’آزادی صحافت پر یقین رکھنے والوں جولیان اسانج کے لیے لڑنا چاہیے‘
وکی لیکس کے بانی جولیاں اسانج کو لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے سے حراست میں لے لیا گیا ہے، ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگاہ ماتھیاس فان ہائن کے مطابق آزادیء صحافت پر یقین رکھنے والوں کو ان کے لیے لڑنا چاہیے۔
بلآخر یہ ہو گیا۔ ایکواڈور کے حکام نے برطانوی پولیس کو لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے سے جولیان اسانج کو حراست میں لینے کی اجازت دے دی۔
یہ قانون کی حکم رانی کے حوالے سے ایک مذاق اور آزادی رائے پر ایک کھلا حملہ بھی ہے۔ ان صحافیوں کے لیے دھچکا بھی جو تلخ سچ کو آزادیء اشاعت کے تحت شائع کرتے ہیں۔ کوئی یقین نہیں کر سکتا کہ برطانوی حکومت نے برسوں تک لاکھوں پاؤنڈ خرچ کر کے جولیان اسانج کی گرفتاری کے لیے ایکواڈور کے سفارت خانے کے سامنے محافظ تعینات رکھے کیوں کہ اسانج کے خلاف سن 2010ء میں گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے تھے۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جولیان اسانج کے خلاف واحد جائز الزام پر انہیں سن 2012ء میں ضمانت مل چکی ہے۔ برطانیہ میں ایسے الزام پر زیادہ سے زیادہ جرمانہ عائد ہوتا ہے یا زیادہ سے زیادہ ایک برس تک کی قید، جب کہ جولیان اسانج پچھلے سات سال ایکواڈور کے سفارت خانے میں ایک چھوٹے سے کمرے میں گزار چکے ہیں، یہ تو خود اس الزام سے بڑی سزا تھی۔
اسانج کی گرفتاری کی واحد اور اصل وجہ یہ ہے کہ برطانیہ کے قریبی اتحادی ملک امریکا نے اسانج کی گرفتاری کو ترجیح پر رکھا ہے۔ سن 2018ء کے موسم خزاں میں، طویل عرصے سے جاری چہ مگوئیوں کے بعد واضح ہو گیا تھا کہ ایک امریکی عدالت اسانج کے خلاف فوج داری مقدمہ قائم کر رہی ہے اور الزام ہے، ریاستی راز افشا کرنا۔ سن 2017 میں تب کے امریکی اٹارنی جنرل جیف سیشنز نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ اسانج کی گرفتاری ’امریکی ترجیح‘ ہے۔ اسی سال امریکی سی آئی اے کی سربراہی سنبھالنے والے (موجودہ وزیرخارجہ) مائیک پومپیو نے وکی لیکس کو دشمن ملک کی خفیہ سروس کا لقب دیا تھا اور دھمکی دی تھی کہ اسے بند کر دیا جائے گا۔
اس وقت پومپیو فقط امید ہی ظاہر کر سکتے تھے کیوں کہ ایکواڈور میں رافائل کوریا کی بائیں بازو کی حکومت نے لندن میں قائم اپنے ملک کے سفارت خانے میں اسانج کو تحفظ فراہم کر رکھا تھا۔ تاہم بعد میں وہ اقتدار سے باہر ہو گئی۔ کوریا کے بعد لینن مورینو کی حکومت کا اسانج سے متعلق موقف مختلف تھا۔ جس کے بعد اسانج کا سفارت خانے میں رہنا مشکل سے مشکل تر بنایا جانے لگا۔ اسانج کو سفارت خانے میں انٹرنیٹ اور ٹیلی فون رابطوں کے استعمال اور انہیں مہمانوں کو مدعو کرنے سے روک دیا گیا۔
مارچ تک امریکا چیلسی میننگ کو دوبارہ جیل بھیل کر واضح کر چکا تھا کہ وہ اسانج تک رسائی کے لیے اپنی کوششوں میں تیزی لا رہا ہے۔ چیلسی میننگ نے عراق اور افغان جنگ سے متعلق کئی خفیہ امریکی دستاویزات لیک کی تھیں۔ انہیں سابق امریکی صدر باراک اوباما نے معافی دی تھی اور وکی لیکس کے خلاف بیان دینے سے انکار کیا تھا۔
وکی لیکس کئی طرح کے تلخ سچ سامنے لائی جو خصوصاﹰ دنیا کی کئی بڑی طاقتوں کے لیے شرمندگی کا باعث بنے اور ان کی چھپی ہوئی کارروائیوں کا علم لوگوں کو ہوا۔ مثال کے طور پر امریکی فوج، امریکی خفیہ اداروں، امریکی سفارت کاروں اور دیگر سے متعلق معلومات۔ مگر حقیقی معنوں میں جمہوری ریاستوں کو ضرورت ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو باخبر رکھیں کہ ان کی حکومتیں خفیہ طور پر کیا کچھ کر رہی ہیں۔
جولیان اسانج نے کبھی خود کوئی راز افشا نہیں کیا، انہوں نے فقط دستاویزات شائع کیں، کسی قابل اعتبار میڈیا ہاؤس کی طرح۔ جولیان اسانج کی ان اشاعتوں سے کئی جرمن میڈیا ہاؤسز نے براہ راست فائدہ اٹھایا۔ اور اب وقت ہے کہ کچھ لوٹایا بھی جائے اور اسانج کے حق میں بولا جائے۔ اس شخص کی کھل کر حمایت کی جائے، جس نے مختلف میڈیا اداروں کو خفیہ مواد تک رسائی دی۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے، تو عالمی طاقتیں دیگر میڈیا ہاؤسز کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں گی، جیسا وہ اسانج کے ساتھ کر رہی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔