جاپانی تنظیم کو امن کا نوبل انعام

ایٹمی حملوں میں بچ جانے والے جاپانیوں کی تنظیم ایٹمی ہتھیاروں سے لاحق خطرات سے آگاہ کرنے اور ان کا خاتمے کے لیے کام کرتی ہے۔ نیہون ہیڈانکیو کا مقصد دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے مکمل طور پر پاک کرنا ہے

<div class="paragraphs"><p>نیہون ہیڈانکیو / Getty Images</p></div>

نیہون ہیڈانکیو / Getty Images

user

مدیحہ فصیح

جاپان کے ایٹم بم دھماکوں میں زندہ بچ جانے والوں کی تنظیم، نیہون ہیڈانکیو، جو دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے نجات دلانے کی مہم چلا رہی ہے، کو اس سال کا امن کا نویل انعام دیا گیا ہے۔ یہ اعزاز ہیروشیما اور ناگاساکی کے بم دھماکوں کی 80 ویں برسی سے ایک سال قبل، اور جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال کے بارے میں بڑھتی ہوئی تشویش کے وقت ملا ہے۔ نوبل کمیٹی نے جوہری ہتھیاروں سے پاک دنیا کے حصول کی کوششوں اور متاثرین کی گواہی کے ذریعے اس بات کا مظاہرہ کرنے پر نیہون ہیڈانکیو کو انعام دینے کا فیصلہ کیا کہ جوہری ہتھیاروں کو دوبارہ کبھی استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ 6 اگست 1945 کی صبح ہیروشیما پر امریکی B-29 بمبار کے 15 کلوٹن جوہری بم گرائے جانے کے بعد 60,000 سے 80,000 کے درمیان لوگ فوری طور پر ہلاک ہو گئے، سال کے آخر تک ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 140,000 ہو گئی۔ تین دن بعد، امریکیوں نے ناگاساکی پر پلوٹونیم بم گرایا، جس میں 74,000 افراد ہلاک ہوئے۔ آج، سرکاری طور پر بم دھماکوں کے اثرات سے مرنے والے افراد کی تعداد ہیروشیما میں 344,306 اور ناگاساکی میں 198,785 ہے۔ جاپان کی وزارت صحت کے مطابق، 106,000 زندہ بچ جانے والوں کی اوسط عمر تقریباً 86 ہے۔

نوبل کمیٹی نے کہا کہ اگست 1945 کے امریکی بم دھماکوں میں زندہ بچ جانے والوں، جنہیں ہیباکوشا کے نام سے جانا جاتا ہے، کی گواہی نے ذاتی کہانیاں سنا کر، اپنے تجربے کی بنیاد پر تعلیمی مہم چلا کر، اور فوری انتباہ جاری کر کے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور استعمال کے خلاف وسیع پیمانے پر عالمی مخالفت مضبوط کرنے میں مدد کی ہے۔ اس نے مزید کہا کہ ہیباکوشا نے ہمیں ناقابل بیان کو بیان کرنے، ناقابل تصور کو سوچنے اور کسی نہ کسی طرح جوہری ہتھیاروں کی وجہ سے ہونے والے ناقابل فہم درد اور تکلیف کو سمجھنے میں مدد کی ہے۔ ایک دن ہیباکوشا ہمارے درمیان نہیں رہیں گے، لیکن یاد رکھنے کی روایت اور عزم کے ساتھ جاپان میں نئی نسلیں ان گواہوں کے تجربے اور پیغام کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ کمیٹی نے کہا کہ انسانی تاریخ میں جوہری ہتھیار دنیا کے اب تک کے سب سے زیادہ تباہ کن ہتھیار ہیں۔گوکہ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد جوہری ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا گیا ، لیکن روسی صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین کے خلاف ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کے استعمال کو مسترد کرنے سے انکار کر دیا ہے، جب کہ شمالی کوریا نے ایسے جوہری ہتھیاروں کی تیاری جاری رکھی ہوئی ہے جو بعض ماہرین کے خیال میں امریکی سرزمین پر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔


خبر رساں اداروں نے اطلاع دی ہے کہ نیہون ہیڈانکیو کے شریک چیئرمین، 81 سالہ توشیوکی میماکی نے ہیروشیما میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اس اعزاز سے گروپ کی کوششوں کو بڑا فروغ ملے گا کہ جوہری ہتھیاروں کا خاتمہ ممکن ہے۔ مماکی نے کہا، جوہری ہتھیاروں کو بالکل ختم کر دینا چاہیے۔ یہ خیال کہ جوہری ہتھیاروں سے امن قائم ہوا ایک غلط فہمی تھی۔ ایسا تاثر دیا گیا کہ ایٹمی ہتھیاروں کی وجہ سے دنیا میں امن قائم ہے، لیکن جوہری ہتھیار دہشت گرد استعمال کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر روس انہیں یوکرین کے خلاف استعمال کرتا ہے، اور اسرائیل غزہ کے خلاف ، تو بات یہیں ختم نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کو ان باتوں کا علم ہونا چاہیے۔

جاپان کے وزیر اعظم شیگیرو ایشیبا نے کہا کہ یہ انتہائی معنی خیز ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے کام کرنے والی تنظیم کو امن کا نوبل انعام ملا ہے۔ لیکن کچھ لوگ اس انعام کو جاپان کی قدامت پسند حکومت کی سرزنش کے طور پر دیکھیں گے، جو امریکی جوہری چھتری پر اپنے دفاع کے لیے منحصر ہے اور ان 60 سے زائد ممالک میں شامل نہیں ہے جنہوں نے جوہری ہتھیاروں کے رکھنے اور استعمال پر پابندی کے 2021 کے معاہدے کی توثیق کی ہے۔

اقوام متحدہ کےسیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے جاپانی تنظیم کو مبارکباد دی ہے۔ انہوں نے ہیباکوشا کو ایٹمی اسلحے سے ہونے والے ہولناک انسانی نقصان کے بارے میں کھل کر بات کرنے والے بے لوث گواہ قرار دیا ۔ انہوں نے کہا ، اگرچہ عمر رسیدہ ہونے کے باعث سال بہ سال ان لوگوں کی تعداد کم ہو رہی ہے تاہم، ان کی کاوشوں کو ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے سے متعلق عالمی مہم میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ یہ لوگ اس حقیقت کے جیتے جاگتے گواہ ہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لاحق خطرات محض تاریخ کی کتابوں تک محدود نہیں۔ یہ ہتھیار انسانیت کے لیے واضح اور موجود خطرہ ہیں اور آج بین الاقوامی کشیدگی میں ایک مرتبہ پھر ان کے استعمال کا تذکرہ ہونے لگا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ عالمی رہنما ہیباکوشا کی طرح صورتحال کو اچھی طرح سمجھیں اور جان لیں کہ ایٹمی ہتھیار موت کے ایسے ذرائع ہیں جو تحفظ اور سلامتی مہیا نہیں کرتے۔ دنیا سے ایسے تمام ہتھیاروں کا بیک وقت خاتمہ کرنا ہی اس خطرے کا قلع قمع کرنے کا واحد طریقہ ہے۔ اقوام متحدہ فخریہ طور سے ہیباکوشا کے ساتھ ہے جو ایٹمی اسلحے سے پاک دنیا کی تعمیر کے مقصد سے کی جانے والی مشترکہ کوششوں کے لیے باعث تحریک ہیں۔


ایٹمی ہتھیاروں میں کمی لانا اور بالآخر ان کا خاتمہ کرنا اقوام متحدہ کی ترجیح رہی ہے۔ جنوری 1946 میں منظور کی گئی جنرل اسمبلی کی پہلی قرارداد میں بھی ایٹمی توانائی کی دریافت سے جنم لینے والے مسائل سے نمٹنے کی بات کی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کے ہیباکوشا کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں اور ادارے کے کئی سیکرٹری جنرل ہیروشیما اور ناگاساکی پر بم گرائے جانے کی المناک یاد میں ہونے والی تقریبات میں شرکت کر چکے ہیں۔ موجودہ سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے 2022 میں ہیروشیما کی یادگار پر منعقدہ تقریب میں شرکت کی تھی جہاں انہوں نے خبردار کیا تھاکہ دنیا میں پہلے ہی 13 ہزار ایٹمی بم موجود ہیں جبکہ عالمی سطح پر اسلحے کی نئی دوڑ شروع ہو گئی ہے۔ اپنی حالیہ تقریر میں سیکرٹری جنرل کہہ چکے ہیں کہ دنیا میں موت کے ان آلات کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔