خواتین کی صرف نصف آبادی جسمانی طور پر خود مختار
اقوام متحدہ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں خواتین کی صرف نصف تعداد جسمانی طور پر خود مختار ہے۔ دوسرے نصف حصے کو ریپ، جنسی استحصال، جبراﹰ بانجھ بنا دیے جانے جیسے حملوں اور مسائل کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ کی اس نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترقی پذیر معاشروں میں عورتوں کی نصف آبادی کو یہ اختیار ہی حاصل نہیں کہ وہ اپنے جسم اور اس کے ذریعے اپنی ذات اور شخصیت پر اثر انداز ہونے والے حالات، واقعات اور عوامل سے متعلق تمام فیصلے خود کر سکیں۔
اس کا نتیجہ یہ کہ بات چاہے جنسی میل ملاپ کی ہو، صحت کی سہولیات کی دستیابی کی یا مانع حمل ذرائع کے استعمال کی، دنیا کے غیر ترقی یافتہ اور کم ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کی تقریباﹰ نصف تعداد اپنے جسموں سے متعلق کیے جانے والے فیصلوں پر کسی بھی طرح کے کنٹرول سے محروم ہے۔ ان عورتوں اور لڑکیوں کے لیے یہ فیصلے دوسرے لوگ کرتے ہیں۔
'میرا جسم تو میرا اپنا ہے‘
عالمی ادارے کی طرف سے دنیا کے 57 ترقی پذیر ممالک میں خواتین کی صورت حال سے متعلق بدھ تیرہ اپریل کو جاری کردہ اس رپورٹ کو ''میرا جسم تو میرا اپنا ہے‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں شامل کردہ اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ ان تقریباﹰ پانچ درجن ممالک کی عورتوں میں سے ہر دوسری عورت اس حوالے سے خود آزادانہ فیصلے کرنے سے محروم ہے کہ اس کو جسمانی طور پر کس طرح کے حالات کا سامنا ہے یا ہو گا۔
اس رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ اپنے لیے 'باڈی اٹانومی‘ (body autonomy) یا جسمانی خود مختاری سے محروم خواتین کو 'دوسروں کے کیے گئے‘ جن فیصلوں کے نتائج بھگتنا پڑتے ہیں، ان میں جنسی زیادتی اور جنسی استحصال جیسے حملوں سے لے کر طبی طور پر بانجھ بنا دیے جانے اور جنسی اعضاء کی قطع برید جیسے ظالمانہ اقدامات بھی شامل ہیں۔
'کروڑوں عورتیں اور لڑکیاں اپنے ہی جسموں کی مالک نہیں‘
عالمی ادارے کے جنسی اور تولیدی صحت سے متعلق ادارے کا نام 'اقوام متحدہ کا آبادی سے متعلقہ امور کا فنڈ‘ (UNFPA) ہے۔ اس ادارے کی سربراہ نتالیا کانیم نے اس رپورٹ کے اجراء کے موقع پر کہا، ''اس صورت حال کا خلاصہ یہ ہے کہ کئی سو ملین عورتیں اور لڑکیاں خود اہنے ہی جسموں کی مالک نہیں ہیں۔ ان کی زندگیاں دوسروں کے کنٹرول میں ہیں۔‘‘
یو این ایف پی اے کی سربراہ کے مطابق ایسی خواتین اور لڑکیوں کے لیے ان کے جسموں سے متعلق فیصلے کرنے والے ان 'دوسرے‘ انسانوں اور گروپوں میں متاثرہ عورتوں اور لڑکیوں کے شریک حیات، اہل خانہ، معاشرہ اور حکومتیں سبھی شامل ہوتے ہیں۔
درپردہ عوامل اور مسائل کیا؟
عالمی ادارے کے آبادی سے متعلقہ امور کے فنڈ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نتالیا کانیم نے کہا کہ اس وسیع تر ناانصافی کے پس پردہ عوامل کو بنیادیں اکثر معاشرتی ڈھانچے، سماجی مسائل، پدر شاہی روایات اور جنسی معاملات سے جڑی ہوئی وہ باتیں فراہم کرتی ہیں، جن کے بارے میں کھل کر بات کرنے کو ایک ممنوعہ موضوع سمجھا جاتا ہے۔
نتالیا کانیم کے الفاظ میں، ''یہ وہ بڑے اسباب ہیں، جن کی وجہ سے متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کے مرد رشتے دار اور اہل خانہ اپنی زیادہ بااثر او طاقت ور حیثیت کا استعمال کرتے ہوئے متعلقہ نسوانی آبادی کے ان کے جسموں سے متعلق اختیارات اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں۔‘‘
جسمانی خود مختاری چھین لیے جانے کے نتائج
یو این ایف پی اے کی اس رپورٹ کے مطابق جب متاثرہ خواتین کو انہی کی ذات سے متعلق ان کے شخصی اختیارات اور حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے، تو خاندانی سے لے کر سماجی سطح تک عدم مساوات میں اضافہ ہوتا ہے اور یہی ناانصافی صنفی امتیاز کے رجحان کو بھی تقویت دیتی ہے۔
نتالیا کانیم نے کہا، ''جب کنٹرول متعلقہ نسوانی آبادی کے بجائے دوسروں کے پاس رہتا ہے، تو متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے جسمانی خود مختاری کی منزل کا حصول ممکن نہیں رہتا۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔