اسامہ کی ماں کی زبانی... کون تھا وہ شخص جس نے اسامہ کی زندگی کو بدل دیا

اسامہ بن لادن کی والدہ عالیہ غنیم کہتی ہیں کہ سبھی بچوں میں اسامہ انھیں سب سے زیادہ عزیز تھا لیکن وہ اپنا راستہ بھٹک گیا۔ عبدالعظام نامی ایک شخص کا اس میں بہت بڑا ہاتھ تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

القاعدہ لیڈر اسامہ بن لادن کی والدہ عالیہ غنیم نے ایک غیر ملکی جریدے کو دیے گئے انٹرویو میں اپنے بیٹے کی زندگی سے متعلق کئی انکشافات کیے۔ عالیہ غنیم 11/9کے 17 سال بعد اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کئی حقائق سے پردہ اٹھایا۔ اپنے انٹرویو کے دوران انھوں نے یہ بھی بتایا کہ آخر وہ کون شخص تھا جس نے اسامہ کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ غیر ملکی جریدہ ’گارڈین‘ کے نمائندہ مارٹن چولو کو دیے گئے انٹرویو میں عالیہ غنیم نے کہا کہ ’’اُسامہ بن لادن مجھے اپنے بیٹوں میں سب سے زیادہ عزیز تھا لیکن وہ اپنا راستہ بھٹک گیا۔ اس کے دُور جانے سے میرے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو گیا تھا۔ اُسامہ بچپن میں ایک بہت اچھا اور سُلجھا ہوا بچہ تھا جو مجھ سے بے حد پیار کرتا تھا۔‘‘

عالیہ غنیم اس وقت سعودی عرب میں اپنے دو بیٹوں احمد ، حسن اور اپنے دوسرے شوہر محمد العطاس کے ہمراہ جدہ کے ایک عالی شان محل نما گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ اسامہ کی ابتدائی زندگی کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے عالیہ بتاتی ہیں کہ اُسامہ 1957ء میں سعودی شہر ریاض میں پیدا ہوا، اُسامہ کی پیدائش کے تین سال کے بعد میں نے اپنے پہلے شوہر کو طلاق دی اور محمد العطاس سے شادی کر لی۔انہوں نے اپنے دوسرے شوہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اُسامہ کی تب سے کفالت کی ، جب وہ تین برس کا تھا۔ اُسامہ اور العطاس ایک دوسرے کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آتے تھے۔

عالیہ غینم کا کہنا ہے کہ راستے سے بھٹکنے کے بعد انھوں نے کئی سال اُسامہ سے متعلق کوئی بات نہیں کی ۔ اُسامہ کے دو دہائیوں تک القاعدہ لیڈر رہنے اور امریکہ اور واشنگٹن پر حملے کے 9 سال کے بعدپاکستان میں موت تک عالیہ نے کبھی اپنے بیٹے اُسامہ بن لادن کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔عالیہ غینم اور ان کے خاندان کا انٹرویوحال ہی میں غیر ملکی جریدے گارڈین میں شائع ہوا۔ انٹرویو میں عالیہ نے بتایا کہ اُسامہ بن لادن نے 20 سال کی عمر میں کچھ ایسے لوگوں سے ملاقات کی جنہوں نے اس کا برین واش کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اُسامہ بچپن میں تھوڑا شرمیلا تھا لیکن پڑھائی میں کافی تیز تھا۔ 20 سال کی عمر میں اُسامہ شاہ عبد العزیز یونیورسٹی میں اکنامکس کی تعلیم حاصل کر رہا تھا ، اس یونیورسٹی نے میرے بیٹے کو بدل کر رکھ دیا اور وہ ایک یکسر مختلف انسان بن گیا۔اسی یونیورسٹی میں اُسامہ عبد العظام نامی ایک شخص سے ملا، جسے کچھ عرصہ بعد سعودی عرب سے جلا وطن کر دیا گیا تھا لیکن بعد ازاں وہ اُسامہ کا روحانی پیشوا بن گیا۔

اسامہ بن لادن کے سوتیلے بھائی حسن کے ساتھ ان کی ماں عالیہ غنیم
اسامہ بن لادن کے سوتیلے بھائی حسن کے ساتھ ان کی ماں عالیہ غنیم

عبدالعظام سے اسامہ کے رشتوں کے بارے میں تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے عالیہ غنیم بتاتی ہیں کہ کچھ لوگوں نے اُسامہ کا برین واش کر دیا تھا ، ان کے پاس اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے کافی سارا پیسہ بھی تھا۔ میں ہمیشہ اُسامہ کو ایسے لوگوں سے دور رہنے کی ہدایت کرتی تھی۔وہ مجھے کبھی نہیں بتاتا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے کیونکہ وہ مجھ سے بے حد محبت کرتا تھا۔ 80 کی دہائی کے شروع میں ہی اُسامہ رُوسی قبضے کے خلاف جنگ لڑنےکے لیے افغانستان روانہ ہوگیا۔

اُسامہ کے سوتیلے بھائی حسن نے گارڈین سے بات چیت میں بتایا کہ آغاز میں وہ جس سے بھی ملا، سب اس کی عزت ہی کرتے تھے۔ یہاں تک کہ سعودی حکومت بھی اس سے باعزت اور باوقار طریقے سے پیش آتی تھی لیکن پھر اُسامہ ، مجاہد اُسامہ بن گیا۔ حسن نے اُسامہ کے ایک بہادر سپاہی ہونے سے عالمی مجاہد بننے تک کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ میرا بڑا بھائی تھا اور مجھے اُس پر فخر تھا۔ میں نے اُسامہ سے بہت کچھ سیکھا۔ لیکن میں بطور انسان اُس پر فخر نہیں کرتا ، کیونکہ وہ عالمی سطح پر ایک معروف شخصیت بن گیا تھا۔

اُسامہ کی والدہ اپنے بیٹے کے بارے میں مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ ایک نہایت ذہین بچہ تھا جسے تعلیم حاصل کرنا بے حد پسند تھا۔لیکن اُسامہ نے اپنا سارا پیسہ افغانستان میں ہی لگا دیا جو اس نے خاندانی کاروبار سے چُپکے سے چُرایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میرے ذہن میں کبھی ایسا خیال ہی نہیں آیا کہ میرا بیٹا جہادی بھی بن سکتا ہے۔ اور جب مجھے اس بات کا علم ہوا تو میں بہت پریشان ہو گئی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ ایسا کچھ بھی ہو۔

اُسامہ کے خاندان والوں نے گفتگو کے دوران بتایا کہ ہم نے اُسے 1999 میں آخری بار دیکھا تھا ، تب ہم اس سے ملاقات کے لیے کندھار میں موجود اس کی بیس پر گئے تھے۔عالیہ غینم کہتی ہیں کہ یہ جگہ ائیر پورٹ کے قریب تھی جہاں سے انہوں نے روسی قبضہ ختم کیا تھا۔ ہمیں دیکھ کر اُسامہ بے حد خوش ہوا تھا۔ ہم جتنے دن بھی وہاں رہے اُس نے ہمیں سیر کروائی ، اُسامہ نے ایک جانور کا شکار کیا اور ہم نے کھانا کھایا۔

اُسامہ بن لادن کے سوتیلے بھائی احمد نے بتایا کہ 17 سال ہو گئے لیکن ہماری والدہ کو ابھی تک اُسامہ کے دور جانے اور اس کی موت کا یقین نہیں آتا۔وہ اُس سے بے حد محبت کرتی تھیں اسی لیے اُسامہ کو قصوروار ٹھہرانے کی بجائے وہ اس کے ارد گرد موجود لوگوں کو اس سب کا ذمہ دار مانتی ہیں۔ وہ صرف اُسامہ کا ایک ہی روپ جانتی ہیں، وہ اچھا رُوپ جو ہم سب نے دیکھا تھا۔ انہوں نے کبھی اُسامہ کو جہادی کے طور پر نہیں دیکھا۔ 9/11حملے کے بعد ہم سکتے میں آگئے تھے۔ ہمیں اُسامہ سے رشتوں پر شرمندگی ہونے لگی، ہمیں معلوم تھا کہ ہمیں اس کے بھیانک نتائج بھُگتنے ہوں گے ۔ اسی لیے شام ، لبنان ، مصر اور یورپ میں مقیم ہمارے خاندان کے تمام افراد واپس سعودی عرب آ گئے۔احمد نے مزید بتایا کہ ہمارے سابق ولی عہد محمد بن نائف کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ انہوں نے اُسامہ بن لادن کی اہلیہ اور بچوں کو واپس سعودی عرب آنے کی اجازت دی۔ انہیں شہر میں گھومنے کی اجازت تو ہے لیکن ان کے سعودی عرب سے باہر جانے پر پابندی عائد ہے۔

اُسامہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ میری اکثر اُسامہ کے خاندان سے بات ہوتی ہے، وہ پاس ہی رہتے ہیں۔اُسامہ بن لادن کے بیٹے حمزہ کے جہادی بننے اور افغانستان میں ہونے کی خبروں سے متعلق سوال کے جواب میں اُسامہ کے سوتیلے بھائی حسن نے بتایا کہ اُسامہ بن لادن کے 29 سالہ بیٹے حمزہ کو ہم نے یہ کہتے سُنا تھا کہ میں اپنے والد کی موت کا بدلہ لوں گا۔ اگر حمزہ میرے سامنے ہوتا تو میں اس کو خبردار کر دیتا اور اُسے سمجھاتا کہ کچھ بھی کرنے سے پہلے سوچ لے اور اپنے والد کے نقش قدم پر نہ چلے ، اللہ کی ہدایت حاصل کرے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 03 Aug 2018, 7:53 PM