اومیکرون کو عالمی سطح کے اقدامات سے ہی روکا جاسکتا ہے: سائنسدان

تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ عام زکام کے ساتھ جینیاتی مواد کے اشتراک کی وجہ سے اومیکرون زیادہ پھیلتا ہے۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

یو این آئی

جنیوا: ہلاکت خیز عالمی وبا کووڈ کی انتہائی تبدیل شدہ اومیکرون ویرینٹ نے دنیا بھر کے سائنسدانوں کو الرٹ کر دیا ہے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ عام زکام کے ساتھ جینیاتی مواد کے اشتراک کی وجہ سے اومیکرون زیادہ پھیلتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق اومیکرون سے ظاہر ہوتا ہے کہ کووڈ پر کنٹرول نہیں، عالمی سطح پر کیے اقدامات ہی اس کو روک سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اومیکرون اور عام زکام میں گہرا تعلق سامنے آیا ہے۔ اومیکرون ایک ایسی جینیاتی ترتیب پر مشتمل ہے جو دوسرے وائرس میں عام ہے جو زکام کا سبب بنتے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وائرس کا اومیکرون ویرینٹ ممکنہ طور پر کسی دوسرے وائرس سے عام زکام کا سبب بننے والاجینیاتی مواد حاصل کر لیتا ہے یہ مواد اسی متاثرہ خلیہ میں موجود ہوتا ہے۔ یہ جینیاتی ترتیب پہلے کسی بھی کورونا ویرئنٹ میں ظاہر نہیں ہوئی۔ یہ وائرس آسانی سے منتقل ہوتا ہے اور غیر علامتی بیماری کا سبب بنتا ہے۔


ابتدائی اسٹڈی سے پتہ چلتا ہے کہ پھیپھڑوں اور نظام انہضام میں ایک ہی خلیہ میں کووڈ اور عام سردی والا وائرس پیدا ہوتا ہے اور یہ مشترکہ انفیکشن وائرل اپنی نقلیں بناتا جاتا ہے۔ ایک ہی جینیاتی ترتیب کئی بار کسی ایک وائرس میں ظاہر ہوتی ہے جو لوگوں میں نزلہ، زکام اور ایڈز کا سبب بنتی ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق اومیکرون قسم کے سامنے آنے سے ثابت ہوتا ہے کہ کووڈ پر ہمارا کنٹرول نہیں ہے، صرف عالمی سطح پر اقدامات ہی اس وبا کو روک سکتے ہیں۔ اگر یہ وائرس غیر ویکسی نیشن علاقوں میں پھیلتا رہتا ہے تو اگلی قسم اس سے بھی زیادہ مہلک ہوسکتی ہے۔ دو سال پہلے کووڈ آیا اور ایک سال بعد ہی اس کی ویکسین آگئی اس کے باوجود اس حیران کن پیش رفت کو ضائع کیا جا رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ ابھی چیزیں تبدیل نہیں ہوئیں۔ گھر کے اندر ماسک پہننا، ٹسٹنگ میں اضافہ، سماجی دوری، کورونا مثبت آنے کی صورت میں علیحدگی، اور ویکسی نیشن یہ سب وائرس کی منتقلی اور اس سے بچانے میں معاون ہوسکتے ہیں۔ کووڈ نے لاکھوں لوگوں کو ہلاک کیا، روزمرہ زندگی کو بدل دیا، لاک ڈاؤن سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے، عالمی رہنما وارننگ کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اپنی ہی آبادیوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ وہ آگ سے کھیل رہے ہیں۔


دنیا کے متعدد ممالک ویکسین، ٹسٹ اور علاج تک غیر مساوی رسائی کے خاتمے کے لئے تیار نہیں۔ منصفانہ رسائی یقینی بنانے سے وبا ختم ہو سکتی ہے۔ سائنسی جریدے کے مطابق محققین تعین کرنے میں لگے ہیں کہ تیزی سے پھیلنے والا کورونا وائرس ویکسین کے اثر کے لئے خطرہ ہے، یہ ویکسین کے ذریعے پیدا مدافعتی ردعمل سے بچ سکتا ہے اور کیا یہ دیگر اقسام کی نسبت زیادہ یا کم شدید بیماری کا سبب بنتا ہے۔

جنوبی افریقہ کے ڈاکٹر رچرڈ لیسلز کا کہنا ہے اس قسم کے بارے میں ہم بہت کچھ نہیں سمجھتے ہیں۔ میوٹیشن پروفائل ہمیں تشویش میں مبتلا کر دیتا ہے۔ بہت سی تبدیلیاں ’ڈیلٹا‘اور ’الفا‘ جیسی مختلف ویرینٹس پائی گئی ہیں، اور ان کا تعلق انفیکشن کو روکنے والی اینٹی باڈیز سے بچنے کی صلاحیت میں اضافہ سے ہے۔ کمپیوٹر ماڈلنگ سے ایسے اشارے بھی ملتے ہیں کہ بی 1.1.529 مدافعتی نظام کے ایک اور جزو کی طرف سے دی گئی قوت مدافعت کو روک سکتا ہے۔


سوال یہ ہے کہ کیا یہ ویکسین کی افادیت کو کم کرتا ہے، کیوں کہ اس میں بہت سی تبدیلیاں ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی افریقہ میں جانسن اینڈ جانسن، فائزر، بایو ٹیک اور آکسفورڈ ایسٹرا زینیکا تین قسم کے ویکسین میں سے کوئی ایک حاصل کرنے والے لوگوں میں بریک تھرو انفیکشن کی رپورٹ ملی ہے۔ ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ جن ممالک میں ڈیلٹا بہت زیادہ پایا جاتا ہے انہیں بی 1.1.529 کی علامات پر نظر رکھنی چاہیے اور فوری اقدامات کئے جانے چاہئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔