہ بھی ہے کہ تمام مسلمان اپنی اپنی حکومتوں کے موقف سے قطع نظر مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کریں۔ یہ یکجہتی صرف زبان اور احتجاج کی حد تک کرنا اس مرتبہ کافی نہیں بلکہ اس احتجاج میں شامل ہر شخص کو مظلوم فلسطینیوں کی ہر طرح اور اپنے وسائل کے مطابق مدد پر بھی خود کو آمادہ کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ کچھ مسلم حکمراں بھلے ہی بے غیرتی کے ساتھ لذت کام و دہن اور عیاشیوں میں مصروف ہو کر فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم سے چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہوں، لیکن کئی غیر مسلم حکومتیں بھی اور غیر مسلم عوام بھی فلسطینیوں کے حق میں اپنے اپنے ملک میں پر زور طریقے سے صدائے احتجاج بلند کر کے اپنی اپنی حکومتوں پر اس بات کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کے حق میں کھڑی ہو۔ اسرائیل کو ظلم سے باز رکھنے اور فلسطینیوں کو ان کا حق دینے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔
’یوم قدس‘ پر دنیا بھر میں فلسطینیوں کی حمایت میں کھڑے ہونے والے لوگوں کو یہ احساس نہیں ہونا چاہیے کہ عام مسلمانوں نے بھی فلسطینیوں کے دکھ درد میں ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ ’یوم قدس‘ کو صرف ایک رسم بنانے کے بجائے اس سال اسے ایک تاریخی اور موثر احتجاج بنائے جانے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ اسرائیل کو آمنے سامنے کی جنگ میں دھول چٹانے والے فلسطینی مجاہدین آزادی اور حریت پسندوں نے اس سال ’یوم قدس‘ کو معرکہ طوفان اقصیٰ کے سائے میں منانے کا اعلان کیا ہے۔ اس سال ’یوم قدس‘ کی اہمیت اس لیے بڑھ گئی ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ فلسطینی حریت پسندوں نے صہیونی فوج کو شکست کا ذائقہ چکھنے کے لیے مجبور کیا ہے اور بڑے پیمانے پر اسرائیل کو فوجی اور دفاعی نقصان سے دوچار کیا ہے۔ یہ الگ بات کہ اس کے سبب فلسطینی کے 33 ہزار سے زیادہ عام شہریوں، بچوں اور خواتین کو بھی اپنی قربانی دینی پڑی ہے۔ قبلہ اوّل کی بازیابی کے لیے برسوں سے دنیا بھر میں مظاہرے کرنے والوں کے لیے اس سال کا ’یوم قدس‘ اس لیے خاص ہے کہ صہیونیت کے خلاف فلسطینیوں کی موجودہ جنگ اب ایک فیصلہ کن موڑ پر ہے اور باوجود اس بات کے کہ بیشتر مسلم ممالک نے اس معاملے میں صرف ’بیان بہادر‘ کا رول ادا کیا ہے۔
فلسطینیوں نے صہیونی ریاست کو ایک ناقابل تصور نقصان سے دوچار کر کے 75سال پرانی اپنی مزاحمت کی تاریخ میں نیا ’باب شجاعت‘ رقم کر دیا ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں میں یہ امید پیدا کر دی ہے کہ قبلہ اوّل کی آزادی محض ایک خواب نہیں رہ سکتی۔ آزاد فلسطین کے قیام کی کوششیں رائیگاں نہیں ہو سکتیں۔ مسلم حکومتیں بھلے ہی سوتی رہیں لیکن ہر حق پسند کو اب اپنے ضمیر کی بیداری کے ساتھ ’یوم قدس‘ پر فلسطینی کاز کے ساتھ خود کو جس طرح بھی ممکن ہو جوڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس موقع پر ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اسرائیل اپنی طاقت کے تمام تر دعووں اور امریکہ کی سرگرم حمایت کے باوجود حماس جیسی چھوٹی سی مزاحمت پسند تنظیم کو شکست دینے میں ناکا م رہا ہے، تو اگر دنیا بھر کے حق پسند اور خصوصاً مسلمان اگر متحد ہو جائیں تو نہ صرف اسرائیل بلکہ اس کی مددگار تمام طاقتوں کے باطل ارادوں کو ناکام کر کے مسجد اقصیٰ کی بازیابی اور فلسطین کے قیام کو جلد ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہانیہ نے ’یوم قدس‘ کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ”اس سال یروشلم کا بین الاقوامی دن طوفان الالقصیٰ کے عظیم معرکے کی روشنی میں منایا گیا ہے اور ہمارا یروشلم درد و امید کی کیفیت میں ہے۔“ حقیقی معنوں میں ’یوم قدس کی کامیابی اس بات میں مضمر ہے کہ یروشلم یا یوں کہیں کہ مسجد اقصیٰ جس درد و امید کی کیفیت میں ہے اسے درد کی کیفیت سے نکال کر اور اس کی امید کو حقیقت میں بدل کر صہیونیت کے ارادوں کو ناکام کر دیا جائے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔