خلیل زاد کابل میں، افغانستان میں قیام امن کے لئے کوششیں پھر شروع
عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق زلمے خلیل زاد کی افغان حکام سے ملاقات کو نئی سیاسی تبدیلی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ طالبان کے ساتھ مذاکرات منسوخ کردیئے تھے۔
کابل: افغانستان قیام امن کے لئے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے صدر اشرف غنی اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقات کی۔ عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق زلمے خلیل زاد کی افغان حکام سے ملاقات کو نئی سیاسی تبدیلی کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ طالبان کے ساتھ مذاکرات منسوخ کردیئے تھے۔
واضح رہے کہ افغان امن عمل میں امریکہ اور طالبان کے وفود کے مابین متعدد ملاقاتوں کے بعد معاہدہ کے نکات کو حتمی شکل دی جاچکی تھی تاہم محض معاہدے پر دستخط سے پہلے افغانستان میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد امریکی صدر نے ٹوئٹر پر طالبان سے تمام مذاکرات کو منسوخ کردیا تھا۔ گزشتہ روز زلمے خلیل زاد کی افغان صدر سے ملاقات کے بعد قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا کہ امریکی صدر ایک مرتبہ پھر منسوخ کیے گئے مذاکرات کا عمل شروع کرنے میں دلچسپی لے رہا ہے۔
دوسری جانب زلمے خلیل زاد کی افغان دارالحکومت میں آمد کے بعد صدر انتخاب کے نتائج کے اعلان میں ایک ماہ کی تاخیر متوقع ہے، شاید اس کی وجہ سیاسی غیر یقینی اور فراڈ کے الزامات کا راستہ روکنا ہے۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ترجمان صادق صادقی نے بتایا کہ زلمے خلیل زاد نے افغان صدر سے ملاقات میں ان کی حالیہ مصروفیات کے بارے میں بتایا۔
انہوں نے بتایا کہ زلمے خلیل زاد نے افغانستان میں امن کے لئے افغان حکومت کے کردار سے متعلق اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کیا۔ افغان صدارتی دفتر کی جانب سے جاری ریلیز میں کہا گیا کہ ’’زلمے خلیل زاد کا مقصد واضح تھا کہ اشرف غنی کو افغان امن عمل سے متعلق اپنی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ کیا‘‘۔ دوسری جانب افغانستان کے سیاسی رہنما نے زلمے خلیل زاد کی کابل میں موجودگی کی تصدیق کی۔
دریں اثنا نیشنل اسلاملک فرنٹ افغانستان کے رہنما سید حامد گیلانی نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ ’’انہوں نے زلمے خلیل زاد اور ان کی ٹیم سے ملاقات میں امن عمل اور صدارتی انتخاب سے متعلق تبادلہ خیال کیا‘‘۔ اس ضمن میں کابل میں امریکی سفارتخانے نے تبصرہ کرنے سے انکار کیا لیکن حکام نے بتایا کہ زلمے خلیل زاد کا اگلا دورہ پاکستان کا ہوسکتا ہے۔
پاکستان میں سینئر طالبان ذرائع نے بتایا کہ ’’طالبان نے مذاکرات سے پسپائی اختیار نہیں کی، گیند امریکہ کے پالے میں ہے، اب اس کی مرضی جہاں چاہے لے جائے‘‘۔ واضح رہے کہ 26 اکتوبر کو افغان امن کانفرنس کے دوران پاکستان، روس اور چین نے مذاکرات کو افغانستان تنازع کا واحد حل تسلیم کرتے ہوئے مذاکراتی عمل کی جلد بحالی پر زور دیا تھا۔ خیال رہے ماسکو میں منعقدہ افغان امن کانفرنس میں پاکستان، چین، روس اور امریکہ کے وفود نے حصہ لیا تھا۔
کانفرنس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں بتایا گیا کہ چار ملکی مشاورت کے دوسرے دور میں افغانستان میں دیرپا امن قیام امن کے لئے اقدامات کے حوالہ سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ چاروں ممالک نے تسلیم کیا تھا کہ افغان مسئلے کا واحد حل سیاسی مذاکرات میں ہی ہے جبکہ پاکستان، روس اور چین نے مذاکراتی عمل کی جلد بحالی پر زور دیا۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 19 اکتوبر کو ایک ایسے وقت میں طالبان کے ساتھ مذکرات معطل کرنے کا اعلان کیا تھا جب دونوں فریقین طویل عرصے تک گفت و شنید کے بعد کئی نکات پر متفق ہوچکے تھے اور حتمی معاہدے کا عندیہ دیا جا چکا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اچانک ٹوئٹ کے بعد افغان طالبان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ مذاکرات کی بحالی کے امکانات موجود ہیں لیکن یہ امریکہ کی ضرورت ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔