نیتن یاہو کے مجوزہ عدالتی اصلاحات روکے جانے کے بعد احتجاج ختم، جانیں کیا ہیں یہ عدالتی اصلاحات؟
اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے پیر کی رات کو ان عدالتی اصلاحات کو روک دیا جن کی وجہ سے اسرائیل میں اب تک کا سب سے شدید گھریلو بحران پیدا ہوا
تل ابیب: اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے پیر کی رات کو ان عدالتی اصلاحات کو روک دیا جن کی وجہ سے اسرائیل میں اب تک کا سب سے شدید گھریلو بحران پیدا ہوا۔ ان اصلاحات کے پیش نظر اسرائیل میں عام ہڑتال، سیاسی تقسیم اور بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہو گئے تھے، تاہم اب یہ سلسلہ تھم چکا ہے۔
تقریباً تین ماہ کی کشیدگی کے بعد نیتن یاہو نے ایک نشریات میں کہا ’’قومی ذمہ داری کے احساس اور اپنے لوگوں کے درمیان پھوٹ کو روکنے کی خواہش کے تحت میں نے بل کی دوسری اور تیسری ریڈنگ کو روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
ان کا تبصرہ اپنے وزیر دفاع یوو گیلنٹ کو برطرف کئے جانے کے کے ایک دن بعد سامنے آیا۔ یوو گیلنٹ نے قومی سلامتی کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے قانون سازی کے عمل کو روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس سے پہلے پیر کو وزیر اعظم کے خطاب سے پہلے دسیوں ہزار مظاہرین نے ہڑتال کے اعلان کے بعد یروشلم میں پارلیمنٹ کے قریب ریلی نکالی تھی لیکن نیتن یاہو کے اعلان کے فوراً بعد ہسٹادرٹ ٹریڈ یونین کنفیڈریشن کے چیئرمین آرنون بار ڈیوڈ نے ہڑتال ختم کر نے کا اعلان کر دیا۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی متعارف کردہ مجوزہ عدالتی اصلاحات نے اسرائیل میں گذشتہ کئی دہائیوں میں سب سے شدید سماجی بے چینی کو جنم دیا تھا۔ اس مجوزہ منصوبے کے خلاف ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل کراحتجاج کر رہے تھے۔
ان مظاہروں کی وجہ سے پورا اسرائیل ایک طرح سے مفلوج ہو گیا تھا۔ اسرائیل کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین نے ملک کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو مفلوج کرنے کے لیے عام ہڑتال کا اعلان کیا اور ہزاروں افراد پارلیمنٹ کے باہر جمع ہو کر احتجاج کر تے رہے ۔اس یونین میں کاروباری، رہنما، بینک سربراہان، لڑاکا پائلٹ، اضافی فوجی دستے، ماہرینِ تعلیم، سابق سکیورٹی کمانڈرز اور معاشرے کے دیگر بااثر طبقات شامل ہوئے۔ وہ عدالتی اصلاحات کے اس منصوبے کے خلاف گذشتہ کئی ہفتوں سے سراپااحتجاج بنے ہوئے تھے۔
نیتن یاہو کے خلاف تین مختلف مقدمات زیرسماعت ہیں۔ان میں ایک بدعنوانی کا مقدمہ شامل ہے، وہ 2019 ء سے ملک میں سیاسی افراتفری کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ان پرفردِ جُرم عاید کیے جانے کے بعد ان کے سابق حکومتی اتحادی حملہ آور ہوگئے اور وہ ایک مستحکم اور دیرپااتحاد تشکیل دینے سے قاصررہے۔اس کے نتیجے میں ایک طویل سیاسی بحران پیدا ہوا جس نے اسرائیلیوں کو چارسال سے بھی کم عرصے میں پانچ مرتبہ انتخابات میں جھونک دیا۔
حزب اختلاف کے رہ نما کی حیثیت سے 18 ماہ کی ’سیاسی تنہائی‘ کے بعد نیتن یاہو نے گذشتہ سال کے آخر میں الٹرا آرتھوڈکس اور الٹراقوم پرست اتحادیوں کے ساتھ مل کراب تک کی سب سے انتہاپسند دائیں بازو کی حکومت تشکیل دی۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی کی اہم شخصیات نے اپنے حکومتی شراکت داروں کے ساتھ مل کرملک کے عدالتی نظام کو تیزی سے تبدیل کرنے کا عہد کیا تھا،جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مہم عدالتی نگرانی کے ساتھ اپنے نظریاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی خواہش کی آئینہ دار ہے۔ ان تبدیلیوں سے حکومتی اتحاد کو عدالتوں میں تقررپر کنٹرول حاصل جائے گا اور پارلیمان کو اپنے فیصلوں کو تبدیل کرنے اور قوانین کے عدالتی جائزے کو محدود کرنے کا اختیاربھی مل جائے گا جس سے ملک کی سپریم کورٹ کمزور ہوگی۔
مخالفین کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی سے ملک کے چیک اوربیلنس کے نازک نظام کو ختم کر دیا جائے گا اور نیتن یاہو کے زیرقیادت حکمراں اتحاد کو آزاد عدلیہ پر کنٹرول مل جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیتن یاہو اپنے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران میں قانونی نظام کو نئی شکل دینے کی کوشش کررہے ہیں اور اس میں مفادات کا گہرا ٹکراؤ ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مداخلت پسند عدلیہ کے سامنے حکمرانی کو ہموار کرنے کے لیے قانونی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔
نیتن یاہو کے قریبی ساتھی وزیر انصاف یاریو لیون نے جنوری میں عدالتی اصلاحات کے اس منصوبہ کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد سے اسرائیل کو قریباً تین ماہ سے بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سامنا تھا لیکن وزیر دفاع یواف گیلنٹ کی برطرفی پر غیظ وغضب کا اظہار حیران کن تھا۔ قریباً ایک گھنٹے میں ہزاروں افراد نے تل ابیب کی مرکزی شاہراہ کو بند کر دیا اور ہزاروں افراد نے نیتن یاہو کے یروشلم (مقبوضہ بیت المقدس) میں واقع گھر کے باہر مظاہرہ کیا۔
گیلنٹ نیتن یاہو کی کابینہ کے پہلے وزیر تھے جنھوں نے عہدکو توڑا اور عوامی طور پر اصلاحات میں تاخیر کا مطالبہ کیا۔ حوصلے پست ہونے اور فوجیوں کی جانب سے ڈیوٹی پر نہ آنے کی دھمکیوں کے بعد گیلنٹ نے کہا کہ اس منصوبے پرآگے بڑھنے سے اسرائیل کی فوجی تیاریوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اسرائیل میں ریٹائرڈ جنرل گیلنٹ نئی کابینہ کے سب سے معزز ارکن میں سے ایک ہیں۔قومی سلامتی کے ذمہ دار شخص پر حملہ کر کے نیتن یاہو نے شاید ایک سرخ لکیرعبور کر لی ہو اور نادانستہ طور پر قومی سلامتی کو چھو کر اس گہرے تقسیم شدہ ملک کو متحد کردیا ہو۔
اسرائیل کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین ملک کے سب سے طاقتور اداروں میں سے ایک ہے، جو صحت کی دیکھ بھال، بینکاری، سرکاری خدمات، ڈے کیئر اور نقل و حمل سمیت مختلف شعبوں میں قریباً 800،000 افراد کی نمائندگی کرتی ہے۔
اگرچہ یہ لڑائی اسرائیل کا اندرونی معاملہ لگتا ہے، لیکن اس کے نتیجے کے خطے اوراس سے باہر اہم اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔نیتن یاہو کے اتحادیوں میں مذہبی اور قوم پرست قدامت پسندوں کا غلبہ ہے جو فلسطینی ریاست کی مخالفت کرتے ہیں اور مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری کی تحریک سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں۔ ایک کمزورعدالتی نظام زیادہ جارحانہ بستیوں کی تعمیر اور یہاں تک کہ مغربی کنارے کی زمینوں کے الحاق کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ اس سے فلسطینیوں کے ساتھ مزید کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے، جو اسرائیل کے زیرقبضہ مغربی کنارے کو مستقبل کی ایک آزاد ریاست کا حصہ بنانا چاہتے ہیں، اور ساتھ ہی اسرائیل کے مغربی اتحادیوں کے ساتھ بھی، جنھوں نے اس تبدیلی کے بارے میں تشویش کا اظہارکیا ہے اور ان کے کچھ شراکت داروں کے تبصروں کو تنقید کا نشانہ بنایاہے۔
(بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔