کیا فیس ماسک ایک قسم کی خام ویکسین ہے؟

چہرے کو ڈھانپنے سے کسی فرد میں متاثر کرنے والے وائرس کی کم مقدار جائے تو ان میں معمولی یا بغیر علامات والی بیماری کی تشخیص ہوتی ہے جس سے کسی حد تک امیونٹی یا مدافعت پیدا ہوجاتی ہے۔

علامتی تصویر، سوشل میڈیا، بشکریہ انڈیا ڈاٹ کام 
علامتی تصویر، سوشل میڈیا، بشکریہ انڈیا ڈاٹ کام
user

یو این آئی

ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے ویکسین تیار ہونے سے پہلے دنیا کے پاس پہلے سے ہی ایک قسم کی خام ویکسین موجود ہے اور وہ ہے فیس ماسک۔

طبی ماہرین کے مطابق فیس ماسک کورونا وائرس کے ذرات کو فلٹر کردیتا ہے اور ردعمل کے حوالے سے بالکل ویکسینیشن کی طرح کام کرتا ہے۔ ماسک پہننے والے کے جسم کے اندر اگر ذرات پہنچے بھی تو وہ کسی سنگین بیماری کا باعث نہیں ہوگا۔


محققین کے مطابق اگر چہرے کو ڈھانپنے سے کسی فرد میں متاثر کرنے والے وائرس کی کم مقدار جائے تو ان میں معمولی یا بغیر علامات والی بیماری کی تشخیص ہوتی ہے جس سے کسی حد تک امیونٹی یا مدافعت پیدا ہوجاتی ہے۔

طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اگر یہ نظریہ درست ثابت ہوا تو بڑے پیمانے پر فیس ماسک کا استعمال بڑھے گا اور اس سے کووڈ 19 کے بغیر علامات والے کیسز کی شرح بھی بڑھے گی۔


دیگر طبی ماہرین نے بہر حال انتباہ کیا کہ فیس ماسک کو محفوظ اور موثر ویکسین کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

کیلیفورنیا یونیورسٹی کے محققین ڈاکٹر مونیکا گاندھی اور ڈاکٹر جارج رتھرفورڈ نے کہا ہےکہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ فیس ماسک اس طرح کام کرتے ہیں جیسا نظریہ ان لوگوں نے پیش کیا ہے۔


امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن نے بتایا تھا کہ جولائی کے وسط میں کورونا وائرس کے 40 فیصد کیسز بغیر علامات کے تھے مگر امریکا کے جن حصوں میں ماسک پہننے کا رجحان زیادہ ہے وہاں یہ شرح 80 فیصد تک پہنچ گئی۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ بحری جہازوں میں کورونا وائرس کی وبا کے آغاز میں جب فیس ماسک کا استعمال عام نہیں تھا تو بغیر علامات والے کیسز کی شرح 20 فیصد تھی، مگر ارجنٹائن کے ایک جہاز میں جہاں فیس ماسک کا استعمال عام تھا، وہاں یہ شرح 81 فیصد ریکارڈ ہوئی۔


کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ فیس ماسک کا استعمال بیماری کے خطرے کو کم کرتا ہے جبکہ اس وقت جب دنیا ایک ویکسین کی منتظر ہے، اس وقت بغیر علامات والے مریضوں کی تعداد میں اضافہ اس وبا کو کم جان لیوا بنانے کے ساتھ آبادی کی سطح پر مدافعت کو بھی بڑھا سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔