ایرانی جماعتوں اور دھڑوں کے درمیان رسہ کشی ایک ’خوفناک زہر‘: جواد ظریف
ایرانی جماعتوں اور دھڑوں کے درمیان رسہ کشی ایک ’خوفناک زہر‘ ہے جو ملکی خارجہ پالیسی کو متاثر کر رہا ہے، استعفی کا اعلان کرنے والے ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ بات کہی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق محمد جواد ظریف کے اس بیان سے لگتا ہے کہ انہوں نے اُن سخت گیر عناصر کے دباؤ کے سبب وزیر خارجہ کے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے، جو 2015ء میں عالمی برادری کے ساتھ طے پانے والے ایرانی جوہری معاہدے میں ان کے کردار پر اعتراض کرتے آ رہے تھے۔
جواد ظریف 2013ء سے ایرانی وزیر خارجہ کی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے اور عالمی برادری کے ساتھ 2015ء میں طے پانے والے تہران کے جوہری معاہدے کے طے پا جانے میں بھی انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
ایرانی اخبار ’جمہورِ اسلامی‘ سے بات کرتے ہوئے ظریف نے کہا، ’’ہمیں سب سے پہلے اپنی خارجہ پالیسی کو جماعتوں اور دھڑوں کی لڑائی سے الگ کرنا ہو گا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’خارجہ پالیسی کے لیے یہ بات زہر قاتل کی طرح ہے کہ اسے جماعتوں اور دھڑوں کی لڑائی کا حصہ بنا دیا جائے۔‘‘
ایران کی فارس نیوز ایجنسی کے مطابق جواد ظریف سے یہ انٹرویو گزشتہ ہفتے لیا گیا تھا، یعنی ان کے وزارت خارجہ کے عہدے سے استعفیٰ دینے سے قبل۔ اس کے بعد پیر پچیس فروری کو ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر لکھا تھا، ’’اپنی ذمہ داری مزید جاری نہ رکھنے اور اپنی مدت وزارت کے دوران خامیوں اور کوتاہیوں پر میں معذرت خواہ ہوں۔‘‘
ایرانی صدر حسن روحانی نے ابھی تک جواد ظریف کا استعفیٰ باقاعدہ طور پر قبول نہیں کیا۔ ایرانی پارلیمانی ارکان کی ایک بڑی تعداد نے صدر حسن روحانی کو لکھے گئے ایک ایسے خط پر دستخط کیے ہیں، جس میں ان سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ جواد ظریف کے استعفے کو قبول نہ کریں۔
جواد ظریف نے اپنے انٹرویو کے دوران یہ بھی کہا کہ انہوں نے جوہری معاہدے کے سلسلے میں بات چیت کے دوران سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی رہنمائی پر عمل کیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس معاہدے سے الگ ہونے کے معاملے میں ایرانی صدر حسن روحانی کے بجائے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے نیشنل سکیورٹی کے مشیر جان بولٹن کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔ ٹرمپ نے گزشتہ برس مئی میں ایران کے ساتھ کیے گئے جوہری معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا تھا، جس کے بعد واشنگٹن نے دوبارہ تہران پر سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
اپنے اس انٹرویو میں جواد ظریف نے کہا، ’’ٹرمپ کی مذمت کے بجائے آپ لوگوں کے منتخب کردہ صدر کی مذمت کرنے کیوں چلے آتے ہیں؟ آپ آتے ہیں اور خارجہ پالیسی کی مذمت کرتے ہیں؟ اس کے کیا نتائج نکلیں گے؟ نتیجہ یہ ہو گا کہ لوگ مستقبل کے حوالے سے امید کھو بیٹھیں گے۔‘‘
ایرانی نیوز ایجنسی IRNA کے مطابق جواد ظریف نے ملکی وزارت خارجہ کے سفارت کاروں اور دیگر اہلکار پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے عہدوں سے الگ نہ ہوں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔