ہند-امریکہ دنیا کے دو بڑے جمہوری ملک لیکن انتخابی عمل مختلف، کہیں ایوان زیریں تو کہیں ایوان بالا کو اہمیت

امریکہ میں ایوان بالا سینیٹ ہے جہاں ہر ریاست سے دو نمائندے یعنی سینیٹر چنے جاتے ہیں، چاہے اس ریاست کی آبادی کتنی بھی ہو۔ کُل 100 سینیٹر ہوتے ہیں۔ اس کے ممبر کا انتخاب 6 سال کے لیے ہوتا ہے۔

ہندوستان۔امریکہ، تصویر آئی اے این ایس
ہندوستان۔امریکہ، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

ہندوستان اور امریکہ دنیا کے دو بڑے جمہوری ملک ہیں لیکن دونوں ملکوں کا انتخابی عمل کافی مختلف ہے۔ دونوں ہی ملکوں میں شہریوں کی حصہ داری اہم ہے۔ ہندوستان میں وزیر اعظم کے پاس ایگزیکٹیو اختیارات ہوتے ہیں تو امریکہ میں صدر کے پاس۔ امریکہ میں صدارتی انتخاب کے لیے پرائمری اور کاکس جیسے عمل ہوتے ہیں۔ جبکہ ہندوستان میں عام انتخابات میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں کے درمیان براہ راست مقابلہ ہوتا ہے۔

دونوں ممالک کے انتخاب میں ایک بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان میں ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کا انتخاب جیتنے کے لیے ہر رہنما زور آزمائش کرتا ہے لیکن امریکہ میں ایوان بالا یعنی سینیٹ میں جانے کے لیے رہنماؤں میں ہوڑ ہوتی ہے۔ آخر ایسا کیوں؟ دراصل ہندوستان میں ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کا انتخاب جیتنا رہنماؤں کے لیے زمینی سیاسی پکڑ کی مثال ہوتی ہے وہیں ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا کو سیاسی گلیارے کا پچھلا دروازہ مانا جاتا ہے۔ امریکہ میں معاملہ بالکل برعکس ہے۔ وہاں رہنما ایوان زیریں یعنی ہاؤس آف ری پرزنٹیٹیو میں جانا کم پسند کرتے ہیں اور ایوان بالا یعنی سینیٹ میں جانا زیادہ۔


امریکہ کے اس سیاسی حساب و کتاب کو سمجھنے کے لیے وہاں کے پارلیمانی سسٹم اور انتخابی سسٹم کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ہندوستان کے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی طرح امریکی پارلیمنٹ یا کانگریس میں بھی دو ایوان ہیں۔ ہندوستان میں ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا کی طرح وہاں کا ایوان بالا سینیٹ ہے۔ سینیٹ میں ہر ایک ریاست سے دو نمائندے یعنی سینیٹر چنے جاتے ہیں، چاہے اس ریاست کی آبادی کتنی بھی ہو۔ کُل 100 سینیٹر ہوتے ہیں۔ اس کے ممبر کا انتخاب 6 سال کے لیے ہوتا ہے۔

وہیں ہندوستان کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کی طرح وہاں ہوتی ہے ہاؤس آف ری پرزنٹیٹیو۔ اس کے اراکین کا انتخاب ریاست کی آبادی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس میں کُل 435 اراکین ہوتے ہیں۔ حکومت کو چلانے میں دونوں ایوانوں کا ایک جیسا کردار ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں سے کسی ایک میں بھی زیادہ ووٹوں سے کسی بل کو پاس کیا جا سکتا ہے۔ ہاؤس آف ری پرزنٹیٹیو کا ممبر دو سال کے لیے منتخب ہو کر آتا ہے۔


سینیٹر 6 سال کے لیے منتخب ہوتا ہے اس لیے اس کے انتخاب کے تحت آئے رہنما کی اقتدار میں طویل حصہ داری ہوتی ہے۔ براک اوباما جیسے کئی بڑے رہنما سینیٹ کے راستے وہائٹ ہاؤس تک بھی پہنچے ہیں۔ جبکہ ہاؤس آف ری پرزنٹیٹیو میں رہنما صرف دو سال کے لیے منتخب ہوتا ہے۔ سینیٹ کے پاس اہم فیصلہ لینے کی طاقت بھی ہوتی ہے۔ سینیٹ میں رکن بننے سے رہنماؤں کو مواخزہ، صدر کی تقرریوں کی تصدیق اور غیر ملکی معاہدوں کو منظوری دینے جیسے اہم فیصلوں میں شراکت داری کا موقع ملتا ہے۔ یہ طاقت انہیں سیاسی اثر و رسوخ فراہم کرتی ہے۔

غیر ملکی معاہدوں کی تصدیق اور صدر کے ذریعہ کی گئی اہم تقرریاں، جیسے کہ ججوں اور کابینہ اراکین کی تصدیق، صرف سینیٹ کی منظوری سے ہوتی ہے۔ سینیٹ کو گرفتاری سے آزادی ہے۔ ایوان کے اجلاس کے دوران سینیٹ کے اراکین کو سول معاملوں میں گرفتاری سے چھوٹ حاصل ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں پر عمل کر سکیں۔


ہندوستان میں ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کے رکن کو سیدھے لوک سبھا حلقوں کے ووٹر چنتے ہیں جبکہ راجیہ سبھا کا انتخاب ایک سسٹم ہے جس میں عوام کے ذریعہ منتخب نمائندے ووٹنگ میں حصہ لیتے ہیں۔ امریکہ میں سینیٹ کے اراکین کا انتخاب براہ راست ریفرنڈم سے ہوتا ہے۔ ہر ریاست سے دو سینیٹ رکن منتخب ہوتے ہیں۔ ڈیموکریٹک اور ریپبلکن پارٹی اپنے اپنے امیدواروں کا اعلان کرتی ہے۔ پہلے ریاستوں میں ابتدائی انتخاب ہوتے ہیں جس میں ووٹر اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں۔

ابتدائی انتخابات کے نتیجوں کی بنیاد پر ہر سیاسی پارٹی کا نیشنل کنونشن ہوتا ہے جہاں آخری امیدوار کا انتخاب ہوتا ہے۔ پھر نیشنل کنونس میں منتخب ہوئے امیدوار کی حمایت میں ریفرنڈم ہوتا ہے، جس میں ووٹر اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں۔ حالانکہ ووٹر سیدھے سینیٹ رکن کا انتخاب نہین کرتے لیکن الیکٹورل کالج کے توسط سے بالواسطہ طور سے انتخابی عمل میں شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح امریکہ کے 50 ریاستوں سے 100 سینیٹر منتخب ہوتے ہیں۔


امریکی صدارتی انتخاب میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا کردار براہ راست نہیں ہوتا۔ صدر کا انتخاب خاص طور سے عوام کے ووٹ اور الیکٹورل کالج کے توسط سے کیا جاتا ہے۔ ہر ریاست میں صدارتی انتخاب کے لیے الیکٹورل کالج کے اراکین کا انتخاب ہوتا ہے۔ ہر ریاست کے پاس الیکٹورل ووٹوں کی تعداد اس کی آبادی اور کانگریس میں اس کے نمائندگان کی تعداد پر منحصر کرتا ہے۔ کُل ملاکر امریکہ میں 538 الیکٹورل ووٹ ہوتے ہیں۔ سینیٹ اور ایوان نمائندگان کے اراکین کی تعداد ریاستوں کے لیے الیکٹورل ووٹوں کی تعداد مقرر کرتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔