ابی احمد کو ’نوبل امن انعام‘، ہمسایوں سے ناخوشگوار تعلقات رکھنے والے ممالک کےلئے سبق
ایتھوپیا ملک چاہے امریکہ کے برابر بڑا اور پیسے والا نہ ہو لیکن اس نے پیغام دے دیا ہے کہ بڑا کام کرنے کے لئے بڑا اور امیر ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کے لئے مثبت سوچ اور اچھی نیت ہونا ضروری ہے
جو ملک خود کبھی زیادہ خبروں میں نہیں رہا ہو اس کے وزیر اعظم کو نوبل انعام برائے امن دیا جانا اپنے آپ میں بڑی حیران کرنے والی خبر ہے۔ لوگ میں اب یہ جاننے کی بے چینی ہے کہ انہوں نے ایسا کون سا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے کہ ان کو اس اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔ ویسے حقیقت میں اس انعام کے لئے سب سے آگے آب و ہوا میں تبدیلی کے خلاف مہم چلانے والی نوجوان ایکٹیوسٹ اور طالب علم گریٹا تھنبرگ سمجھی جا رہی تھیں۔ ایتھوپیا کے وزیرِاعظم ابی احمد کو اپنے بدترین دشمن ملک ایریٹیریا کے ساتھ گزشتہ برس امن قائم کرنے کی وجہ سے سنہ 2019 کے نوبل انعام برائے امن کے لئے 301 ناموں میں سے منتخب کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ان کو یہ انعام دسمبر ماہ میں دیا جائے گا اور نوبل امن انعام کے ساتھ ان کو نوے لاکھ سویڈش کورونا بھی دیئے جائیں گے جو کہ نو لاکھ امریکی ڈالر کے برابر بنتے ہیں۔ سنہ 2018 میں اپریل مہینے میں ایتھوپیا کا وزیرِاعظم بننے کے بعد ابی احمد نے اپنے ملک میں لبرلزم کو پھیلانے کے لیے بے انتہا اصلاحات کا اعلان کیا، اس ملک کے سخت گیر قدامت پسند معاشرے کو مکمل طور پر جھنجوڑ دیا۔ لیکن ان کا سب سے بڑا کام اپنے بدترین دشمن ہمسائے ملک کے ساتھ دو دہائیوں سے جاری تنازعے کو طے کر کے کشیدگی کا خاتمہ تھا۔
ایوارڈ کمیٹی نے ان کے فیصلہ کن اقدامات پر یہ انعام دے کر جہاں مہر لگائی ہے، وہیں انھیں انعام دیئے جانے کا یہ مقصد بھی ہے کہ ایتھوپیا اور مشرقی و شمالی افریقہ میں امن کے قیام کے لیے تمام فریقین کی کوششوں کو تسلیم کیا جائے کیونکہ اگر دیگر فریق ابی احمد کی کوششوں کو قبول نہیں کرتے تو امن کا قیام کیسے ممکن ہوتا۔
ابی احمد ایتھوپیا کے جنوب کے ایک علاقے جیما زوہن میں سنہ 1976 میں ایک أورومو نسل کے مسلم باپ اور ایک أمهرہ نسل کی مسیحی ماں کے یہاں پیدا ہوئے۔ افریقی ممالک میں بین مذاہب میں شادی عام ہے۔ ابی احمد نے کافی تعلیم حاصل کی، ان کے پاس کئی ڈگریاں ہیں اور عدیس ابابا یونیورسٹی سے امن اور سیکورٹی کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے، جبکہ لندن کی یونیورسٹی آف گرینچ سے قیادت کی تبدیلی کے موضوع پر ایک ماسٹرزکی ڈگری بھی ہے۔
اپنی نوجوانی کے زمانے میں انھوں نے الدرغوی حکومت کے خلاف مسلح جد و جہد بھی کی تھی۔ پھر جب الدرغوی دور کا خاتمہ ہو گیا تو انھوں نے مغربی واللاغا میں آصفہ بریگیڈ میں باقاعدہ فوجی تربیت حاصل کی اور تیزی سے ترقی پاتے ہوئے لیفٹینینٹ کرنل بن گئے جہاں وہ انٹیلیجینس اور کمیونیکیشن سروس میں ایک افسر تھے۔
سنہ 1995 میں انھوں نے اقوام متحدہ کی امن فوج کا حصہ ہوتے ہوئے روانڈا میں خدمات سرانجام دی تھیں۔ روانڈا میں سنہ 1994 میں تاریخ کی بدترین نسل کشی کی گئی تھی جب صرف 100 دنوں میں آٹھ لاکھ افراد قتل ہوئے تھے۔ سنہ 1998 سے لے کر 2000 تک کے ایریٹیریا سے سرحدی تنازعے کے دوران انھوں نے ایریٹیریا کے ان علاقوں میں جاسوسی مشن کی قیادت کی جو اس وقت دشمن فوج کے زیرِ قبضہ تھے۔
انھوں نے سنہ 2010 میں سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ وہ أورومو پیپلز ڈیموکریٹک آرگنائیزیشن کے رکن بن گئے۔ اس کے بعد وہ رکن پارلیمان منتخب ہوئے۔
جب وہ پارلیمان کے رکن تھے تو اسی دوران ایتھوپیا کے جیما زون میں مسلمانوں اور مسیحوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات کا آغاز ہوا۔ انھوں نے اس تنازعے کے پائیدار حل کے لیے ایک فورم بنایا جسے ’امن کے لیے مذہبی فورم‘ کا نام دیا گیا۔ وہ اس وقت براعظم افریقہ میں کسی بھی ملک کے سب سے کم عمر سربراہ حکومت ہیں۔
یہ نوبل انعام ان ممالک کے لئے سبق ہے جن کے تعلقات اپنے ہمسایا مملک سے اچھے نہیں ہیں، اس میں چاہے پاکستان ہو یا پھر عرب ممالک ہوں۔ امن کی ان کوششوں کو تسلیم کرنا، دنیا میں امن قائم کرنے کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔ ایتھوپیا ملک چاہے امریکہ کے برابر بڑا اور پیسے والا نہ ہو لیکن اس نے پیغام دے دیا ہے کہ بڑا کام کرنے کے لئے بڑا اور امیر ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کے لئے مثبت سوچ اور اچھی نیت ہونا ضروری ہے۔
( بی بی سی اردو کے ان پٹ کے ساتھ)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 12 Oct 2019, 8:00 PM